ٹائپنگ مکمل سیر ظلمات

لاريب اخلاص

لائبریرین
130

چودہواں باب

انتقام
پریرا نے چیخ کر کہا ”دغا! دغا! دغا! سرکنڈوں کو آگ لگ گئی اس چڑیل نے ہم کو دغا دیا آٹر نے اوج ہوا پر سے قہقہہ لگایا اور بولا ”ابے دغا دغا کیا لیے پھرتا ہے کچھ بسنت کی خبر بھی ہے غلام سب چھوٹ گئے! سب پھاٹکوں کو قفل لگ گیا! گھونسلا تیرا چھن گیا! اب اپنی قسمت کو بیٹھا رو۔“
ابھی تک فرط خوف و تعجب سے ہجوم کی زبان بند تھی یہ لوگ جن کی تعداد سو سے کچھ اوپر تھی ایک جگہ کھڑے ہوئے سراسیمگی اور اضطراب کے عالم میں کبھی آٹر کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی بڑھتے ہوئے شعلوں کی طرف نگاہ کرتے تھے۔ اب ان کی مہر سکوت ٹوٹی اور سب کے سب مختلف زبانوں میں چلائے ”یہ دیو ہے اسے مار ڈالو۔ غلاموں کی بار کون کو گھیر لو۔ پھاٹکوں کی طرف لپکو۔“ ان میں سے بہت سے لوگوں کی یہ آخری چیخ تھی کیوں کہ اس وقت قلعہ کی فصیل پر سے آگ کا ایک بہت بڑا شعلہ افعی کی طرح زبان نکالتا ہوا ان کی طرف جھپٹا اور ساتھ ہی توپ کے گرجنے کی آواز آئی اور ہجوم پر چھ پونڈ چھروں اور گولیوں کا مینہ برس گیا۔ یہ اس بلا کی بوچھاڑ تھی کہ بیسوں فوراً مر گئے اور بیسوں سسکتے نظر آئے اور ایسے شور و پکار کی آواز بلند ہوئی کہ اس ظلم گاہ میں بھی پہلے کبھی سنی نہیں گئی تھی۔ تب وہ منتشر ہو گئے اور چیختے چلاتے بدحواس ہو کر ادھر ادھر دوڑنے لگے۔
جب لیونارڈ اور پادری اٹھتے ہوئے پل کے تختوں پر سے لڑھک کر دوسری طرف پہنچے تو انہوں نے جوانا کو صحیح و سلامت نو آبادی کے کچھ لوگوں کے درمیان کھڑا پایا۔
لیونارڈ ۔ نے اب بآواز بلند کہا کہ ”توپ کی طرف چلو۔ توپ کی طرف چلو اور ان پر فائر کرو۔ میں بھی آتا ہوں۔“ بونا بھی صحیح و سلامت پل پر سے اتر آیا تھا اور اب لیونارڈ بونے اور فرانسسکو کے سہارے اس طرف چلا جہاں توپ چڑھی ہوئی تھی اور جوانا ان کے پیچھے پیچھے تھی۔ وہ کچھ دور گئے تو انہوں نے سوا کو دیکھا کہ نو آبادی کے کچھ رہائشی لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور توپ کو۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہاتھ میں لیے پیچھے ہٹ رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی توپ کے چھوٹنے اور مقتولوں اور مجرموں کے چیخنے کی آواز آئی جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے
 

محمد عمر

لائبریرین
Page 71

ساتواں باب

نئی قسم کا عہد و پیمان

دوسرے دن لیونارڈ بے چینی کی نیند سے اٹھا کیوں کہ بخار نے اس کو رات بھر آرام نہ لینے دیا تھا۔ اگرچہ لیونارڈ بہت سویرے بیدار ہوا لیکن سوا اس سے بھی پہلے کی جاگی ہوئی تھی۔ غار سے نکل کر سب سے پہلے اس کی نظر دراز قامت سوار پر پڑی جس دھیمی دھیمی آنچ پر ایک تونبے کو رکھے ہوئے کُچھ پکا رہی تھی اور کبھی کبھی اس کو ہلاتی بھی جاتی تھی۔

لیونارڈ کو انگریزی طریقہ کے مطابق سلام کہ کر بولی کہ یہ وہ چیز پک رہی ہے جس سے میرے وعدہ کے موافق تم کو شفا ہو گی۔ یہ کہہ کر اس نے آنچ پر سے تونبے کو اُٹھا لیا۔ لیونارڈ نے تونبے کو ہاتھ میں لے کت جو عرق اس کے اندر تھا اور جس میں سے نفرت انگیز بو آتی تھی، سونگھا اور کہا کہ اس سے تو اور الٹا میرے ہلاک ہو جانے کا احتمال ہے۔

سوا نے مسکرا کر جواب میں کہا۔ ”نہیں نہیں آدھا اس وقت پی لو اور آدھا دوپہر کو تمہیں پھر بخار کی کسی شکایت نہ ہو گی۔“

جب عرق ذرا ٹھنڈا ہوا تو لیونارڈ نے سوا کے کہنے کے مطابق اس میں سے آدھا پی لیا اگرچہ اس کا دل اس کی گواہی نہ دیتا تھا کہ اس دوا سے شفا ہو گی۔ پھر اس نے تونبے کو نیچے رکھ دیا اور کہا اے نیک بخت اگر کڑواہٹ اور کسیلے پن میں کوئی وصف ہے تو تمہاری دوا کو ضرور اچھا کہنا چاہیے۔

سوا نے متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا کہ دوا بے شک اچھی ہے اور بہت سے لوگوں کو جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے اس سے شفا ہوئی ہے۔

سوا کا قول بالکل درست تھا۔ دوا پینے کے ساتھ ہی اس کی حالت سُدھرنے لگی۔ رات ہوئی تو اسے بالکل افاقہ ہو گیا اور تین دن نہ گزرنے پائے تھے کہ اگلی سی طاقت اور توانائی اس میں پھر عود آئی۔ مگر اس اثنا میں اس کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ سوا سے دوا کی ماہیت اجزا کے متعلق استفسار ہو اور شاید اس کا ایسا نا کرنا اس کے حق میں اچھا بھی ہوا۔ جب لیونارڈ دوا کی خوراک پی چکا تو تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ آٹر پہاڑی کے اوپر سے آ رہا ہے اور اس کے کاندھے پر گوشت کا ایک بہاری ٹکڑا ہے۔

Page 72

پست قامت آٹر نے شکار کو نیچے رکھ کہا کہ اس بڑھیا کے آنے سے ہمارے نصیب بھی جاگ گئے اُٹھے۔ شکاری جانور اب دوبارہ جھاڑیوں میں نظر آنے لگے۔ میں ابھی جھاڑیوں میں پہنچا بھی نہیں تھا کہ میں نے یہ فربہ جانور شکار کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ناشتہ کیا اور کہانی کے بعد لیونارڈ اور سور میں پھر گفتگو شروع ہو گئی۔

لیونارڈ نے کہا۔ ”اے نیک بخت! گزشتہ شب تو نے مجھے انعام کے وعدہ پر ایک کارِ عظیم کی انجام رہی کے لیے کہا تھا۔ بقول تمہارے ہم انگریز لوگ روپیہ کی خاطر بہت کچھ کر گزرتے ہیں اور میں بھی ایک غریب آدمی یوں اور دولت کا متلاشی ہوں۔ تمہارا منشا ہے کہ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالوں۔ ان تم یہ بتاؤ کہ اس کے لیے مجھے کس قدر معاوضہ کی توقع رکھنی چاہیے۔ سوا کچھ دیر تک اس کی طرف دیکھتی رہی اور یوں بولی:

”اے گورے سردار! کیا آپ نے ایل ظلمات کے حالات بھی سنے ہیں؟“

لیونارڈ: ”میں نے ان کی نسبت کبھی کچھ نہیں سنا۔ تم بتاؤ؟“

سوا: ”سنو۔ میں بھی انہی لوگوں کی نسل سے ہوں۔ سوا میرا نام ہے اور میں ان کے سردار کاہن کی بیٹی ہوں۔ کئی سال کا عرصہ گزرا کہ میں اس ملک سے بھاگ کر چلی آئی کیونکہ مجھ کو انہوں نے اپنے دیوتا جال کے مذبح پر چڑھاوا چڑھانے کے لیے نامزد کیا تھا۔ جال دیوتا (آئر کی طرف اشارہ کر کے) اس کالے آدمی کی طرح ہے جو آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔“

لیونارڈ : ”یہ روایت تو نہایت دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ اچھا پھر کیا ہوا؟“

سوا: ”ان لوگوں کی ایک بڑی قوم ہے۔ ان کا وطن ایک عظیم الشان وادی ہے جس کے چاروں طرف بڑے بڑے پہاڑ جن کی چوٹیاں برف سے ہمیشہ مستور رہتی ہیں، حلقہ زن ہیں۔ اس وادی میں دھند اور کہر اور بادل کی ظلمت سے مطلع ہر وقت تاریک رہتا ہے۔ آفتاب کی صورت کئی کئی دن دکھائی نہیں دیتی اور اسی تاریکی میں یہ لوگ رہتے ہیں۔ قد و قامت میں یہ لوگ دوسرے لوگوں سے بڑے ہیں اور بے رحمی اور قساوتِ قلبی ان کی خاصیت ہے۔ عورتیں ان کی خوبصورت ہوئی ہیں۔ مجھے اپنی قوم کے لوگوں کے ابتدائی حالات بالکل معلوم نہیں کیونکہ مروراقران نے ان حالات کو لوح سینہ سے مٹا دیا ہے مگر اتنا جانتی ہوں کہ وہ پتھر کی ایک قدیم مورت جس کی شبیہ ایک پست قامت آدمی کی سی ہے، پوجتے ہیں اور اس پر انسان کا چڑھاوا چڑھاتے ہیں۔ جہاں یہ مورت کھڑی ہے وہاں اس کے پاؤں کت قریب ایک پانی کا تالاب ہے۔ اور اس تالاب کا دوسرا سرا ایک غار کے اندر چلا گیا ہے۔ اس غار میں وہ رہتا ہے جس کا نام سن کر بدن کانپ اٹھتا ہے۔“

