بس فلمیں ڈرامے ہی ہٹ کرانا، کوئی کام کا کام نہ کرنا۔"گھسیٹنے" اور "پیٹ پھاڑ نے" والی دونوں فلمیں فلاپ ہوگئی ہیں،
"میں ان کو رلاؤں گا" اس وقت باکس آفس پر ہٹ جا رہی ہے
عمران خان کو چاہئے کہ سارے اہم کام چھوڑ چھاڑ کر پل اور سڑکیں تعمیر کرنا شروع کر دے تاکہ عوام اور میڈیا کو لگے کہ واقعی کوئی "کام" ہو رہا ہےبس فلمیں ڈرامے ہی ہٹ کرانا، کوئی کام کا کام نہ کرنا۔
امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے بھی فوج کے کہنے پر مثبت رپورٹنگ شروع کر دی ہے۔
Why Youthful, Conservative Pakistan Is a Coronavirus Bright Spot
واہ جی ۔ ۔ ہاہاہا"گھسیٹنے" اور "پیٹ پھاڑ نے" والی دونوں فلمیں فلاپ ہوگئی ہیں،
"میں ان کو رلاؤں گا" اس وقت باکس آفس پر ہٹ جا رہی ہے
دنیا میں مسائل دو طرح سے ہی حل ہوتے پڑھے، سنے، دیکھے ہیں۔ مذاکرات سے یا ہتھیاروں سے۔ یہ گانوں سے مسائل کا حل واقعی تبدیلی ہے۔یہ لو ہو گیا کشمیر آزاد
آئی ایس پی آر ۱۹۹۲ سے ڈرامے اور گانے بنا رہا ہے جب آپ کے نواز شریف کی حکومت تھی:یہ گانوں سے مسائل کا حل واقعی تبدیلی ہے۔
بابا کوڈا کی تحریر صورتحال کو اپنے حق میں مروڑنے یا بے ڈھنگی وضاحت کی کوشش ہے۔ ملی و جنگی ترانے ہر دور میں بنتے رہتے ہیں لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کو سال ہو چلا ہے اور یہ گانے، ایک منٹ کی خاموشی، جمعہ کو آدھا گھنٹہ سڑکوں پر کھڑے ہونے اور سڑکوں کے نام بدل کر بنیے پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔آئی ایس پی آر ۱۹۹۲ سے ڈرامے اور گانے بنا رہا ہے جب آپ کے نواز شریف کی حکومت تھی:
آئی ایس پی آر کی جانب سے ڈرامے اور گانے پروڈیوس کرنے کا فیصلہ درست تھا یا غلط تھا، یہ ایک بحث طلب مسئلہ ہے، البتہ ہم یہ جانتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے پروڈکشن کا سلسلہ 1992 میں شروع ہوا جب اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت ہوا کرتی تھی جس کا سربراہ نوازشریف اور جماعت اسلامی اتحادی جماعت تھی۔ اس وقت آئی ایس پی آر کی پروڈکشن ڈراموں کی حد تک ہوا کرتی تھی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے پہلی مرتبہ 2015 میں ایک ترانا نما گانا پروڈیوس کیا گیا جس کی منظوری وزارت اطلاعات کے ذریعے وزیراعظم نوازشریف نے دی۔ گانے کے بول تھے،
ہنستے ہنستے یوں ہی ہم چلے
پھر اسی سال ایک اور گانا پروڈیوس کیا گیا جس کے بول تھے،
یہ غازی، یہ تیرے پراسرار بندے
2015 میں ہی تیسرا گانا پروڈیوس ہوا جس کے بول تھے،
کشمیر، اب تو آزاد ہے
اگلے سال 2016 میں مزید ایک گانا پروڈیوس ہوا جس کے بول تھے،
یہ بندے مٹی کے بندے
2016 میں دوسرا گانا آیا،
شکریہ پاکستان
2016 کا تیسرا گانا تھا
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
یہ چھ گانے نوازشریف کی منظوری سے پروڈیوس ہوئے۔
اس کے بعد 2018 میں ایک اور گانا پروڈیوس ہوا جس کے بول تھے
ہمیں پیار ہے پاکستان سے
یہ گانا شاہد خاقان عباسی کی منظوری سے پروڈیوس ہوا
2019 میں ایک گانا آیا جس کے بول تھے،
کشمیر ہوں میں
2020 میں پہلا گانا آیا،
چڑحتا سورج ہے اپنا پاکستان
اور اب خبریں آرہی ہیں کہ ایک اور گانا پروڈیوس کیا گیا ہے جس پر ایک خاص طبقہ شور مچا رہا ہے۔
ن لیگ کے دور میں سات گانے پروڈیوس ہوئے لیکن یہ طبقہ اس وقت یا تو خاموش رہا، یا پھر تعریفوں کے پل باندھتا رہا!
