سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نواز شریف کو راولپنڈی اسلام آباد میں کوئی ادھار نان چھولے بھی نہیں دے رہا، سب کو پتہ ہے پیسے ڈوب جانے ہیں۔

شاہد مسعود
 

فرقان احمد

محفلین
شاہد مسعود، شیخ رشید اور اسد کھرل کے بعد سب سے زیادہ تُکے محکمہ موسمیات لگاتا ہے۔
eid_perp.jpg
 
یہ درست ہے کہ میں نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ کوئی تحقیقاتی کمیشن میرے خلاف چھوٹی سی کرپشن بھی ثابت کر دے تو میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاؤں گا استعفی دینے کے لئے کیونکہ وہ کمیشن میں نے خود بنانا تھا اور ارکان کمیشن کو میں نے سمجھا کر بھیجنا تھا کہ خبردار میرے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہیں کرنی مگر یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی اور سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ارکان کو یہ سمجھا کر بھیج دیا کہ نواز فیملی کی کوئی کرپشن معاف نہیں کرنی یہ سراسر سازش ہے۔
نواز شریف
 

فرقان احمد

محفلین
بظاہر تمام بڑے سیاست دانوں کی نااہلی بنتی ہے، اگر کڑا احتساب کیا جائے۔ تاہم، جب ججوں اور جرنیلوں نے خود اپنے احتساب کے لیے 'اندرونی نظام' وضع کر رکھا ہے تو ان کے شروع کیے گئے 'احتساب' کی کوئی معنویت نہ ہے۔ مثال کے طور پر، جنرل کیانی کے بھائیوں کا کیا بنا؟ چودھری افتخار کے بیٹے کے کیس کا کیا ہوا؟ مشرف کو جنرل راحیل چھڑوا کر لے گئے؛ کہا تو یہی جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اگر جج کچھ کر بھی گئے تو اسے 'سازش' اور 'عدالتی مارشل لاء' تصور کیا جائے گا۔ اس کے بعد بلاامتیاز احتساب کے نعرے بلند ہوں گے۔ سیاست میں نئے 'چودھری شجاعت' اور دوسرے درجے کے سیاست دان پیدا ہوں گے۔ بہتر یہی ہے کہ عدالت خود کو اس مقدمے سے نکالے۔ ان کا نام نہاد 'فیئر ٹرائل' ہونے دے۔ میڈیا اپنا دباؤ بڑھائے رکھے۔ پاکستانی معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔ تاہم ابھی بہت وقت لگے گا۔ ابھی جرنیلوں نے، ججوں نے، سیاست دانوں نے، صحافیوں نے، بیوروکریٹس نے، بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اور ان سے پہلے ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ججوں نے سیاسی قیادت کو نااہل قرار دیا تو سیاسی خلا پیدا ہو گا جس کے اپنے الگ سے خاص قسم کے نتائج برآمد ہوں گے۔ ہمارے خیال میں تبدیلی وہی بہتر ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ آئے۔ جمہوریت کا متبادل نظام جب تک میسر نہیں آ جاتا تب تک اسی گاڑی کو ہی دھکا لگایا جانا چاہیے۔ انتقالِ اقتدار بہت بڑا مسئلہ ہے یہاں کا اور سچ پوچھیے آمریت اسی لیے ہمیں زہر لگتی ہے کہ اس میں انتقالِ اقتدار کا کوئی میکنزم نہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ آمریت جب بھی کسی معاشرے سے رخصت ہوتی ہے تو ملک نئے بحرانوں کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔ سو جب تک سانس، تب تک آس کہ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آتی رہیں گی اور رفتہ رفتہ بہتری کی صورت پیدا ہوتی چلی جائے گی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top