اور یہ رہے وہ جمہوری لطیفے جنہیں آپ صدق جان سے پاکستان میں ووٹ ڈالتے رہے ہیں
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں کھڑے ہونا کچھ ایسا آسان نہ ہے۔ سب سے زیادہ آسان کام طاقت ور کی غلامی ہے اور سدا بہار غلامی۔یعنی کہ ریاستی اداروں کی چاپلوسی شروع کر دی جائے اور اُن سے خوف زدہ ہو کر، اُن کے زیر سایہ مخالفین کو گالم گلوچ کی جائے اور حب الوطنی کے نام پر بندوقوں کو اپنے سروں پر مسلط رکھا جائے۔ یہ تو سب سے آسان راستہ ہے اور اس میں کم از کم ہمیں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی ہے اور ایسی چیری بلاسم اپروچ بباطن کھوکھلی ہوتی ہے۔ دیکھیے جناب، چاہے بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر آئے تاہم بھٹو نے انہیں ایک بار بڑا چیلنج دیا۔ بھٹو کے بعد نواز شریف نے اسٹیبلشیہ کو للکارا، چاہے مجبوری میں، یا اپنی رضا سے۔ زرداری اور شہباز شریف میں یہ جرات بوجوہ نہ تھی۔ اور اب، مریم نواز صاحبہ نے جس انداز میں اسٹیبلشیہ کو للکارا ہے، کم از کم، ہم اس کی داد دیے بنا نہیں رہ سکتے ہیں؛ یہ معاملہ الگ ہے کہ وہ کرپٹ ہیں یا نہیں ہیں۔ تاہم، اتنا ضرور ہے کہ اس للکار میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ عناصر کے لیے ایک کشش ہے؛ وہ پراسرار کشش جو ہمیں ان شخصیات کا گرویدہ بنا دیتی ہے چاہے لمحاتی طور ہی سہی۔ یہ کرشمہ خان صاحب میں نہیں، اور اس بات کا ہمیں غم ہے۔ یقینی طور پر، یہ للکارنے والے بھی ہماری آئیڈیل شخصیات نہیں ہیں، تاہم ان میں جو جرات رندانہ ہے، اس کی کیا بات ہے، بلکہ، کیا ہی بات ہے!اور یہ رہے وہ جمہوری لطیفے جنہیں آپ صدق جان سے پاکستان میں ووٹ ڈالتے رہے ہیں
دیکھیے جناب، چاہے بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر آئے تاہم بھٹو نے انہیں ایک بار بڑا چیلنج دیا۔ بھٹو کے بعد نواز شریف نے اسٹیبلشیہ کو للکارا، چاہے مجبوری میں، یا اپنی رضا سے۔ زرداری اور شہباز شریف میں یہ جرات بوجوہ نہ تھی۔ اور اب، مریم نواز صاحبہ نے جس انداز میں اسٹیبلشیہ کو للکارا ہے، کم از کم، ہم اس کی داد دیے بنا نہیں رہ سکتے ہیں
وہ مشہور محاورہ تو سُنا ہوگا کہ جو مکا دنگل کے اختتام پر مارنا یاد آئےاسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئے۔یہ کرشمہ خان صاحب میں نہیں، اور اس بات کا ہمیں غم ہے۔ یقینی طور پر، یہ للکارنے والے بھی ہماری آئیڈیل شخصیات نہیں ہیں، تاہم ان میں جو جرات رندانہ ہے، اس کی کیا بات ہے، بلکہ، کیا ہی بات ہے!
