امریکی صدر ٹرمپ کی بے لگام و بدتمیز میڈیا سے نفرت ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ بارہا بی بی سی، سی این این، نیویارک ٹائمز سمیت کئی چینلوں اور اخبارات کو دو کوڑی کے رپورٹر، چیتھڑے، متعصب اور گھٹیا کے القابات سے سرفراز کر چکے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی وزیر مشیر بھی یہی زبان استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ٹرمپ انتظامیہ میڈیا سے زیادہ اعتبار اپنے ٹویٹر ہینڈل پر کرتی ہے۔
نریندر مودی جب سے وزیرِ اعظم بنے انہوں نے ایک بھی کھلی پریس کانفرنس نہیں کی۔ صرف ایسے چینلوں اور اخبارات کو انٹرویوز دینے کا اعزاز بخشا جو ان کا قالین بن چکے ہیں۔ ارنب گوسوامی جیسا اینکر جو راہول گاندھی سمیت ہر ہما شما کے چیتھڑے اڑا دینے کے لئے مشہور ہے۔ جب مودی کے روبرو آتا ہے تو ایسے انداز میں پیش آتا ہے گویا پردھان منتری کا اسٹینو آدھی کرسی پر بیٹھ کر ڈکٹیشن لے رہا ہو۔
اٹھارہ اگست سے بننے والے نئے پاکستان کے ہر شعبے میں اصلاحات کے لیے نئے اور تخلیقی آئیڈیاز دینے کے لیے خصوصی مشاورتی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں مگر میڈیا سے پرانے انداز میں ہی نمٹا جا رہا ہے۔ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے عہدہ سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ ہمیں خبروں سے زیادہ انٹرٹینمنٹ کی ضرورت ہے۔
پرانے کی طرح نئے پاکستان میں بھی جو چینل، اخبارات اور صحافی پہلے سے کھچی حب الوطنی کی لکیر پار کرنے کی کوشش کریں گے انہیں بالائے ریاست اداروں کی جانب سے ٹیلی فونک دھمکیوں، نامعلوم دفاتر میں طلبی، مضامین و کالم رکوائے جانے اور غیر اعلانیہ سنسر شپ کا سامنا رہے گا۔
سرکاری اشتہارات بطور ہتھیار استعمال ہوتے رہیں گے۔ کیبل آپریٹرز کے ذریعے چینلز کی نشریات الٹ پلٹ ہوتی رہیں گی، ہاکروں کو غیر معروف عناصر مخصوص اخبارات فروخت کرنے سے باز رہنے کا حکمیہ مشورہ دیتے رہیں گے۔ حتیٰ کہ انسدادِ دہشت گردی اور غداری کی دفعات کے تحت ’قلمی غداروں اور دہشت گردوں‘ سے نمٹنے کا عمل بھی قومی مفاد میں جاری رہے گا۔ یوں سمجھو کہ ضیا الحق کا دورِ ماضی بھی اچھا لگنے لگا ہے۔
نئی حکومت خلق ہونے کے بعد سے ناپسندیدہ صحافیوں کو پریس بریفنگز سے علیحدہ رکھنے کا چلن تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اب تو پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کو بھی صرف منتخب سرکاری مصروفیات کی کوریج کی اجازت ہے۔
ثبوت یہ ہے کہ جب عمران خان وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہلی بار کراچی آئے تو میڈیا سے خان صاحب کی ملاقات کی فہرست سے عین وقت پر ڈان گروپ کا نام خارج کر دیا گیا۔ اور جب دو روز قبل وزیرِ اعظم پہلی بار منتخب ہونے کے بعد پشاور گئے تو سرکاری خبر رساں اداروں کے مقامی نمائندوں کو بھی کہہ دیا گیا کہ آپ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس آنے کی زحمت نہ کریں۔ وزیرِ اعظم اسلام آباد سے اپنی میڈیا ٹیم ساتھ لائے ہیں۔
مگر نئی حکومت کا بھی قصور نہیں۔ دراصل میڈیا ہی بدتمیز ہے۔ پاک پتن کے طاقتور مانیکا خاندان کے دباؤ پر ڈی پی او کے راتوں رات تبادلے کی خبر اچھالنے کو تو حکومت نے اعلیٰ ظرفی سے برداشت کر لیا۔ مگر کم ظرف میڈیا نے اسی پر بس نہیں کی۔
اب بھلا یہ بھی کوئی چھاپنے کی خبر ہے کہ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بھری قومی اسمبلی میں سابقہ حکومتوں کو چوروں اور ڈاکوؤں کی حکومت کہا اور ایک گستاخ چینل نے وزیرِ اطلاعات کو یاد دلایا کہ نون لیگ کے سابق وزیر خواجہ آصف نے جب ایک پی ٹی آئی رکنِ اسمبلی کے لئے ٹریکٹر ٹرالی جیسے سستے الفاظ استعمال کئے تھے تو پارلیمانی اخلاقیات کی سب سے زیادہ وکالت فواد چوہدری نے ہی کی تھی۔
ایک انگریزی اخبار کا کیا بگڑ جاتا اگر یہ خبر پی جاتا کہ پنجاب کے وزیرِ جیل خانہ جات زوار حسین نے علی الصبح کوٹ لکھپت جیل میں عملے کو ایک جانب کھڑا کر کے چابیاں چھین کر زبردستی خطرناک قیدیوں کی بیرک کھلوائی اور خود کش حملوں میں ملوث ایک ملزم سے بھی ملاقات کی۔ حالانکہ خبر یہ بننی چاہئیے تھی کہ وزیرِ موصوف کے ترجمان کے بقول وزیرِ جیل خانہ نے قیدیوں کی شکایات سننے کے لیے اچانک جیل پر علی الصبح چھاپہ مارا اور جیلر نے وزیر صاحب کے طرزِ عمل کے بارے میں حکامِ بالا کو جو رپورٹ بھیجی ہے وہ سراسر جھوٹی ہے۔
یا یہ بھی کوئی چھاپے جانے والی خبر ہے کہ عدالتی نااہلی کے باوجود پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے دو ہفتے قبل وزیرِ اعظم ہاؤس میں خوراک و زراعت سے متعلق اعلی سطحی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ جس میں کئی وفاقی افسروں اور مشیروں نے شرکت کی اور ترین صاحب کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا۔اگر نااہلی کے باوجود ترین صاحب ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو میڈیا کو کیوں تکلیف ہے۔
یہ کیسا میڈیا ہے جو پہلے سو دن میں بھی نئی حکومت کی عیب جوئی سے باز نہیں آ رہا۔ الٹا صحافتی تنظیموں نے نو اکتوبر کو میڈیا کا مرحلہ وار گلا گھونٹنے کے مبینہ عمل کے خلاف ملک گیر یومِ سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔
میڈیا کچھ بھی کر لے تبدیلی کے پہئیے کو نہیں روک سکتا۔لہذا میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں ’نمبردار کے لڑکوں‘ سے بنا کے رکھنے میں ہی عافیت ہے۔ آگے میڈیا کی مرضی۔
ربط