لاریب مرزا
محفلین
کسی سویلین کا فوجی انداز میں سلیوٹ کرنا (یا اُس کی نقل کرنا جیسے مریم بی بی کر رہی ہیں) ویسے ہی ایک بھدا اور بدنما عمل ہے۔ یہ سلیوٹ دیکھیے، ایک سویلین کا
کسی سویلین کا فوجی انداز میں سلیوٹ کرنا (یا اُس کی نقل کرنا جیسے مریم بی بی کر رہی ہیں) ویسے ہی ایک بھدا اور بدنما عمل ہے۔ یہ سلیوٹ دیکھیے، ایک سویلین کا
میرے خیال میں بیک وقت دونوں حلال بھی ہیں اور حرام بھی۔ بس۔۔۔۔۔ کتے اور ٹومی کو ذہن میں رکھنا پڑے گا۔آپشن تھوڑے دیے ہیں آپ نے چوہدری صاحب، ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی حرام ہوں!
کتے اور ٹومی کو ذہن میں رکھنا پڑے گا۔
عمران خان بھی روایتی سیاست میں پڑ گئے ہیں۔ ان کی حمایت میں مزید اضافہ نہیں ہوا ہے۔ آج بھی وہ کال دیں گے تو شاید اتنے افراد ہی لبیک کہیں گے جتنے سن دو ہزار چودہ میں ان کے ساتھ آن ملے تھے یعنی کہ پچیس تیس ہزار یا حد سے حد پچاس ہزار افراد۔ نواز شریف صاحب کال دیں گے تب بھی اتنے افراد چلے آئیں گے۔ یہی کال زرداری صاحب دیں تو وہ بھی ٹوٹل پورا کر لیں گے۔
عمران خان بھی روایتی سیاست میں پڑ گئے ہیں۔ ان کی حمایت میں مزید اضافہ نہیں ہوا ہے۔ آج بھی وہ کال دیں گے تو شاید اتنے افراد ہی لبیک کہیں گے جتنے سن دو ہزار چودہ میں ان کے ساتھ آن ملے تھے یعنی کہ پچیس تیس ہزار یا حد سے حد پچاس ہزار افراد۔ نواز شریف صاحب کال دیں گے تب بھی اتنے افراد چلے آئیں گے۔ یہی کال زرداری صاحب دیں تو وہ بھی ٹوٹل پورا کر لیں گے۔
سٹریٹ پاور کتنی زیادہ ہو گی محترم! دس بیس ہزار مزید بڑھا لیں جلسوں اور دھرنوں کے حساب سے۔ اوور آل بھی دیکھ لیجیے۔ بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان، کشمیر میں ان کی زیادہ بڑی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ سن دو ہزار دس سے ان کی مقبولیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ اتنے ہی مقبول ہیں جتنے کہ وہ سات برس پہلے تھے۔ ہمارا پورا خاندان بھٹو کو ووٹ دیتا تھا، اب عمران خان کو ووٹ دیتا ہے۔ تاہم، مسلم لیگ نون کے ووٹر کو وہ انسپائر نہیں کر سکے؛ محترمہ بے نظیر کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اور زرداری صاحب کی 'حرکتوں' اور 'مجموعی تاثر' کی وجہ سے جیالے محترم خان کی طرف لپک لپک گئے تو اس طرح وہ انتخابات 2013ء میں ستر اسی لاکھ ووٹ لے اڑے۔ تاہم وہ پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی پارٹیوں کے ووٹ توڑنے میں بری طرح ناکام رہے۔ دوسری جانب، ملک کی خاموش اکثریت بدستور 'خاموش' ہے۔ ان کی ہمدردیاں غالباً کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں۔ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف ہنوز 'جی ٹی روڈ' پارٹیاں ہیں۔ زرداری صاحب کو 'سندھ' الاٹ ہو گیا ہے؛ وہ سندھ میں پچاس ساٹھ ہزار بندے نکال کر 'بڑا جلسہ' کر لیتے ہیں جیسا کہ کراچی جلسے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ تحریکِ انصاف میں بڑی سیاسی پارٹی بننے کے پورے 'امکانات' موجود ہیں تاہم اس کے لیے انہیں 'لٹے پٹے' اور 'روایتی' سیاست دانوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ اگر عمران خان کی سٹریٹ پاور 'کہیں زیادہ' ہوتی تو کوریا اور آئس لینڈ کی طرح یہاں نواز میاں کا دھڑن تختہ ہو جاتا۔ ہمیں یوں ایمپائر کی انگلی کے فضا میں بلند ہونے کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔عمران کی سٹریٹ پاور نواز اور زرداری سے کہیں زیادہ ہے۔ نواز کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے زیادتی نہیں اور زرداری کا بیڑا غرق ہے ہی (سیاسی اعتبار سے)
ویسے پچھلے دنوں حسن نثار نے بھی صالح ظافر اور امیر حمزہ کے مقابلے میں کالم لکھا ہے بابر اعوان کے حوالے سے۔صالح ظافر صاحب اپنی "شاندار" رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے
مشرف نے کہا ہے
ہا ہا ہا ہا ہا ہاکوئی طاقتور قانون سے بالاتر نہیں