لیونارڈ : ”میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔ کیا اس غار میں ایل بونا رہتا ہے؟“

Page 73

عورت: ”نہیں، بونا نہیں بلکہ ایک نہنگ رہتا ہے جس کو وہ سانپ کہتے ہیں۔ تمام روئے زمین پر سب سے بڑا اور پرانا نہنگ وہی ہے کیونکہ اس غار میں وہ اول سے ہے۔ یہ سانپ ان آدمیوں کو جو کالے دیوتا پر چڑھائے جائے ہیں نگل جاتا ہے۔“

لیونارڈ: ”تمہاری داستان واقعی دلچسپ ہے، مگر اس سے میری ذات کو کوئی فائدہ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔“

عورت : ”جناب، اہل ظلمات کے پیشوایانِ دین اپنے معبود کے قربان گاہ پر صرف انسان کی جان کا چڑھاوا ہی نہیں چڑھاتے بلکہ اس قسم کی قیمتی چیزوں کا بھی جیسی کہ یہ ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے فوراً اپنی مٹھی کھولی اور لیونارڈ کو ایک یاقوت رمانی دکھایا جس کی چمک دمک اور خوبصورتی سے باوجودیکہ اس پر جلا ٹھیک طور سے نہیں ہو رہی تھی اور وہ ترشا ہوا بھی نہیں تھا، لیونارڈ کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور وہ متحیر رہ گیا۔ یہ یاقوت چڑیا کے انڈے کے برابر تھا۔ اس کا رنگ ایسا تھا جیسے کبوتر کا خون۔ رگ اس میں کوئی نہ تھی اور پانی کی قوت رائی کے عمل سے وہ ہر طرف سے گھس گیا تھا۔ اتفاق سے لیونارڈ کو جواہر شناسی میں کسی قدر مہارت تھی لیکن اس خاص یاقوت کی ماہیت سے وہ اس قدر واقف نہ تھا جتنا اور قیمتی پتھروں کی ماہیت سے۔ لہٰذا اسے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ آیا یہ پتھر واقعی میں یاقوت رمانی ہے یا اور کسی قسم کا جواہر ہے۔ بکمال اشتیاق سے اس نے سوا سے پوچھا کہ کیا تمہاری قوم کے لوگوں کو اس قسم کے بہت پتھر ملا کرتے ہیں اور اگر ملتے ہیں تو کہاں ملتے ہیں؟

سوا: ”ایسے پتھر انہیں بہت ملتے ہیں مگر اس دانہ کے برابر جو میرے پاس ہے بہت کم ہوتے ہیں۔ انہیں یہ ایک ندی کی تہہ میں سے نکالا جاتا ہے جو خشک ہو گئی ہے لیکن جس خاص جگہ سے کہ یہ پتھر اور بہت سے خوبصورت نیلے رنگ کے پتھر نکلتے ہیں وہ صرف پیشوایانِ دین کو ہی معلوم ہیں۔“

لیونارڈ : ”غالباً نیلم ہو گ۔ نیلم اور یاقوت عموماً اکٹھے ملتے ہیں۔“

سوا: ”ان پتھروں کو وہ ہر سال کھودا کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑا جوہر اس عورت کے ماتھے پر لگا دیتے ہیں جسے جال دیوتا کی جورو بنا کر جال پر چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے۔ جب یہ عورت مر جاتی ہے تو اس جواہر کو اس کے ماتھے پر سے اتار کر ایک مخفی مقام میں رکھ دیتے ہیں جہاں اور اسی قسم کی جواہرات جنہیں جال کی منسوبہ جوروؤں کو سال ہا سال کے دوران میں پہنایا جا چکا ہے رکھے ہیں۔ علاوہ اس کے جال دیوتا کی آنکھوں کو انہوں نے اسی قسم کے جواہرات کی پچی کاری سے مرصع کیا ہے۔ اے گورے سردار! میری قوم کے لوگوں میں یہ روایت سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے کہ جال نے جو موت اور بدی کا دیوتا ہے اپنی مان ایکا کو بہت زمانہ ہوا قتل کر ڈالا۔ جہاں یہ جواہرات پائے جاتے ہیں وہاں ایکا کا خون گرا اس کے خون سے سرخ رنگ کے اور اس کت آنسوؤں سے جو اس نے اپنی بےکسی کی حالت

Page 74

میں بہائے، نیلے رنگ کے جواہر بن گئے۔ اس لیے ایکا کا خون جال کی نظر کیا جاتا ہے اور کیا جائے گا جب تک کہ ایکا پھر جنم لے کر جال کی پرستش کو ملک سے منسوخ نہ کر دے۔“

لیونارڈ : ”یہ بھی عجیب اوہام پرستی ہے ۔ اے نیک بخت سُن، اگر یہ پتھر قیمتی ہے تو خبر نہیں کتنے اونس سانا اس کی قیمت ہو گی مگر بعض دوسرے پتھر بھی شکل میں ایسے ملتے جلتے ہیں کہ کوئی شخص کو ان کی ماہیت سے خوب واقف نہیں ان میں امتیاز نہیں کر سکا اور اگر یہ پتھر قسم آخر الذکر سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ مگر پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پتھر جو تمہارے پاس موجود ہے اور دوسرے پتھر جن کا تم ذکر کر رہی ہو اصلی یاقوت رمانی ہوں اس لیے میں اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہوں۔ مگر یہ بتاؤ کہ اس قسمت آزمائی کے لیے لیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ تمہاری کہانی تو واقعی دل لبھانے والی ہے اور ممکن ہے کہ لعل وہاں ہوں بھی مگر مجھے سہ کیوں کر مل سکتے ہیں؟“

عورت: ”ایک تجویز مجھے سوجھی ہے اور اگر تم مجھے مدد دو تو میں یہ جواہر جو اس وقت تمہارے ہاتھ میں ہے اور جس کو میں نے بہت سالوں سے اپنے دامن میں چھپا رکھا ہے یہاں تک کہ میں نے اس کی نسبت مادام کو بھی خبر نہیں کی، تم کو دیتی ہوں۔ بشرطیکہ تم میری مالکہ کت چھڑانے کی کوشش کرو۔ مجھے تمہارا بشرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تم ایک دفعہ وعدہ کرو گے تو اس کو وفا کرو گے ۔“ یہ کہہ کر وہ رک گئی اور لیونارڈ کو بغور دیکھنے لگی۔

لیونارڈ : بہت خوب مگر جس خطرہ میں تم مجھے پڑنے کو کہتی ہو اس کے لحاظ سے یہ معاوضہ مجھے کافی نہیں معلوم ہوتا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ ممکن ہے کہ یہ پتھر کسی قیمت کا نہ ہو۔ اس سے کسی بہتر معاوضہ کا وعدہ کرو۔“

سوا : ”(چیں بچیں ہو کر) گورے آدمی تم نے سچ بات کہی اور میں تمہیں خوب جان گئی۔ تم بڑے دور اندیش شخص معلوم ہوتے ہو۔ بڑے کام کی مزدوری بھی بڑی ہونی چاہیے۔ ان سنو، میں تمہیں یہ معاوضہ دے سکتی ہوں کہ اگر تمہیں کامیابی حاصل ہوئی اور راعیہ پیلے بھتنے کے پنجے سے بچ گئی تو میں اس کی طرف سے اور اپنی طرف سے وعدہ کرتی ہوں کہ تم کو اہلِ ظلمات کی ولایت میں لے جاؤں گی اور وہاں تم کو ایک ایسا راستہ بتا دوں گی کہ تم ان تمام بیش قیمت جواہرات کو ڈھونڈ سکو۔“

لیونارڈ : ”اچھا مگر تم اپنی مالکہ کی طرف اے کیوں وعدہ کرتی ہو۔ اس کو اس معاملہ سے کیا سروکار ہے۔“

سوا: ”میں اپنی مالکہ کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ لوگ بہت مضبوط اور زور آور ہیں اور ہمارے پاس ان کو میدانِ جنگ میں ہزیمت دینے کے لیے کوئی سامان موجود نہیں ۔ پس ضرور ہے کہ ہم مکر و حیلہ سے کام لیں۔

Page 75

لیونارڈ : ”سوا تم صاف صاف نہیں کہتیں اور خواہ مخواہ کا وقت ضائع کر رہی ہو۔ میں اس معمّے کو نہیں سمجھا۔ تم ان لوگوں کو مکر و حیلہ سے کیونکر شکست دو گی اور مس راڈ کو جسے تم راعید کہتے ہو اس معاملہ میں دخل ہی کیا ہے۔“

سوا: ”یہ بات رفتہ رفتہ تم پر ظاہر ہو جائے گی جب تم اس کو پیلے بھتنے کے پنجہ سے چھڑا لو گے۔ فی الحال میں کچھ نہیں کہتی۔ اتنا البتہ تم کو بتائے دیتی ہوں کہ میں نے ایک تجویز سوچی رکھی ہے اس سے زیادہ اور میں تم کو کچھ نہیں بتانا چاہتی۔ اگر تم اس پر اکتفا نہیں کرتے تو میں کسی اور جگہ اسمداد کے لئے جاتی ہوں۔“

لیونارڈ کچھ دیر سوچتا رہا اور جب دیکھا کہ بڑھیا اپنے مطلب کو صاف صاف الفاظ میں ادا نہیں کرے گی تو اس نے کہا۔ ”اچھا مگر یہ مجھ کو کیونکر یقین ہو سکتا ہے کہ تمہاری مالکہ اس امر میں تم سے موافقت کرے گی۔“

