جاسم محمد
محفلین
شاید پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ ایک بار پھر بتا دیتا ہوں۔ ملکی معیشت کوئی ایسی کمزور اوربے جان چیز نہیں جونئی حکومت کے آتے ساتھ ہی ۷-۸ میں تباہ ہو جائے۔ اور نہ ہی حکومت کا کام مہنگائی کو ’’کنٹرول‘‘ کرنا ہوتا ہے۔ بلکہ حکومت کا اصل کام ملک کے معاشی نظام کو درست سمت میں چلانا، مقامی اور خارجی سرمایہ داروں کو سہولت دینا (تاکہ پیداوار اور برآمداد بڑھے) اور عوام کا ٹیکس کا پیسا اکٹھا کر کے ایمانداری سے واپس عوام پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔یہ عوام ہیں جن کی چیخیں ہی نہیں جانیں بھی نکل رہی ہیں۔ خدا کا خوف بھی نہیں ہے ان لوگوں کو۔ دوائیوں کی قیمتوں میں دوہرا تہرا اضافہ۔ سرکاری ہسپتال جہاں علاج و دوائی مفت یا نہ ہونے کے برابر فیس پر ہوتی تھی وہاں بھی فیسیں۔
پستی عوام ہی ہے، خواص ہمیشہ خواص ہی رہتے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت نے آتے ساتھ ہی ان بنیادی معاشی اصلاحات پر کام تیز کر دیا ہے۔ سابقہ حکومتوں کے چھوڑے ہوئے بدحال معاشی ڈھانچہ کو درست کر رہے ہیں۔ ۳۰ ہزار ارب روپے کا جو قرضہ پچھلی حکومتیں چھوڑ کر گئی ہیں، ان کو واپس کرنا ہے۔ اس کے لئے روپے کی قیمت کو گرا دیا گیا ہے، حکومتی سبسڈیاں ختم کی جا رہی ہیں، ٹیکس نیٹ بڑھایا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مہنگائی ہوئی ہے اور سارا ملبہ حسب معمول غریب عوام پر جا گرا ہے۔
اب ایسا نہیں ہے کہ یہ سب پہلی بار ہوا ہے۔ مشرف اور زرداری کے جانے کے بعد بھی یہی کچھ ہی ہوا تھا۔ عوام مہنگائی سے بلبلا اٹھی تھی۔ اور اس وقت کی حکومتوں نے حالات کے تناظر میں روایتی ’’حل‘‘ یعنی مزید بیرونی قرضے چڑھا کر عوام کو وقتی ریلیف بھی فراہم کر دیا تھا۔ مگر اس دائمی معاشی بحران کا کوئی مستقل حل نہ نکالا جو کہ تحریک انصاف حکومت بالآخر نکال رہی ہے۔
نئی سرکاری پالیسی کے تحت اب مزید بیرونی قرضے صرف اور صرف سابقہ ادوار میں لئے گئے قرضوں کی قسطیں واپس کرنے کیلئے لئے جائیں گے۔ قوم کو اس بیرونی قرضہ سے ریلیف (سبسڈی) دینے والی پالیسی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔سالانہ اربوں روپے کےخساروں اور گردشی قرضوں میں ڈوبے سرکاری ادارے کارپریٹ سیکٹر بورڈ کی تحویل میں دے دئے جائیں گے۔ بیرونی سرمایہ کاری اب صرف ملک میں نئی صنعتیں لگانے اور روزگار بڑھانے کیلئے ہوگی۔
رفتہ رفتہ (چند سال بعد) ان معاشی اصلاحات کی بدولت ملک درآمداد اور بیرونی قرضوں کے انحصار سے نکل کر اپنی برآمداد پر خود انحصاری کرنے والا ملک بن کر ابھرے گا۔ جیسا کہ ہمارا سابقہ وطن بنگلہ دیش آجکل ابھر رہا ہے۔
جب تک یہ معاشی اصلاحات زیر تکمیل ہیں غریب عوام چیخے گی اور روئے گی بھی۔ کیونکہ یہ تمام ضروری معاشی اصلاحات بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔ مگر چونکہ یہ سیاسی طور پر غیرمقبول ہیں۔ اسی لئے سابقہ حکومتیں یہ اصلاحات کرنے کی بجائے عوام کو عارضی ریلیف پر ٹرخاتی رہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے:
جب پاکستان معاشی ہٹ مین کے حوالہ کر دیا گیا
اب یہ عوام، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے کہ ایک بار سخت معاشی تکلیف برداشت کر کے ملک کا مستقبل بہتر کرنا ہے۔ یا روایتی بے صبری دکھا کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے عارضی ریلیف لینا ہے۔ اور پھر 5 سال بعد اسی طرح مہنگائی شدید بڑھنے پر چیخیں مارنی ہیں۔
آخری تدوین: