محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
یہ بیماری تو شہباز شریف کو بھی لاحق رہتی ہے وقتا فوقتاچوہدری نثار نے کمر درد کی وجہ سے پریس کانفرنس ملتوی کر دی۔
کیوں نا کمر درد کو قومی بیماری کا درجہ دے دیا جائے
چوہدری نثار نے کمر درد کی وجہ سے پریس کانفرنس ملتوی کر دی۔
کیوں نا کمر درد کو قومی بیماری کا درجہ دے دیا جائے
میرا خیال ہے کہ چودھری نثار کی نواز سے حالیہ ناراضگی کا ایک بڑا سبب نواز کی خواجہ آصف سے قربت اور خواجہ آصف کا 45 دن کے لئے عارضی وزیراعظم بننے کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ چودھری نثار اور خواجہ آصف کی 4 سال سے زائد عرصہ سے بول چال تک بند ہے۔ ایسے ماحول ماحول میں نثار کیسے خواجہ آصف کے ماتحت وزیر داخلہ رہ سکتے ہیں!!اس طرح ہم اپنے دوست کے ساتھ لگائی گئی 'شرط' جیت گئے۔ چوہدری صاحب مسلم لیگ نون سے جائیں گے تو کہاں جائیں گے؟ ہر پارٹی میں وزارتِ عظمیٰ کے تگڑے امیدوار موجود ہیں۔ الگ پارٹی بنانے سے تو وہ رہے۔ ان کے وزیراعظم بننے کا واحد امکان یہی تھا کہ نواز شریف کسی بھی وجہ سے مستعفی ہو کر انہیں وزیراعظم بنا دیں تاہم نواز شریف جتنے بھولے دِکھتے ہیں، اتنے بھولے ہیں نہیں۔ انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ چوہدری صاحب وزیراعظم بنے تو پینتالیس دن کے وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ ان کے لوکل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط تو سب پر آشکار ہیں تاہم انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف نے ان کی بننے نہ دی۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ وزیرخارجہ بنتے تاہم نواز شریف نے اس عہدے کو اپنے لیے مخصوص کر لیا۔ دراصل بعض حلقوں کی جانب سے 2014ء سے یہی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی بھی طرح نواز شریف مستعفی ہو جائیں اور چوہدری صاحب وزیراعظم بن جائیں لیکن ان کے راستے میں بڑی بڑی رکاوٹیں موجود ہیں۔
1۔ اپوزیشن ان کے نام پر متفق نہیں ہو سکتی۔
2۔ حکومتی پارٹی میں ان پر تنقید کرنے والے افراد بے شمار ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
3۔ نواز شریف کو ان پر اعتماد نہیں۔
تاہم، اتنا سب کچھ لکھنے کے باوجود، یہ کہتے ہی بنے گی کہ چوہدری نثار کا ہم دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔ ان کی بالغ نظری کے بھی ہم قائل ہیں۔ تاہم، پاپولر پالیٹکس کے میدان میں وہ کبھی کامیاب نہیں رہے۔ ہاں، محلاتی سازشوں کے وہ گواہ ہیں اور عینی شاہد بھی۔ ان کی ناراضی کی وجہ بھی سب کو معلوم ہے کہ انہیں بائی ڈیفالٹ بھی نواز شریف کا جانشین نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ شاید انا کے مارے اس سیاست دان کو یہ بات بہت ہی بری لگی کہ ان کی وفاداری پر بھی شک کا اظہار کیا گیا اور اہم معاملات کے حوالے سے انہیں مشاورت میں جزوی طور پر بھی شامل نہیں کیا گیا۔
چوہدری نثار علی خان کی سب سے بڑی الجھن یہی تھی کہ وہ پریس کانفرنس کرنے کے بعد کیا کریں گے؟
اگر وہ ایسا کر جاتے یا اب بھی کر جائیں تو ان کے پاس سیاسی حوالے سے 'ریٹائرمنٹ' کے سوا کوئی چارہء کار نہیں ہے۔ پریس کانفرنس کے بعد ان کی یہ حیثیت بھی برقرار نہیں رہے گی، جو کہ اب تک کسی نہ کسی حد قائم ہے۔ ملے جلے جذبات
یہ تو حالیہ ناراضی کی وجہ ہے اور آپ کا تجزیہ درست ہے۔ تاہم، یہ معاملہ کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ ہر پارٹی میں 'کئی ممکنہ وزیراعظم' موجود ہوتے ہیں تاہم لوکل اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ 'چوہدری نثار' ہی تھے۔ خواجہ آصف کا نام سامنے لانے کی بظاہر وجہ یہی ہے کہ نواز شریف کو سیلوٹ مارنے میں سبکی محسوس کرنے والوں کی اُس وقت کیا حالت ہو گی جب انہیں خواجہ صاحب کو سیلوٹ مارنے پڑیں گے؟میرا خیال ہے کہ چودھری نثار کی نواز سے حالیہ ناراضگی کا ایک بڑا سبب نواز کی خواجہ آصف سے قربت اور خواجہ آصف کا 45 دن کے لئے عارضی وزیراعظم بننے کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ چودھری نثار اور خواجہ آصف کی 4 سال سے زائد عرصہ سے بول چال تک بند ہے۔ ایسے ماحول ماحول میں نثار کیسے خواجہ آصف کے ماتحت وزیر داخلہ رہ سکتے ہیں!!
جے اسی تسی ایس عمر تک اپڑ گئے تے ساڈا حال انھاں توں وی بھیڑا ہونا اے۔یہ بیماری تو شہباز شریف کو بھی لاحق رہتی ہے وقتا فوقتا
چودھری نثار میں اور بڑی خرابی ان کی لیڈرانہ شخصیت بھی ہے ۔ اور وہ تحریک انصاف میں بھی پسندیدہ نظروں سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ایسا خطرناک شخص شریفوں کی بہت آسانی سے جگہ لے سکتا ہے۔چوہدری نثار عسکری گھرانے کے چشم و چراغ اور ایک دائمی مریض ہیں۔ عسکری حلقوں سے قریبی تعلقات اور مستقل رہنے والی بیماری کی وجہ سے وہ وزارت عظمیٰ کے لیے ایک مناسب امیدوار نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ پارٹی میں موجود مضبوط دھڑے انھیں کسی صورت وزیراعظم کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔
کپتان نے 1983 میں فلیٹ خریدنے کے باوجود 1987 میں گھر کے لئے وزیر اعلی کو درخواست دی کہ میرے پاس ذاتی گھر نہیں ہے
موصوف کو کارزار سیاست کا انوکھا لاڈلہ اور مہاتما ایسے ہی تو نہیں کہا جاتا۔کپتان نے 1983 میں فلیٹ خریدنے کے باوجود 1987 میں گھر کے لئے وزیر اعلی کو درخواست دی کہ میرے پاس ذاتی گھر نہیں ہے
آگے نوجوان لڑکیا ں اور ان کے پیچھے لڑکے ہی لڑکے اچھا اس طرح رش اکٹھا کرتے ہیں۔