سوا: ”میں اس کی طرف سے یہ جواب دیتی ہوں کہ وہ میری بات کو کبھی رد نہیں کرے گی۔ گورے آدمی دیکھو یہ کوئی تھوڑی بات نہیں جس کے لیے میں نے تم کو یہ تمام سرگزشت سنا دی ہے۔ اگر تم اہلِ ظلمات کے ملک میں جاؤ تو میں ضرور تمہارے ہمراہ چلوں گی اور اگر مجھ کو وہاں انہوں نے پہچان لیا تو موت کا سامنا ہو گا۔ میں نے ایک بڑے معاوضہ کا وعدہ کیا ہے کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ تم کو روپیہ کہ ضرورت ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ میں اپنی جان بھی دے دینے کو تیار ہوں۔ ایک کیا اگر ہزار جانیں بھی ہوتیں تو اس پر نثار کر کے خرید و فروخت کا معاملہ نہیں کہ اس میں اس قدر حجت و تکرار ہو۔“

لیونارڈ : (تفکّر میں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر) ”آٹر تمہاری کیا رائے ہے۔ تم اس عجیب سرگزشت کو شروع سے آکر تک سن چکے ہو۔“

آٹر: ”ہاں یہاں میں نے تمام ماجرا سنا ہے اور یہ جو آپ نے کہا کہ میں سمجھدار ہوں، یہ بات ابھی فیصلہ طلب ہے۔ میری قوم والے سمجھدار کے بجائے مجھ کو عیار خیال کرتے تھے اور مجھ کو جو انہوں نے ملک کی فرمانبرداری سے محروم رکھا تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی۔ ان کے خیال میں اگر میں صرف عیار یا صرف بد شکل ہوتا تو مجھ کو حکومت مل جاتی مگر چونکہ عیار بھی تھا اور ساتھ اس کے بد شکل بھی، اس لئے انہوں نے مجھ کو نکال دیا۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں میں اس کے ملک پر ایسی حکمرانی نہ کروں کہ ان سب کے کان کترے جائیں اور ساتھ ہی میرے کریہہ المنظر ہونے کا یہ اثر ہو کہ ملک میں بچے بد شکل پیدا ہوں۔ افسوس ہے ان کی حماقت پر کہ انہوں نے اتنی سے بات کو بھی نہ سمجھا۔“

لیونارڈ کو یہ تو معلوم ہی تھا کہ پست قامت آنر بات کا جواب دینے سے پہلے اس قسم کی باتیں چھیڑے گا تا کہ

Page 76

لیونارڈ کے سوال پر غور و فکر کرنے کے لیے اس کو وقت ملے۔ اس لیے اس نے آٹر سے کہا۔ ”ان باتوں کو جانے دو۔ میں نے کو کچھ تم سے پوچھا ہے اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟“

آٹر : ”میاں میں کیا کہوں۔ اس سرخ رنگ کے پتھر کی قیمت میں نہیں جانتا کیا ہو گی اور یہ بھی مجھ کو معلوم نہیں کہ آیا یہ بڑھیا جس کی نسبت میرا دل اچھی گواہی نہیں دیتا ان لوگوں کے متعلق جو ظلمات میں یہاں سے ایک دور دراز فاصلے پر رہتے ہیں اور میری شکل والے ایک دیوتا کی پرستش کرتے ہیں سچ کہہ رہی ہے یا جھوٹ میری تو کسی نے عبادت نہیں کی۔ تاہم ممکن ہے کہ کوئی ایسی ولایت ہو جہاں کے لوگ مجھ کو لائقِ عبودیت سمجھتے ہوں اور اگر سچ ہے تو میرا عین منشا ہے میں اُس ولایت کا سفر کروں۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پیلے بھتنے کے قلعہ میں سے راعیہ کو کیوں کر چھڑایا جا سکتا ہے۔ اے بڑھیا، مادام کے کتنے آدمی تمہاری ملکہ کے ساتھ پکڑے گئے تھے۔“

سوا: ”شاید پچاس آدمی۔“

آٹر: ”اچھا تو اگر ہم ان آدمیوں کو رہا کرائیں اور وہ بہادر ہوں تو ہمیں توقع ہو سکتی ہے کہ ان کی مدد سے ہم اس مہم کو سر کر لیں مگر میاں اس میں اور بہت سی شرطیں ہیں جو میری دانست میں کڑی ہیں۔ تاہم اگر آپ خیال کریں کہ معاوضہ واجبی ہو تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا سراسر حماقت ہے، اس کی آپ کچھ پروا نہ کریں کہ کیا پیش آئے گا۔ جب قسمت ہم کو آزماتی ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ قسمت آزمائی کریں۔“

لیونارڈ : تمہارا قول نہایت درست ہے۔ اب اس قدر محنت و مشقت اٹھانے کے لیے آمادہ ہونے میں خواہ میری نادانی ہی ہو تاہم مجھے تمہاری رائے سے اتفاق ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو تحریری طور پر ثبت کیا جائے تا کہ کسی غلط فہمی کا اندیشہ نہ رہے۔ آٹر ہرن کے گوشت میں سے خون کت چند قطرے لا کر اس میں بارود تو ملا لو۔ تھوڑا سا گرم پانی ڈالنے سے یہ مرکب روشنائی کا کام دے جائے گا۔“

لیونارڈ کی ہدایت کے موافق پست قامت آٹر سیاہی کی تیاری میں مصروف ہوا۔ ادھر لیونارڈ کاغذ تلاش کرنے لگا۔ چونکہ کاغذ کا جو پرزہ اس کے پاس رہ گیا تھا وہ بھی اس رات کی آندھی جس میں اس کے بھائی نے جان دی، اڑا لے گئی تھی اس لیے اس کو کاغذ کوئی نہ ملا۔ پھر اس کو اس انجیل کا خیال آیا جو جین نے اس کو دی تھی۔ چونکہ اس سادہ ورق پر جو کتاب میں زائد لگا دیا جاتا ہے، جین کا نام مرقوم تھا، لیونارڈ نے نہ چاہا کہ اس پر کچھ اور لکھے۔ اس لیے اس نے سر ورق پر اس خون اور بارود کے مرکب سے صاف حروف میں یہ لکھا:

Page77

اقرار نامہ درمیان لیونارڈ اوٹرم و سوا سکنہ ملک افریقہ

اوّل : لیونارڈ مذکور وعدہ کرتا ہے کہ جوانا دختر مسٹر راڈ کو جو اب غلامی کی حالت میں ہے اور جس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ اس کو ایک بردہ فروش مسمی پریرا پکڑ کر لے گیا ہے، رہا کرانے کے لیے وہ نہایت کوشش اور سعی کرے گا۔

دوم : لیونارڈ مذکور کی خدمات کے صلہ میں مسماۃ سوا مذکور نے اس کو ایک پتھر ، جس کو وہ لعل بتاتی ہے، دیا ہے۔ یہ لعل اس نے وصول پایا۔

سوم : اگر جوانا مذکور رہائی پا گئی تو سوا اپنی طرف سے اور جوانا کی طرف سے وعدہ کرتی ہے کہ لیونارڈ اوٹرم مذکور کو جنوب مشرقی افریقہ کے وسط میں ایک ایسا خطۂ ملک میں لے جائے گی جہاں ایک قوم جو ایل ظلمات کے نام سے موسوم ہے آباد ہے۔ تا کہ اس کت ہیروں کے خزانے کا پتا بتائے اور ان کے حصول میں اس کو مد دے جن کو وہاں کے لوگ مذکور اس کے (سوا) ہمراہ جائے گی اور اہلِ ظلمات کے ملک میں جا کر جو ضروری خدمت کہ جو اس کو انجام دینی ہو اس سفر کی کامیابی کے لئے انجام دے گی۔

چہارم : یہ امر باہمی طور ہر قرار پایا ہے کہ لیونارڈ اوٹرم مذکور سفر ظلمات کی کوششوں کو اس وقت تک جاری رکھے جب تک کہ اس کو اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ اب کوشش کرنا لاحاصل ہے۔

کوہستان میں واقع مشرقی افریقہ میں بتاریخ ۹ ماہ مئی ۱۸--؁ء

اس اقرار نامہ پر دستخط کیے گئے

جب یہ تحریری معاہدہ ختم ہوا تو لیونارڈ نے باآوازِ بلند اس کا ترجمہ پڑھا۔ پھر آٹر سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ بتاؤ کیسا لکھا گیا۔

آٹر : ”میاں اچھا لکھا گیا ہے۔ نہایت اچھا لکھا گیا ہے۔ انگریز لوگ جو کام کرتے ہیں اس میں حیرت انگیز اتمام اور تکمیل ہوتی ہے مگر میاں یہ بڑھیا ایک غیر شخص کی طرف سے کیونکر وعدہ کر سکتی ہے۔“

آٹر کے اس اعتراض نے لیونارڈ کو تشویش میں ڈال دیا۔ واقعی بونے کی یہ حجت قاطع تھی مگر سوا فوراً بول اٹھی۔ ”گورے آدمی اس بات کا کچھ اندیشہ نہ کرو جو کچھ میں وعدہ کرتی ہوں اس کو میری مالکہ ضرور پورا کرے گی۔ بشرطیکہ تم اسے بند غلامی سے رہا کرو۔ مجھے قلم دینا تا کہ میں اپنا نشان کاغذ پر ثبت کر دوں مگر پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ

Page 78

آیا جو کچھ اس اقرار میں تحریر پا چکا ہے اس کو تم انجام دو گے۔“

لیونارڈ ہنس پڑا اور قسم کھا کر اس نے سوا کے ظن کو دفع کیا۔ پھر اس نے اقرار نامہ پر اپنے دستخط کیے اور اس کے بعد سوا نے اپنا نشان کاغذ پر ثبت کیا۔ سب کے بعد آٹر نے اپنا نام بطور گواہ کے لکھا اور معاملہ طے ہوا۔