بقلم خود باباکوڈا
14 ہزار ارب ملکی سرحدوں کے دفاع کیلئے دئے جاتے ہیں۔ سرحدیں عبور کرکے ہمسائیوں پر چڑھائی کرنے کیلئے نہیں۔قوم انھیں 14 ہزار ارب گانے بنانے کے لیے دیتی ہے ؟
معذرت چاہتی ہوں پر آپ کی باتوں سے لگتا ہے آپ کو کسی جنگی اسٹریٹیجی کا مطلب اچھے سے معلوم نہیں ہے ۔ ۔ آپ سوچیں کہ مودی کی کیا حالت کر دی ہے اس حکومت نے ۔ ۔ بالکل نو لفٹ ۔ ۔ اوربابا کوڈا کی تحریر صورتحال کو اپنے حق میں موڑنے یا بے ڈھنگی وضاحت کی کوشش ہے۔ ملی و جنگی ترانے ہر دور میں بنتے رہتے ہیں لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کو سال ہو چلا ہے اور یہ گانے، ایک منٹ کی خاموشی، جمعہ کو آدھا گھنٹہ سڑکوں پر کھڑے ہونے اور سڑکوں کے نام بدل کر بنیے پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔
مشرف ڈکٹیٹر شپ کے دوسرے سال دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمان پر نام نہاد حملہ ہوتا ہے اور واجپائی کے حکم پر 72 گھنٹے کے اندر اندر بھارتی فوج بارڈر پر پہنچنا شروع ہو جاتی ہے، اور اگلا پورا سال فوجیں آمنے سامنے مورچوں میں موجود رہتی ہیں۔
چنتخب خان اُس شدت کی نہ سہی، بارڈرز پر اتنی موبلائزیشن تو کرواتا کہ بھارتیوں کو جنگ کا خطرہ محسوس ہونے لگتا۔ لیکن نہیں ۔۔۔ گانے بنانے اور سنانے ہیں۔ قوم انھیں 14 ہزار ارب گانے بنانے کے لیے دیتی ہے ؟
یہ ہے وہ ایٹمی ساڑھی جو 2014 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ماں کو بھجوائی تھی۔گھر بلا کر شادی کا کھانا کھلا کر اور ساڑھیاں بھجوا کر کشمیر آزاد ہوا ۔
پینتیس سال جہاد بالسیف کے سبق پڑھا کر قوم کے بچے مروائے۔ جب اپنی باری آئی تو جہاد بالطبلہ شروع کر دیا۔
بھائ صاحب آئ -کے کی میڈیا ٹیم میں آجائیں ۔ ۔ کافی اچھے سے بھگو بھگو کر لگاتے ہیں آپ تو۔۔۔ ہاہاہا ۔ ۔یہ ہے وہ ایٹمی ساڑھی جو 2014 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ماں کو بھجوائی تھی۔
اس ساڑھی کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے فائبرز میں ہائیڈروجن بم کے ذرات نصب تھے جو کہ انسانی جسم کے ساتھ مس کرنے سے توانائی حاصل کرکے ایک بم کی شکل اختیار کرلیتے اور پھٹ جاتے۔
میاں صاحب کا پلان یہ تھا کہ مودی کی ماں کو یہ ایٹمی ساڑھی بھیج جائے جسے پہن کر وہ بھارت کے یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کرے اور پھر اس وقت یہ ساڑھی بم پھٹ جائے۔
میاں صاحب نے تو ساڑھی بھیج کر کشمیر آزاد کروا لینا تھا، بس عین موقع پر مودی کی ماتا شری نے وہ ساڑھی خود پہننے کی بجائے اپنی کام والی ماسی کو دے دی۔
بقلم خود باباکوڈا