جب خان صاحب ایسا کریں گے تو ہم ان کے بھی گرویدہ ہو جائیں گے۔ دراصل، ہم اسٹیبلشیہ سے کُلی طور پر بے زار افراد کی صف میں شامل ہیں۔ ہمیں ان سے کسی قسم کی بھلائی کی اُمید نہیں ہے۔ ان کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں تو پھر سیاسیے ہی ان کے کام آتے ہیں۔ ہندوستان سے قیدی چھڑوانے ہوں یا کارگل ایڈونچر سے باہر نکلنا ہو، تب یہ خاکیان کچھ عرصہ کے لیے 'مطیع و فرمانبردار' بھی بن جاتے ہیں۔ یعنی، یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔وہ مشہور محاورہ تو سُنا ہوگا کہ جو مکا دنگل کے اختتام پر مارنا یاد آئےاسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئے۔
تاریخ گواہ ہے آپ جسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ للکار سمجھ رہے ہیں۔ وہ دراصل اسی شجرہ ممنوعہ کی آغوش چھن جانے کے بعد اظہار شکوہ سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔
خان صاحب کو بھی جب 21 سال اسٹیبلشمنٹ نے لفٹ نہیں کروائی تو وہ اسی طرح عوامی جلسوں اور نجی محفلوں میں انہیں للکارا کرتے تھے۔
اِس وقت ان کی آغوش، بلکہ جھولی میں "ایک پیج" پر بیٹھے ہیں۔ جب یہ سایہ ہٹے گا اور اپوزیشن کی تپش محسوس ہوگی، تب ہی ان کے ہوش ٹھکانے آئیں گے۔ جیسا کہ بھٹو اور شریف خاندان کے آجکل آئےہوئے ہیں۔
Department Press Briefing – July 9, 2019 - United States Department of Stateزیک بھائی کیا یہ ممکن ہے کہ واقعہ ہی امریکی وزارتِ خارجہ کو علم نہ ہو اور معاملات وائٹ ہاؤس میں طے ہو رہے۔ آخر آپ لوگوں کے پاس بھی تو استاد بیٹھا ہوا ہے۔۔
جس دن مریم نواز وغیرہم کی اسٹبلیشیہ (فیکٹری مالکان) سے صلح ہوئی اسی دن ان "یونین لیڈرز" کو فیکٹری مینیجر بنا دیا جائے گا، اور اللہ اللہ۔ سب تالیاں اور سیٹیاں پیٹتے رہ جائیں گے!وہ مشہور محاورہ تو سُنا ہوگا کہ جو مکا دنگل کے اختتام پر مارنا یاد آئےاسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئے۔
تاریخ گواہ ہے آپ جسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ للکار سمجھ رہے ہیں۔ وہ دراصل اسی شجرہ ممنوعہ کی آغوش چھن جانے کے بعد اظہار شکوہ سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔
خان صاحب کو بھی جب 21 سال اسٹیبلشمنٹ نے لفٹ نہیں کروائی تو وہ اسی طرح عوامی جلسوں اور نجی محفلوں میں انہیں للکارا کرتے تھے۔
اِس وقت ان کی آغوش، بلکہ جھولی میں "ایک پیج" پر بیٹھے ہیں۔ جب یہ سایہ ہٹے گا اور اپوزیشن کی تپش محسوس ہوگی، تب ہی ان کے ہوش ٹھکانے آئیں گے۔ جیسا کہ بھٹو اور شریف خاندان کے آجکل آئےہوئے ہیں۔
پاکستانیوں نے جعلی خبریں پھیلانے والے ڈان اخبار کو حکومتی ذرائع سمجھا ہوا تھا۔ چلو اچھا ہے ایک بار پھر اپنی بے عزتی کروا لی۔ لیکن پاکستانی سدھرنے والے نہیں۔ وہ مستقبل میں پھر ڈان اخبار پر آنکھیں بند کرکے یقین کریں گے۔روس کے بعد مریکا وی۔
فرقان احمد بھائی کو کچھ دیر اینٹی اسٹیبلشمنٹ للکار پر “خوش” تو ہو لینے دیتےجس دن مریم نواز وغیرہم کی اسٹبلیشیہ (فیکٹری مالکان) سے صلح ہوئی اسی دن ان "یونین لیڈرز" کو فیکٹری مینیجر بنا دیا جائے گا، اور اللہ اللہ۔ سب تالیاں اور سیٹیاں پیٹتے رہ جائیں گے!
وزارت خارجہ نے وزیر اعظم کے دورہ روس اور امریکہ سے متعلق سرکاری طور پر کوئی پروگرام شائع نہیں کیا۔ یہ سب فرضی دورے ہماری مشہور زمانہ جعلی زرد صحافت کا شاہکار ہے۔ جس سے امریکی صدر ٹرمپ بھی سخت تنگ آئے ہوئے ہیں۔وزارت خارجہ کو وزیراعظم پاکستان کے دوروں کے حوالے سے فوری وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ یہ سبکی اور بے توقیری عمران خان صاحب کی نہیں، اس عہدے کی بھی ہو رہی ہے۔ ہم تو محض خود کو نکما سمجھتے تھے؛ وزارت خارجہ کے افسران کا معاملہ ہم سے بھلا کیا مختلف ہے! ایک برابر!
اب حکومت زیادہ سے زیادہ ڈان اخبار کی ان جھوٹی خبروں کی تردید ہی کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی عوام کو پسند نہیں بلکہ اب حکومت کو نااہل اور یوٹرن کہا جا رہا ہے۔