لیونارڈ اس معاملہ کو بچوں کا کھیل سمجھ کر پھر ہنسا اور پھر اس نے انجیل کو جیب میں ڈالا اور لعل کو اپنی ہمیانی کے ایک خانہ میں رکھ لیا۔ لعل کو ہمیانی میں رکھتے دیکھ کر بڑھیا عورت کے چہرے پر جو کیفیت ہویدا ہوئی اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کو پنے منصوبے میں پوری کامیابی حاصل ہو گی اور اس نے خوش پو کر یوں کہا۔

”اے گورے آدمی، جو کچھ مجھے تم کو دینا تھا میں دے چکی۔ اب تم جب تک میری مالکہ راعیہ کو نہ چھڑا لو میرے نوکر ہو۔ جو شخص ایکا کے خون کی قسم کھاتا ہے وہ فی الحقیقت ایک سچی قسم کھاتا ہے اور لعنت ہے اس پر جو اس قسم کو توڑے۔“

لیونارڈ : ”بالکل ٹھیک کہتی ہو۔ میں نے تم سے اپنا معاوضہ پیشگی لے لیا ہے۔ لیکن میں ایسا غدار نہیں کہ اپنے وعدے سے پھر جاؤں۔ ایکا کے خون کو اس معاملہ میں لانے کی ضرورت نہیں۔ قوی تر احتمال میری نزدیک اس بات کا ہے کہ ہمارا اپنا خون اس مہم میں کام آئے گا۔ بہتر ہے کہ اب ہم رختِ سفر باندھیں اور روانہ ہو جائیں۔“

Page 79

آٹھواں باب

روانگی

زاد راہ ہونا سب سے مقدم تھا اور اسی خیال سے لیونارڈ نے آٹر سے کہا کہ جو کچے گوشت کا ٹکڑا باقی بچا رکھا ہے اس کی بوٹیاں کاٹ کر دھوپ میں سکھا لے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے سامان کی جانچ پڑتال کی اور صرف ان چیزوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے علیحدہ کر لیا جن کی سفر میں ضرورت تھی اور جن کے اٹھانے میں کچھ دقت نہ تھی۔ پھر بھی یہ چیزیں کچھ کم نہ تھیں۔ ایک عدد کمبل، ایک جوڑی زائد بوٹ، صندوق، ادویات میں کشتۂ سیماب اور دیگر چند دوائیاں، ایک عدد چھرے والی بندوق اور دو سب سے عمدہ رائفلیں اور گولی بارود، ایک قطب نما، پانی بھرنے کے لیے ایک بوتل، تین چاقو، ایک کنگھی اور ایک چھوٹی لوہے کہ پتیلی۔ ان تمام چیزوں کا وزن اتنا تھا کہ دو آدمی اٹھا سکتے تھے مگر ساتھ ہی ایک پیر زن بھی تھی جس کو پہاڑوں، میدانوں اور دلدلوں میں ساتھ ساتھ کھینچنا تھا۔ کل وزن کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کیا۔ سوا کا بوجھ سب سے ہلکا تھا اور آٹر کا لیونارڈ اور سوا دونوں کے برابر۔

آٹر : ”یہ تو کچھ بھی نہیں ، اگر وقت آ پڑے تو میں سارا اسباب اٹھانے کے لیے موجود ہوں۔“

واقعی یہ بونا جسمانی طاقت میں معمولی انسانوں پر تفوق لے گیا تھا اور لیونارڈ جانتا تھا کہ وہ ڈینگ کی نہیں لے رہا ہے۔

آخر کار رختِ سفر بندھ گیا اوت چل چلاؤ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جو چیزیں رہ گئیں ان کو انہوں نے کان کنی کے اوزاروں کے ساتھ غار کے ایک کونہ میں دبا دیا۔ لیونارڈ کو خیال تھا کہ جن آلات کو ہم یہاں چھپائے جاتے ہیں ان کی تلاش میں ہمیں اس مقام پر واپس آنے کا موقعہ غالباً حاصل نہ ہو گا بلکہ ہزار ہا سال تک یہ آلات یہیں پڑے رہیں گے حتیٰ کہ علمائے علم طبقات الارض جن کا ظہور اس عالم کون و فساد میں مرور قران کے بعد ہو گا یہاں سے ان آلات کو کھود کر اس زمانہ کے آثار سے تعبیر کریں گے جب کہ انگریزی قوم نے براعظم افریقہ کے جنوب میں آ کر اپنا علم بلند کیا تھا۔ تاہم احتیاطاً انہوں نے ان کو ایسی جگہ چھپایا کہ اگر اتفاقاً ان کا وہاں گذر ہو تو وہاں سے ان اوزاروں کو ڈھونڈ لیں۔ لیونارڈ نے جو سونا پہاڑ سے نکالا تھا اس کو اس نے ڈھال کر

Page 80

چھوٹی چھوٹی ڈلیاں بنائی تھیں۔ اس طرح خالص سونے کے قریباً سو اونس اس کے پاس موجود تھے۔ جس سے تین آدمی عمر بھر گزارا کر سکتے ہیں۔ ان میں سے آدھی ڈلیاں تو اس نے اپنی ہمیانی میں لعل کے ساتھ رکھ لیں اور آدھی آٹر کو تھیلے میں ڈال لینے کے لیے دے دیں۔

شام کے وقت وہ سب طرح سے تیار ہو گئے اور چاند کی قندیل افق پر روشن ہوئی تو لیونارڈ نے اپنا بوجھ اُٹھا کر تسموں سے جو پہلے سے اسی مطلب کے لیے بنا رکھے تھے، باندھا اور آٹر اور سوا نے بھی اس کی تقلید کی۔ انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ جب تک چاندنی ہے راتوں کو سفر کریں تا کہ تمازتِ آفتاب سے محفوظ رہنے کے علاوہ سفر بھی مخفی طور پر کر سکیں۔

لیونارڈ : (آٹر سے مخاطب ہو کر) میں آگے چلتا ہوں، تم چند منٹ کے بعد روانہ ہونا۔ میں اپنے بھائی کے مدفن کے پاس کھڑا ہوں گا۔“

آٹر : (سر ہلا کر) ”بہت اچھا۔“

پندرہ منٹ کے بعد آٹر اور سوا دونوں روانی ہوئے، آٹر نے اپنے مالک کو برہنہ سر اپنے بھائی کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوا پایا۔ لیونارڈ ایک ایسی وضع میں جس سے یاس و حسرت ٹپکتی تھی اس سنسان ویرانہ میں جسے وہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کو تھا اپنے خاک میں سوتے ہوئے بھائی کو الوداع کہنے کے لیے کھڑا تھا۔ مگر افسوس یہ الوداع کیسی تھی کہ جس کا جواب تک بھی نہ ملا۔ یہ جدائی ایک درد انگیز جدائی تھی مگر براعظم افریقہ کے اس طبقہ میں جو بخار کا گھر ہے بہت سے لوگ اس حسرت ناک جدائی کے خنجر کے شہید ہو چکے ہیں۔

لیونارڈ نے چلتی دفعہ ایک نظر قبر کی طرف کی اور ایک جگر گداز آہ بھری۔ پھر وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ہو لیا اور ان کے مشورہ اور قطب نما کی مدد سے اس نے اپنا رُخ پہاڑ کی طرف مگر اپنے دل کا رُخ امید و بیم اور کار ہائے عظیم کی طرف جو پہاڑ کے دوسری جانب اس کے منتظر تھے کیا۔

