جب الیکشن جیت کر اقتدار پر قبضہ جمانا ہوتو اسمبلی بالکل اکیلے جاتے ہیں۔ ڈیزل کے پرمٹ اور کشمیر کمیٹی کا سربراہ لگنا ہو تو اکیلے بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ پارلیمانی لاجز کے بنگلہ نمبر 22 میں رہائش بھی اکیلے اختیار کی۔ اب جبکہ اقتدارکے ان مزوں اور عیاشیوں کا حساب دینا ہے تو لاکھوں کی برین واش فوج ساتھ لے کر نیب جاؤں گا۔
فضل الرحمٰن مولانا کو جیل پُہنچائیں گے مگر عاصم جرنیلی کو کابینہ میں رکھیں گے تو خانِ اعظم کی اپنی شان کے خلاف ہو گا۔ عِمران خان کی عظمت کا اِمتحان ہے کہ وہ اَب وہ کُرپٹ جرنیلوں کو بھی کٹہرے میں لانے کے لیے سینئر باجوہ سے مُذاکراتی عمل شروع کریں۔تکلیف سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔ اب غدار خاندان کے کرپٹ بہنوں کے بھائی نیازی کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔۔۔۔
بالکل ہونا چاہیے۔ جج ارشد ملک، جسٹس قیوم سے شریف خاندان رابطے میں رہا جس پر دونوں جج عہدہ سے فارغ کر دیے گئے۔ لیکن ملاقاتیوں کو کیا سزا ملی؟ تالی ایک نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جیسے رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں مجرم ہیں ویسے ہی ان میں سے صرف ایک کو سزا نہیں دی جا سکتی۔فوجی افسر قصُوروار نہیں، مُلاقاتی کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔
آپ ہی مصر ہیں کہ آپ کے لیڈر نیلسن منڈیلا وغیرہ ہیں۔ حکومت لینے کے وقت سب سے پہلےپہنچے ہوتے ہیں، پالش لے کر، لیکن جب حکومت ختم ہوتی ہے تو لندن بھاگ جاتے ہیں۔عارف بھائی جو بلاوے پر خود چل کر نہیں جاتے، اٹھوالیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خود چل کر جانا بہتر ہے یا ڈنڈا ڈولی کرواکر؟
وزیر اعظم بطور ثالثی کسی کو بھی بنا سکتے ہیں۔ عین جمہوری اور انقلابی وزیر اعظم نواز شریف خود یہ کام کرتے رہے ہیں۔ اب ان کو آئین و قانون یاد آگیا ہےسوال سادہ ہے: کیا آئین جنرل صاحب کو اجازت دیتا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے معاملات پر بھی اپوزیشن کے لیڈروں کو اٹھواکر یا بلاکر ان سے مذاکرات کریں۔ یہ تو وقت کے وزیر اعظم اور وزیرِ دفاع کی ذمہ داری ہے جن دونوں نے پردے کی بوبو کی طرح پردے میں رہنا اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔
اس میٹنگ کو بلوانے کا مقصد گلگت بلتستان کو درپیش سیکورٹی مسائل تمام اپوزیشن جماعتوں کو بریف کرنا تھا۔ اس سے قبل اس بارہ میں میٹنگ سپیکر قومی اسمبلی نے کال کی تھی مگر اپوزیشن میں سے کوئی وہاں پہنچا ہی نہیں۔ اور جب فوج کے سربراہ نے وہی میٹنگ کال کی تو سب دوڑے دوڑے پہنچ گئے۔
شیری رحمان نے میٹنگ میں پہنچتے ساتھ یہ سوال کیا تھا کہ اس حساس میٹنگ میں وزیر اعظم کیوں موجود نہیں۔ جس پر آرمی چیف نے جواب دیا کہ آپ لوگ تو ان کو وزیر اعظم مانتے ہی نہیں۔ اسمبلی میں تقریر تو آپ ان کو کرنے نہیں دیتے تو وہ اس میٹنگ میں آکر کیا کریں؟
یعنی کہ خُفیہ بریفنگ تھی۔ وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ فوجی سِی پیک میں سیاست دانوں کو کُچھ لینے دے نہیں رہے، یہ اصل مسئلہ لگتا ہے اور ایمان داری سے خُودبھی کچھ نہیں کر رہے۔ باجوہ جونئیر کو انچارج بنا کر کلیدی عُہدہ پاس رکھ لیا اور باجوہ جونئیر سیاست دانوں کا کرپشن میں مبینہ طور پر باپ نکلا۔ ہمارا کپتان تو بس سول کرپٹ عناصر کو لتاڑنے کے لیے رہ گیا۔ اِن فوجیوں کا احتساب کرنے کے لیے ہمیں اپوزیشن والا عِمران زندہ کرنا ہو گا۔ خانِ اعظم بے لاگ احتساب کا علم بردار رہا ہے۔ یہ اِس کو زمانے کی ہوا کِس نے لگا دی؟اس میٹنگ کو بلوانے کا مقصد گلگت بلتستان کو درپیش سیکورٹی مسائل تمام اپوزیشن جماعتوں کو بریف کرنا تھا۔
آپ بھی ایسی پر مزاح باتیں کرتے ہیں کہ صرف ریٹنگ سے ان کا جواب نہیں دیا جا سکتا!اس میٹنگ کو بلوانے کا مقصد گلگت بلتستان کو درپیش سیکورٹی مسائل تمام اپوزیشن جماعتوں کو بریف کرنا تھا۔ اس سے قبل اس بارہ میں میٹنگ سپیکر قومی اسمبلی نے کال کی تھی مگر اپوزیشن میں سے کوئی وہاں پہنچا ہی نہیں۔ اور جب فوج کے سربراہ نے وہی میٹنگ کال کی تو سب دوڑے دوڑے پہنچ گئے۔
جب یہ منافق جمہوریت پسند سیاست دان آئین و قانون و پارلیمان کو عزت دینا شروع کر دیں گے تو ووٹ کو عزت اپنے آپ مل جائے گی۔
اس خفیہ میٹنگ سے قبل اسی ایشو پر سپیکر قومی اسمبلی نے میٹنگ کال کی تھی جس میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی پہنچا ہی نہیں۔ جب اہم قومی ایشوز کا اپوزیشن بائیکاٹ کرے گی تو فوج کا ڈنڈا چلوانے کا ذمہ دار وہ خود ہیں۔یعنی کہ خُفیہ بریفنگ تھی۔ وجہ سمجھ سے باہر ہے۔
چور مچائے شور!اب کی بار زیادہ شور اس لیے مچ گیا کہ جو گئے ہیں وہ خود ہی سب سے زیادہ شور مچا رہے تھے کہ ہم جانے والوں میں سے نہیں، اللہ اللہ ان کی منافقت!