لیونارڈ گئے دنوں کی مصیبت تو بہر صورت کاٹ چکا تھا جس میں اس کے بھائی کی مرگ کا صدمۂ عظیم بھی شامل تھا لیکن رنج و مصیبت کے اس بھنور سے نکل کر اس کی حالت بار دیگر ایسے لوگوں کی سی ہو گئی جو زندگی کے جدوجہد میں یاس و ناکامی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتی۔ خوش آئند اور دلفریب امیدوں کا ایک لہلہاتا ہوا مرغ زار اس کی واہمہ نظروں کے سامنے کوسوں پھیلا ہوا تھا۔ خدا جانے اس سہانے جنگل میں جو بظاہر ایسا دل خوش کن تھا کہ کچھ ہو گا اور کیا کچھ نہ ہو گا مگر لیونارڈ کو اس کی ذرا پروا نہ تھی۔ مشاہدہ اور تجربہ نے اس کو سکھا دیا تھا کہ فکر ِ فردا دلیل حماقت ہے۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 131
یہ دیکھ کر آٹر بولا ”واؤ اس عورت نے تو بڑا کام کیا ہے یہ تو مردوں سے بھی بڑھ گئی“ لمحہ بھر کے بعد وہ توپ کے پاس پہنچ گئے اور توپ کے دوبارہ بھرنے میں مدد دینے لگے لیکن جونہی کہ سوا نے جوانا کو دیکھا وہ اپنے گھٹنوں کے بل جا کر جوانا کے ہاتھ پاؤں چومنے لگی۔ لیونارڈ نے کہا کہ”اس وقت ان ہاتھوں کو رہنے دو یہ شیطان اپنے ہتیھار لینے گئے ہیں اور ہم پر ابھی ہلا کرنے کی کوشش کریں گے پیٹر گولہ بارود خوب سا پاس رکھ لو اور سوا تم پیچ گھما کر اس کا منہ ذرا نیچے کر دو“ پھر اس نے رہا شدہ غلاموں کو حکم دیا کہ ” ڈنڈے لاٹھیاں لکڑیاں جو تمہیں ملیں لے آؤ اور مسلح ہو جاؤ۔“
کچھ دیر نہ گزری تھی کہ بردہ فروش چیختے چلاتے ہاتھ میں لمبے لمبے تختے لیے بڑھے جن کی مدد سے وہ خندق کو عبور کرنا چاہتے تھے۔ لیونارڈ پکارا ”خبردار وہ فائر کیا چاہتے ہیں۔ ہر ایک آدمی پشتے کے پیچھے ہو جائے اور یہ کہہ کر اس نے جوانا کو جو پاس کھڑی تھی پکڑا اور آڑ میں کھینچ لیا۔ لیونارڈ نے ابھی یہ بات ابھی ختم نہ کی تھی کہ ان پر گولیوں کی ایک بار پڑی۔ اکثر آدمی لیونارڈ کا حکم سنتے ہی آڑ میں ہو گئے البتہ ایک یا دو جنہوں نے حکم نہیں سمجھا کھڑے رہے اور گولی کھا کر گر پڑے لیکن سوا اور پیٹر نے لیونارڈ کے کہنے کی کچھ پرواہ نہ کی اور برابر توپ کے پاس کھڑے ہوئے اسے بھرتے رہے مگر ان کو کوئی گولی نہ لگی۔ بردہ فروش بد حواسی کے عالم میں تختوں کو لیے ہوئے بجائے اس کے کہ خندق کے کنارے کنارے رینگتے ہوئے آتے سیدھے بڑھے آ رہے تھے۔ آٹر بولا ”کیا یہ پاگل تو نہیں ہو گئے“ اور لیونارڈ کو بھی یہی گمان ہوا جیسے ہی بردہ فروشوں کی پہلی جماعت زد میں آئی لیونارڈ چلایا ”اب فائر کرو“
سوا نے توپ کو شست پر پہلے ہی لگا رکھا تھا اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہاتھ میں لیے منتظر کھڑی تھی لیونارڈ کے حکم پر اس نے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کو داغا اور نعرہ مار کر پیچھے کو اچھلی تاکہ توپ کے دہکے سے محفوظ رہے۔ توپ رعد کی طرح گرجی اور ہزاروں چھرے اور شیشہ کے ٹکڑے اور نشتر کو جو توپ میں بھرے ہوئے بھرے ہوئے تھے سائیں سائیں کرتے بردہ فروشوں کی قطاروں پر برس گئے اور چونکہ زمین سخت اور پتھریلی تھی اس لیے ایک کر ان آدمیوں کو جا لگے جو پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔
بتہیرے ہلاک ہوئے اور بتہیرے مجروح۔ جو بچے وہ اپنی جان بچانے کے لیے وحشت اور سراسیمگی کے عالم میں چلاتے ہوئے ادھر ادھر بھاگ گئے۔
آٹر بارود کی تھیلی اٹھا کر چلایا توپ کو بھرو۔ توپ کو بھرو۔ وہ پھاٹک توڑ کر باہر نکلنا چاہتے ہیں۔“
ان کا یہ کہنا تھا کہ نیلام گھر سے پھاٹک کی طرف بہت سے آدمی دوڑتے نظر آئے مگر پھاٹک کو قفل لگا ہوا تھا اور کنجی لیونارڈ کے پاس تھی پھاٹک کے اوپر سے ہو کر۔۔۔(غیر واضح لفظ) جانا بھی محال تھا اس لیے ان میں سے کچھ لوگ بھاگے ہوئے گئے اور ہتھوڑے لے آئے کچھ آدمی نیلام گھر کی طرف دوڑ گئے اور ایک موٹا سا لٹھ جو ایک کونے میں
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
132
پڑا ہوا تھا اٹھا لائے اور پھاٹک پر دھڑا دھڑ مارنے لگے دس منٹ تک تو پھاٹک کو کچھ خبر نہ ہوئی مگر اس کے بعد اس میں دراڑ پڑ گیا اور وہ کہنے لگا۔
آٹر ( سوا سے مخاطب ہو کر) ”جلدی کر جلدی کر ورنہ کام خراب ہو جانا ہے۔“
سوا ( توپ کا رخ پیٹر کی مدد سے بدل کر) ”کالے آدمی دخل معقولات نہیں دیا کرتے۔“
اس وقت بردہ فروشوں نے چیخنا شروع کیا۔ پھاٹک جنبشِ کھا رہا تھا مگر اس کے اوپر کے قبضے ابھی اپنی جگہ پر قائم تھے پانچ چھ چوٹیں اور لگتیں تو پھاٹک یقیناً گر پڑتا۔ مگر اتنی ان کو مہلت ہی نہ ملی کیوں کہ دفعتًہ فصیل پر سے توپ دغی اور دغنے کے ساتھ ہی ان کی چیخیں نکل گئیں بہت سے اجل کا شکار ہو گئے اور بتہیرے نفسی نفسی پکارتے ہوئے نیلام گھر اور پیلے بھتنے کے مسکن میں جا گھسے۔ بعض نے چاہا کہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کی طرف آئیں مگر وہ بھی کچھ دیر بعد پیچھے کی طرف بھاگتے ہوئے نظر آئے کیوں کہ سرکنڈوں کی آگ بڑھتی چلی آ رہی تھی اور انھیں خوف ہوا کہ اگر بارود خانہ میں پناہ گزین ہوں گے تو بھک سے اڑ جائیں گے۔ دس بارہ آدمی جو سب سے بہادر تھے پھاٹک پر کھڑے رہے مگر جب لیونارڈ اور آٹر نے رائفلوں کی باڑ لگائی تو ان میں سے تین چار آدمی وہیں چت ہو گئے اور باقی ادھر ادھر کونوں میں جا چھپے۔
جوانا ( جانب مشرق انگلی اٹھا کر)”اوہو! دیکھنا! دیکھنا!“ اور واقعی نظارہ قابلِ دید تھا۔
قلعہ سے دور مشرق کی طرف سرکنڈوں کے گٹھے جھاڑ جہنم کا نمونہ بن رہے تھے اور جوں جوں ہوا تیز ہوتی جاتی تھی آگ قلعہ کی طرف ایک غول بیابانی کی طرح قلاچیں پارتی چلی آ رہی تھی یا یوں کہنا چاہیے کہ ایک آگ کا سمندر تھا جس میں شعلوں کی موجیں پہاڑ کی چوٹیوں کی طرح بلند ہوتی تھیں اور مقابل سمتوں سے آ کر ٹکر کھاتی تھیں۔“
سرکنڈوں میں سے چٹخنے کی آواز پیدا ہوتی تھی اور آگ کی لپیٹ میں سے دھواں پیچ کھاتا ہوا اوپر اٹھتا تھا۔
جو بردہ فروش بچ رہے تھے انہوں نے یاس کے عالم میں بدحواس ہو کر کھائی میں کودنا شروع کیا کہبچ کر دلدل کی طرف نکل جائیں مگر بہت بہت سے اسی کوشش میں ڈوب گئے اور جو تیر کر پار نکلے ان میں سے کچھ آگ میں جل گئے اور کچھ ادھر ادھر جہاں ان کے سینگ سمائے بھاگ گئے لیکن ابھی تک کچھ لوگ قلعہ کے اندر عالم اضطراب میں ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
133
جب وہ توپ کی زد میں آئے تو سوا نے جو توپ کو بھرے ہوئے۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہاتھ میں لیے ہوئے کھڑی تھی فوراً ان پر فائر کیا ان میں سے اکثر فوراً اڑ گئے جوانا نے کانپ کر لیونارڈ سے کہا کہ یہ مقام تو واقعی دوزخ بن رہا ہے۔
اور واقعی اس نے سچ کہا تھا۔ اگر چاروں طرف آگ کے بھڑکتے شعلوں کے بلند ہوتے۔۔۔(غیر واضح لفظ) روحوں کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے دل کو ہلا دینے والی صدا کے اٹھنے اور معرکہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے برپا ہونے کو جہنم کے نظارہ سے کوئی مناسبت تھی تو پیلے بھتنے کے مسکن اور اس کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کو جہنم سے نہ صرف تشبیہ دی جا سکتی تھی بلکہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ جہنم پر اس کو کسی قدر تفوق حاصل ہے۔
تھوڑی دیر میں آفتاب نے کنج مشرق سے سر نکالا اور اس بربادی کے ہیبت ناک نظر کو اس کی شعاعوں نے عریاں کر دیا۔ ہر ایک شے جل کر خاک سیاہ ہو گئی تھی۔ ۔۔۔(غیر واضح لفظ) اور پھونس کے سب مکان جل چکے تھے صرف پیلے بھتنے کے مسکن کی دیواریں کھڑی تھیں۔
من چلے اور بہادر فاتحوں کی حالت بھی جو توپ کے پاس کھڑے تھے ناگفتہ بہ تھی۔ لیونارڈ تھک کر چور ہو رہا تھا
اور اس کا منہ ہاتھ اور کپڑے سب دھوئیں اور بارود سے سیاہ ہو رہے تھے۔ سوا کی بھی یہی حالت تھی بال اس کے جھلسے ہوئے تھے ماتھے پر ایک گولی کے زخم کا جو جلد کو مس کرتی ہوئی چلی گئی تھی نشان تھا۔ کپڑے سا کے چنگاریاں پڑ پڑ کر جل گئے تھے۔ جوانا کا لباس پھٹا ہوا تھا۔ بارود اور راکھ کے سیاہ دھبے جا بجا اس پر پڑے تھے اور جس مقام پر پیلے بھتنے نے اسے پھاڑا تھا وہاں پتوں کے پیوند لگے ہوئے تھے باریک گھونگر والے بال اس کے الجھے ہوئے تھے چہرہ سے تکان اور اضمحلال ظاہر تھا۔ فرانسسکو کی حالت بھی نہایت قابل رحم تھی اور پیٹر اور نو آبادی کے رہا شدہ لوگوں کا بھی یہی حال تھا۔ غرضکہ سب خستہ اور ماندہ تھے مگر ان سب میں آٹر مستثنیٰ تھا۔ ابھی تک اس کی چستی و چالاکی اور تندی میں ذرا فرق نہ آیا تھا۔ لیونارڈ کے سامنے وہ اپنے جبلی دم خم کے ساتھ آیا اور کہنے لگا میان آپ کا حکم ہو تو میں نو آبادی کے کچھ لوگ ساتھ لے کر ان حرام زادوں کے تعاقب میں جاؤں جو دلدلوں میں چھپے ہوئے ہیں۔“ لیونارڈ نے کہا کہ جاؤ اجازت پا کر بونا ادھر روانہ ہوا۔
اس کے بعد لیونارڈ جوانا فرانسسکو اور سوا نے خندق کے کنارہ جا کر منہ ہاتھ دھویا اور جو کچھ ناشتہ موجود تھا کھایا اور درختوں کے سایہ میں سستانے کے لیے ٹھہر گئے کیوں کہ اب ان میں اتنی سکت نہ تھی کہ تازہ دم ہوئے بغیر کوئی اور کام انجام دے سکیں کچھ دیر گزرنے کے بعد آٹر واپس آیا اور کہنے لگا ”میان ہمیں اپنی جستجو میں کامیابی ہوئی اور ہم نے ایک بردہ فروش کو پکڑ لیا۔ چل کر آپ دیکھ لیجیے“ چنانچہ یہ سب لوگ آٹر کے پیچھے پیچھے ہو لیے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
134
اور کچھ دور جا کر انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص سر جھکائے زمین پر بیٹھا ہے اور بہت سے نو آبادی کے لوگ اس کے گرد حلقہ زن ہیں ان کے آنے پر جب اس شخص نے نگاہ اٹھائی تو یہ سب کے سب چونک پڑے کیوں کہ یہ شخص خود پیلا بھتنا تھا۔
پیلے بھتنے کے چہرہ پر بھی لیونارڈ اور اس کے ہمراہیوں کو دیکھ کر بیم و یاس کی علامتیں طاری ہو گئیں اور وہ دم بخود ہو کر رہ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا کہ ”مجھے ایک گھونٹ پانی دو“ حبشی لوگ جو اس کے گرد قصائیوں کی طرح جمع تھے ان میں سے ایک بولا کہ”اسے پانی کے بجائے چون دو اس نے تمام عمر خون پیا ہے اب اس کی آخری پیاس بھی خون سے بجھانی چاہیے“ یہ سن کر پیلا بھتنا گڑ گڑانے اور منت و زاری کرنے لگا اور لیونارڈ کے قدموں پر ٹھوکر کھا کر گر پڑا کہ للله مجھ پر رحم کرو اور مجھے چھوڑ دو۔“
لیونارڈ نے درشتی کے ساتھ اسے یہ جواب دیا ”ڈام انٹیونیو پریرا کل رات تم نے شیخی میں آ کر اس خاتون سے (جوانا کی طرف اشارہ کر کے) کہا تھا کہ جا اپنے خدا کو بلا لاؤ دیکھیں وہ تیری کیسی مدد کرتا ہے“ تم کو معلوم رہے کہ خدا نے اس کی مدد کی اور خدا کی عنایت سے میں نے اور میرے دو ساتھیٹنے ایک رات میں تمہارے اس زبردست قلعہ کو مسخر کر لیا۔ مصیبت کے وقت تم نے کسی کی دستگیری نہیں کی اب تم کیسے توقع رکھ سکتے ہو کہ تمہاری بے کسی کے عالم میں کوئی تم پر رحم کرے میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔“
لیونارڈ سے یہ روکھا جواب پا کر پیلا بھتنا جوانا کی طرف مڑا اور نہایت عجز و الحاح سے کہنے لگا کہ ”بیٹی تم ہی میری سفارش کرو میں نے تمہارے ساتھ کیسا اچھا برتاؤ کیا تھا“ لیکن جوانا نے اس کے جواب میں نہایت نفرت و حقارت سے اس کی طرف دیکھ کے اپنے پھٹے ہوئے لباس پر نگاہ ڈالی اور پھر دوسری طرف منہ موڑ لیا۔
آٹر اب آگے بڑھا اور لیونارڈ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ ”میان اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس بڈھے سے ایک دو تین کر لوں“ لیونارڈ نے جواب دیا کہ ”تمہیں اختیار ہے“ یہ سن کر آٹر نے پریرا سے کہا۔
”سن بے پیلے بھتنے! دس سال ہوئے کہ تو نے مجھے پکڑ کر یہاں قید کیا تھا یہ دیکھ میرے جسم پر ان بیڑیوں کے نشان ہیں جو تو نے ڈالی تھیں۔ تو تو کالے بونے کو بھول گیا ہوگا یا شاید تو نے اس ک خیال بھی نہ کیا ہو گا مگر اس کے دل سے دل سے کیا تیری یاد جاتی ہے۔ کون ہے جو جو تیرے گھونسلے میں ایک دفعہ سویا ہو اور پھر وہ تجھے بھول سکے میں تھا جو خدا خدا کر کے نکل بھاگا مگر فرار ہوتے وقت میں نے قسم کھائی تھی کہ اگر ہو سکا تو میں بدلہ لوں گا۔ سا پر کئی سال گزر گئے آخر کار انتقام کا وقت آیا۔ میں میان کو یہاں لایا اور آج سویرے ہی تجھے ڈھونڈ نکالا لیکن
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
135
یہ نہ سمجھیے گا کہ تیری مصیبتوں کا یہیں خاتمہ ہو گیا۔تو نے کل رات کیا شیخی بگھاری تھی؟ تو کہتا تھا کہ میں نے بیس ہزار حبشیوں کو غلامی میں فروخت کیا ہے تیرا یہ دعویٰ البتہ ٹھیک تھا۔ ایک ایک غلام کے ساتھ تو نے پانچ پانچ اور بے گناہ و۔۔۔(غیر واضح لفظ) بھی قتل کیے مراد سفیدیش لوگوں کو، حاملہ عورتوں کو، ماؤں کو اور ننھے ننھے شیرخوار بچوں کو تو نے بے دردی اور سفاکی کے ساتھ تکے بوٹیاں کر ڈالا۔ میں نے ان اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تو نے دودھ پیتے بچوں کو ان کی ماؤں کی آغوش سے جدا کر کے یونہی مارا جیسے تو نے پہلی رات بلی کے بچے کو مارا تھا پیلے بھتنے تو یہ سمجھا بیٹھا تھا کہ میں ہمیشہ یہی رنگ رلیاں منایا کروں گا۔ مگر سفاک تو یہ غلط سمجھا تھا آخر کار یہ بھی وقت آن پہنچا اب آٹر بونا تجھے وہی زہر ہلا ہل پلائے گا جو تو دوسرں کو پلایا کرتا تھا۔ اب تو گڑ گڑانے لگا ہے کہ تجھ پر رحم کیا جائے حالانکہ کبھی خواب میں بھی تو نے دوسروں پر رحم نہیں کیا دیکھ میں تجھ سے کہے دیتا ہوں کہ اگر میرا آقا بھی جو سامنے میرے کھڑا ہے اور جس کی عدول حکمی کے بجائے میں مرنا قبول کروں گا مجھے حکم دے کہ تجھے چھوڑ دوں تو ایک دفعہ تو اس کا کہنا بھی نہ مانوں گا ذرا ان آدمیوں کی طرف تو دیکھ یہ کہہ کر اس نے نو آبادی کے لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو اس بدبخت کی طرف اسی طرح دیکھ رہے تھے جیسے کہ تاڑی کتے ایک لومڑی کی طرف جسے شکاری نے پکڑ رکھا ہو دیکھتے ہیں کیا تو ان کی آنکھوں میں قابلِ رحم ہو سکتا ہے ان کے ماں باپ کو تو نے مار ڈالا ان کے بچوں کو تو نے پاؤں تلے کچل ڈالا۔ ابے حرامزادے پیلے بھتنے! گورے آدمی ہمیں بتایا کرتے ہیں کہ دوسری دنیا میں ایک دوزخ ہے جہاں مردوں کو عذاب ہوتا ہے۔ تو اس دوزخ کے عذاب کا مزہ اب چکھے گا ابھی کیا چکھا ہے۔
”آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔“
آٹر نے اپنی یہ تقریر ختم کر کے لیونارڈ سے کہا ” میان اس شقی ملعون کو میرے حوالہ کر دیجیے۔ ہم لوگ اپنے رسم و رواج کے مطابق اس پر فتویٰ لگا کر اسے سزا دیں گے۔“ اور یہ کہہ کر لیونارڈ کا جواب سنے بغیر آٹر اور نو آبادی کے دوسرے لگو پیلے بھتنے کو۔
پا بدست دگرے دست بدست دگرے
کشاں کشاں لے چلے۔
لیونارڈ نے انہیں روک کر کہا ”میں اس کا روا دار ہرگز نہیں کہ تم وحشیانہ طور سے اسے مارو۔ مارنا ہے تو اسے گولی مارو۔
مگر گولی سے مارنے کی نوبت ہی نہیں پہنچی کیوں کہ پیلا بھتنا جسے آٹر نے دبوچ رکھا تھا۔ گولی کا نام سنتے ہی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
136
دفعتًہ نیلا پڑ گیا اور ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ کر نیچے گر پڑا۔ آٹر نے جو جھک کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ پیلے بھتنے کی جان نکل گئی ہے اور وہ فی النار والسقر ہو گیا اس پر سب ایک ساتھ بول اٹھے ”خدا ظالموں سے اسی طرح انتقام لیا کرتا ہے۔“ لیکن آٹر نے کہا ”یہ مجھ پر خدا نے ظلم کیا کہ اس کے انتقام کو میرے ہاتھ سے چھین لیا۔“
اس کے بعد لیونارڈ بولا کہ ”اب ہمیں یہاں سے چلنا چاہیے ورنہ ڈر ہے کہ جو بردہ فروش بچ کر بھاگ گئے ہیں وہ اپنے رفیقوں کو لا کر ہم پر نہ آ پڑیں۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
137
پندرہواں باب

انکشاف حقیقت
صبح کا وقت تھا۔ لیونارڈ اور اس کے ہمراہی ایک جزیرہ پر خیمہ زن تھے لیونارڈ رہا شدہ غلاموں کو کشتیوں میں بٹھلا بٹھلا کر دریائے زمبزی کے حوالہ کر چکا تھا تاکہ جدھر ان کی مرضی ہو یا قسمت ان کو لے جائے چلے جائیں۔
جب سب غلام روانہ ہو چکے تو آٹر بولا ”اب میان بردہ فروشوں کے قلعہ میں سے ہم راعیہ کو تو نکال لائے اور پیلے بھتنے کو بھی ہم نے مار ڈالا لیکن ابھی سونا نہیں ملا جو اصلی پیلا بھتنا ہے۔ تو کیا ہم اب ادھر چلیں؟“
لیونارڈ ہاں چلنا تو چاہیے مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ سوا اپنے وعدے پر قائم رہے بہر حال ہمیں پہلے نو آبادی کی طرف جانا چاہیے تاکہ ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا پتہ چلے۔
آٹر ذرا تامل کے بعد، ”ہاں علاوہ اس کے راعیہ بھی اپنے پیارے باپ کو دیکھنے کی خواہشمند ہو گی دیکھیے میان راعیہ کیسی مفرور ہے۔ ہماری طرف دیکھتی ہے پر ہم سے بات نہیں کرتی۔“
لیونارڈ ہاں آٹر ہے تو کسی قدر مغرور۔“
آٹر اور خوبصورت کیسی ہے! میان میں نے اپنی عمر بھر کوئی عورت ایسی حسین نہیں دیکھی۔“
لیونارڈ ہاں حسین بھی ہے۔“
آٹر ”مگر۔۔۔(غیر واضح لفظ) بھی ہے۔ دیکھیے میان آپ نے اس کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے اس کے شکریہ میں منہ سے ایک لفظ نہیں نکالتی۔“
لیونارڈ شاید اس خاموشی کے یہ معنی ہیں کہ وہ میری اس۔۔۔(غیر واضح لفظ) زیر بار احسان ہے کہ اظہار شکر کے لیے اسے کوئی لفظ نہیں ملتے۔
خموشی معنے دا۔۔۔(غیر واضح لفظ)
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
138
آٹر ”آپ کا تو اسے شکریہ اداکرنا چاہیے تھا۔ آپ اس کے۔۔۔۔۔ شوہر ہیں۔“
لیونارڈ ۔ (خفا ہو کر) ”خبردار! احمق مت بن۔ کبھی میرے سامنے یہ کلمات پھر نہ کہنا وہ تو ایک بازیچہ اطفال تھا تو نے اسے سچ سمجھ لیا۔“
آٹر ۔ ”میان آپ ناحق خفا ہوتے ہیں میں نے کوئی بری بات تو نہیں کہی۔ خیر اب آپ اٹھیے اور دریا کے کنارے غسل کر لیجیے تاکہ آپ کا غصہ فرد ہو۔“
لیونارڈ نے آٹر کے کہنے مطابق عمل کیا اور جب وہ نہا چکا تو اس نے لوٹ کے مال میں سے گرم کپڑے نکال کر پہنے غسل نے اس پر جادو کا کام کیا کیوں کہ سوائے گردن اور ٹانگ کے جس میں ابھی تک اسے درد محسوس ہو رہا تھا باقی اس کے تمام اعضاء پھر تازہ ہو گئے اور اب وہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا کسی نو آبادی کا انگریز سردار ہے۔
اور جوانا بھی ہاتھ منہ دھو کر اپنے بالوں کو کنگھی کر رہی تھی اور سوا پاس کھڑی ہوئی اس کو یہ بتا رہی تھی۔ کہ لیونارڈ اوٹرم سے اس کی کیوں کر ملاقات ہوئی اور اس کے بعد وہ لیونارڈ کے ہمراہ کیوں کر پیلے بھتنے کے قلعہ تک پہنچی مگر۔۔۔(غیر واضح لفظ) اس نے اس بات کا ذکر نہ کیا کہ لیونارڈ سے اس نے کیا وعدہ کیا تھا۔
جب سوا اپنی رام کہانی سنا چکی تو جوانا نے سر جھکا لیا۔ اس کے دل میں مختلف خیالات تگ و دو کرنے لگے وہ جانتی تھی کہ مسٹر اوٹرم کی شجاعت اور جوانمردی اس کی رہائی کا موجب ہوئی اور اگر وہ نہ ہوتا تو پیلے بھتنے کے قلعہ سے نکل کر اس کو پھر کبھی زندگی کی خوشیاں اور تہذیب کے کرشمے دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔ یہ بھی وہ جانتی تھی کہ اس اجنبی شخص نے جس کی آنکھیں سیاہ اور روشن تھیں اور جس کے دل میں ہمت اور استقلال کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اس کو بطور جاریہ کے خریدا ہے مگر ساتھ ہی جب اس کو یہ خیال آتا تھا کہ اس شخص سے اس کا نکاح بھی ہو گیا ہے جس کا طوق طوق قمری کی طرح اس کے گلے سے جدا نہیں ہو سکتا تو اس کے غرور اور خودداری کو ایک صدمہ پہنچتا تھا۔
اور جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اس صدمہ کی چبھن اس کے دل میں بڑھتی گئی۔
ان خیالات میں محو ہو کر جوانا اٹھی اور خیمہ کے پیچھے کی طرف سے نکل کر سرکنڈوں میں ایک بگڈنڈی پر ٹہلنے لگی۔ اسے چہل قدمی کرتے ہوئے پانچ منٹ نہ گزرے تھے کہ سمت مقابل سے لیونارڈ اسے آتا ہوا دکھائی دیا۔
اس وقت جوانا ننگے سر ایک سفید عربی جبہ جس کو اس نے مال غنیمت سے نکال کر اپنے قد کے موافق بنا لیا تھا۔
پہنے کھڑی تھی اور اس کے اوپر اس نے ایک ریشمی رومال جس پر زردوزی کام تھا اپنی پتلی کمر کے گرد باندھ لیا تھا۔
اس کے سیاہ بالوں کا خوبصورت جوڑا آفتاب کی زرد شعاعوں میں چمک رہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں سرمئی رنگ کے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
139
کچھ پھول تھے جو اس نے جنگل سے جمع کیے تھے اس وقت اس کے چہرہ سے کسی آنے والے خوف کے آثار ظاہر نہ تھے بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ بشاشت اور ترو تازگی کا غازہ اس پر راتوں رات مشاطہ قدرت نے مل دیا ہے۔ اس کی نرگسی آنکھیں نظر کے سحر آلود تیر چاروں طرف چلا رہی تھیں اور سرد خراماں کی تشبیہ اس پر پوری صادق آتی تھی۔
جوانا آفتاب کی پاکیزہ اور مصفا روشنی میں سرکنڈوں کے جھاڑوں کے درمیان جن کی اودی اور سفید کلغیاں ہوا میں جنبش کر رہی تھیں اس وضع سے کھڑی تھی۔ اس کی عمر بیس برس سے زیادہ نہ ہو گی۔ قدرت نے اس کی تربیت دریاؤں اور جنگلوں کی درسگاہ میں کی تھی اس کے چہرہ میں۔۔۔(غیر واضح لفظ) حسن ایک عجیب انداز سے۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہو کر پر تو افگن تھا اور افریقہ کے آفتاب کی تمازت اس میں ملاحت پیدا کر دی تھی اس کی حرکات میں ایک دلفریب ادا تھی اس کے چہرہ سے اس کی صفائی باطن کے آثار عیاں تھے اور اس کی سیاہ بڑی بڑی آنکھوں اور نازک۔۔۔(غیر واضح لفظ) لبوں میں ایک جادو تھا۔ ان سب نے لیونارڈ کو ایک نگاہ میں جوانا کا شیفتہ و۔۔۔(غیر واضح لفظ) بنا دیا۔ افسوس! انسان کا دل کیسا جلد بدل جاتا ہے۔ لیونارڈ کے من میں اب جوانا بسنے لگی اور بچاری جین بیچ کی یاد جو اس کی جوانی کی امیدوں کا مبدا۔۔۔(غیر واضح لفظ) تھی اور جو اس دشت غربت میں خواب میں بھی اس کی آنکھوں کے سامنے رہا کرتی تھی اس کے لوح دل سے محو ہوتے گئی۔
جوانا نے اوپر نظر اٹھائی تو اپنے سامنے ایک وجیہ و شکیل کوان کھڑا پایا جو حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے شرما کر آنکھیں نیچے کر لیں۔ اس کو خوب یاد تھا کہ لیونارڈ نے اس کے لیے اپنی جان کو متعدد بار خطرہ میں ڈالا تھا اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ کبھی کی زندہ درگور یا واقعی درگور ہو گئی ہوتی۔ جب اس کو یہ خیال گزرا تو اس کے دلی جذبات میں تلاطم پیدا ہوا مگر کیا یہ تلاطم احسان مندی اور ممنونیت کی موجوں سے پیدا ہوا؟ اس سوال کا جواب اگر جوانا سے بھی اس وقت پوچھا جاتا تو شاید وہ صحیح طور پر نہ بتا سکتی۔
بہر حال اس نے اپنے چہرہ پر کسی علامت کو جس سے اس کے دلی جذبات۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہوں ظاہر نہ ہونے دیا۔
ور لیونارڈ سے ”گڈ مارننگ مسٹر اوٹرم“ کہہ کر ان الفاظ میں مزاج پرسی کی ”مجھے امید ہے کہ اس قدر تکلیف آ جانے کے بعد آپ خوب نیند بھر کر سوئے ہوں گے۔“
لیونارڈ ۔ ”ہاں میں آٹھ گھنٹے سویا اور ایک کروٹ تک نہیں لی۔ میں آپ کے اس عنایت آمیز استفسار کا مشکور ہوں۔“
جوانا ۔ (آنکھیں نیچی کر کے) ”مسٹر اوٹرم میں۔۔۔۔۔۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میری خاطر اس قدر
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ 141