جمہوریت پسندوں کی چیخ و پکار بتا رہی ہے بلانے والوں سے زیادہ جانے والوں کو تکلیف ہو رہی ہےاِن کو بلانے اور اُن کو جانے کی پرانی عادت ہے، اور یہ آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔ اس کی ایک کلاسیک مثال 1988ء میں جنرل ضیا کے طیارے کے حادثے کے بعد دیکھنے میں آئی تھی۔ جب جنرل بیگ اینڈ کو نے فیصلہ کیا کہ مجوزہ الیکشنز ہونے دیتے ہیں تو سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا تھا کہ سینٹ کے چیئر مین اور قائم مقام صدر غلام اسحاق خان کو جی ایچ کیو بلا کر کہا تھا کہ الیکشنز کروانے کا اعلان کر دیں۔ اُس وقت ملک میں کوئی مارشل لا نہیں تھا، لیکن پھر بھی آرمی چیف نے اپنے "باس" اور اپنے سپریم کمانڈر کو اپنے ہیڈ کوارٹر بلایا اور یہ پہنچ گئے۔
وُہ بُلائیں تو کیا تماشا ہو، ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو، یہ شاعرانہ کام ساغر صدیقی مرحوم تو کر سکتے تھے۔ اِن کے بس کا روگ نہیں۔ یہ تو بُلائے بغیر بھی پہنچنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بڑی سرکار سے بُلاوا آیا تو یہ غلط مطلب سمجھ بیٹھے۔ اب آرام آ گیا ہو گا۔جمہوریت پسندوں کی چیخ و پکار بتا رہی ہے بلانے والوں سے زیادہ جانے والوں کو تکلیف ہو رہی ہے
جمہوریت پسند منافق لفافوں کو اب یہ سخت تکلیف ہو رہی ہے کہ حکومت فوج اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کیوں نہیں قائم ہونے دے رہی۔ یہ بھی عمران خان کا قصور ہے۔ ابھی اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی دوستی ہو جائے تو یہ ملک جمہوریت پسند ہو جائے گاوُہ بُلائیں تو کیا تماشا ہو، ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو، یہ شاعرانہ کام ساغر صدیقی مرحوم تو کر سکتے تھے۔ اِن کے بس کا روگ نہیں۔ یہ تو بُلائے بغیر بھی پہنچنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بڑی سرکار سے بُلاوا آیا تو یہ غلط مطلب سمجھ بیٹھے۔ اب آرام آ گیا ہو گا۔
یہ فوجی کِسی کے سجن نہیں۔ عِمران نے ابھی تک اِن سے اِسی لیے بنا کر رکھی ہوئی ہے۔ مگر کپتان زیادہ دیر کُرپشن برداشت نہیں کرے گا۔ خبر نہیں، کِس نے اپوزیشن والے خان کو بھنگ وغیرہ پر لگا دیا ہے۔ یہ بڑے کام کا، اور بڑا قیمتی بندہ ہے۔ کرپٹ اپوزیشن اور فوج کے درمیان گھُن کی طرح پِس گیا ہے۔جمہوریت پسند منافق لفافوں کو اب یہ سخت تکلیف ہو رہی ہے کہ حکومت فوج اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کیوں نہیں قائم ہونے دے رہی۔ یہ بھی عمران خان کا قصور ہے۔ ابھی اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی دوستی ہو جائے تو یہ ملک جمہوریت پسند ہو جائے گا
سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ ساری زندگی فوج اور ایجنسیوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے کہہ رہے ہیں اب ہم ان سے نہیں ملیں گے کیونکہ وہ ہمیں این آر او نہیں دے رہےیہ فوجی کِسی کے سجن نہیں۔ عِمران نے ابھی تک اِن سے اِسی لیے بنا کر رکھی ہوئی ہے۔ مگر کپتان زیادہ دیر کُرپشن برداشت نہیں کرے گا۔ خبر نہیں، کِس نے اپوزیشن والے خان کو بھنگ وغیرہ پر لگا دیا ہے۔ یہ بڑے کام کا، اور بڑا قیمتی بندہ ہے۔ کرپٹ اپوزیشن اور فوج کے درمیان گھُن کی طرح پِس گیا ہے۔