مصیبت اٹھائی۔“
اتنا کہنے کے بعد وہ اس انگشتری کو جو فرانسسکو نے نکاح کا خطبہ پڑھتے وقت اس کی انگلی میں پہنائی تھی دیکھ کر کہنے لگی ”یہ انگشتری آپ کی ہے۔ اسے واپس لیجیے۔“
لیونارڈ۔”مس راڈ ہم دونوں نے ایک ہی مرحلہ طے کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس مہم کی یادگار میں اسے بطور نشانی کے اپنے پاس رکھیں۔“
جوانا۔ ”آپ کی فیاضی میں کچھ شک نہیں مگر یہ انگشتری تو خاص آپ کی ہے آپ ایک عارضی ملاقات کی بنا پر ایک اجنبی کو یہ انگشتری کیسے دے سکتے ہیں؟“
لیونارڈ۔ ”مس راڈ۔ آپ بجا فرماتی ہیں لیکن اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ میری اور آپ کی جان پہچان عارضی ہے اور میں بھی آپ کی نیاز مندی کے اعزاز سے محروم ہوں تاہم اس انگشتری کے لیے لینے میں تو آپ کا کوئی ہرج نہیں میری یہ عین خواہش ہے کہ آپ اسے پہن لیں۔“
جوانا نے انگشتری کو بغور دیکھا اس کے نگینہ میں یہ الفاظ کھدے ہوئے تھے ”محبت دولت عزت“ محبت کا لفظ دیکھ کر جوانا کے چہرہ پر حیا کی سرخی نمودار ہو گئی اور اس کی سرمگیں آنکھیں خود بخود نیچے جھک گئیں۔ اگرچہ وہ نہیں جانتی تھی کہ محبت کے لفظ میں ایسا کیا رکھا تھا کہ جس سے شرم آئے۔ بہر حال وہ کہنے لگی کہ ” اچھا مسٹر اوٹرم اگر آپ کی عین خواہش ہے کہ میں اس انگشتری کو پہن لوں تو بطور اس واقعہ کی یادگار کے میں اسے پہن لیتی ہوں جب آپ مانگیں گے تو آپ کو واپس دے دوں گی۔ مگر مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کبھی گزشتہ رات کے نقلی نکاح کے نامطبوع واقعہ کا جو ایک خاصہ کٹ پتلیوں کا تماشا تھا اور جس میں ہم پکڑ کر بٹھائے گئے تھے میرے سامنے ذکر نہ کریں۔ مجھے اس نکاح کے خیال سے بھی سخت نفرت ہے آپ اسے اب رفت و گزشت سمجھیں اور بالکل بھول جائیں۔“
لیونارڈ۔ ”مس راڈ اگر اس قسم کے واقعات بھول سکتے ہیں تو یقیناً مجھے ان کے بھول جانے میں کچھ عذر نہیں اچھا اب ناشتہ تیار ہے آئیے نوشجان فرمائے۔“
جوانا نے لیونارڈ کے سوال کے جواب میں سر جھکایا اور پھول ہاتھ میں لیے اس کے سامنے سے نکل گئی۔
لیونارڈ (دل میں) ”یہ لڑکی بھی صنعت۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا ایک نمونہ ہے بھلا اس کے حسن و جمال کی تو یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ یہ نعمت اس کو اپنے آباؤ اجداد سے ترکہ میں ملی مگر سمجھ نہیں آتا کہ اس کے اس قدر شائستہ ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
142

اگر اس کی تربیت پر جائیں تو اسے نیم وحشی ہونا چاہیے تھا مگر نہیں بخلاف اس کے میں نے کوئی یورپین عورت اس انداز کی اپنی عمر بھر نہیں دیکھی۔“ ان خیالات میں محو لیونارڈ خیمہ گاہ تک پہنچا اور اس نے دیکھا کہ پادری فرانسسکو جوانا کے ساتھ کچھ راز کی باتیں کر رہا ہے۔
لیونارڈ۔ (کسی قدر درشتی سے) ”پادری صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں نے غلاموں کو کشتیوں میں روانہ کر دیا تاکہ جہاں چاہیں جائیں آزادی ان کو مل ہی گئی ہے اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ آپ کے…(غیر واضح لفظ) اور آپ کی اب تک کی کارروائی کے قابل اطمینان ہونے میں کوئی شک نہیں مگر یہ تو بتائیے کہ آپ رہتےچکن خبیثوں کی صحبت میں تھے۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ وہیں جانا چاہتے ہیں جہاں سے آپ آئے تھے اور اگر ایسا ہے تو آپ کا راستہ مشرق کی طرف ہے۔“
اور یہ کہہ کر لیونارڈ نے قلعہ کی طرف انگلی اٹھائی۔
فرانسسکو ”صاحب من آپ کا شبہ بالکل بجا ہے جن لوگوں کی صحبت میں آپ نے مجھے پایا ان سے آپ ہرگز میری نسبت نیک رائے قائم نہیں کر سکتے مگر حقیقت نفس الامری یوں ہے کہ میں انٹیونیو پریرا کے پاس کسی بری نیت سے نہیں آیا تھا۔ میرا ایک بھائی پرتگال سے بوجہ ایک جرم کے افریقہ بھاگ آیا اور پریرا کی جماعت میں شریک ہو گیا میں نے اس کا سراغ لگانا شروع کیا اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آ پہنچا ان بردہ فروشوں نے میری بڑی آؤ بھگت اور خاطر مدارت کی کیوں کہ میں پادری تھا۔ میری زبان کے اثر سے گنہگاروں کے گناہ بخشے جاتے تھے اور قریب المرگ لوگوں کو تسکین روح حاصل ہوتی تھی ایک دفعہ میں نے اپنے بھائی سے قلعہ سے فرار ہو جانے کے لیے کہا لیکن پریرا کے کان بالشت بھر سے کم لمبے نہ تھے۔ اس نے سن پایا اور میرے بھائی کو پھانسی دے دی۔ میرے قتل سے جو وہ باز رہے تو اس کی وجہ وہی میرا پادری ہونا تھا۔ میں بعد ازاں بطور قیدی کے رکھا گیا اور مجھے پریرا کے شیطانی لشکر کے ساتھ ساتھ ہر مہم میں جانا پڑتا تھا۔ میری سرگزشت اسی قدر ہے۔ اب اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے ساتھ چلا چلوں کیوں کہ میرے پاس ایک موٹی نہیں اور اس اجاڑ بیاباں میں جہاں ہر طرف وحشت ہی وحشت نظر آتی ہے میں کسی دوسری جگہ نہیں جا سکتا۔“
لیونارڈ۔ ”بہت اچھا پادری صاحب مگر یہ یاد رہے کہ مجھ کو چاروں طرف خطرات کا سامنا ہے۔ میں آپ سے کہے دیتا ہوں کہ اگر مجھ کو کسی قسم کا شبہ پیدا ہوا تو میں وہ کروں گا جو کسی نے نہ کیا ہو۔“
جوانا۔ (خفا ہو کر) ”مسٹر اوٹرم آپ پادری صاحب پر شبہ نہ کریں میں ان کی نہایت۔۔۔(غیر واضح لفظ) مرہون منت ہوں انہی کی عنایت اور نیک مشورہ کی بدولت میں آج زندہ ہوں۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
143
لیونارڈ (دل میں ان مختلف۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا مقابلہ کر کے جن میں جوانا نے پادری کی اور اس کی خدمات کا اعتراف کیا) ”مس راڈ اگر آپ پادری صاحب کی ضامن ہوتی ہیں تو بس ہے بلاشبہ میرے مقابلہ میں آپ کی شناسائی ان سے۔۔۔(غیر واضح لفظ) تر ہے۔“
اس وقت سے لے کر خاص وقت تک جب کہ ایک خاص گفتگو نے حقیقت کو اس کے سامنے کھول دیا لیونارڈ کو فرانسسکو سے نفرت رہی جوانا کی ایسی صریح طرف داری لیونارڈ کو ناگوار گزرتی تھی۔ تعصب ایک نہایت قوی جذبہ ہے اور جب شبہ اور حسد اس میں مل جائیں تو وہ نہایت خوفناک ہو جاتا ہے۔
کھانا کھا چکنے کے بعد یہ لوگ دریا کے کنارے گئے اور کشتیوں میں سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ شام کے وقت وہ اس جزیرہ کے پاس سے گزرے جہاں انہوں نے بردہ فروشوں کو چکمہ دیا تھا مگر وہاں ان کو کوئی متنفس نظر نہ آیا۔ خدا جانے یہ لوگ ہلاک ہو گئے یا بچ کر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد وہ دریا کے کنارے خیمہ زن ہوئے۔
اور آگ کے گرد بیٹھ کر لیونارڈ اور جوانا میں باتیں ہونے لگیں۔ جوانا نے اپنی تمام سرگزشت بائے بسم اللہ سے تائے تمت تک سنا دی اور اثنائے کلام میں کہا کہ ”مجھے تو یہ واقعہ ایک خواب پریشان معلوم ہوتا ہے اور وہ نکاح کا سوانگ جس پر کہ اس کا اختتام ہوا میں خیال میں لاتے ہوئے کانپتی ہوں“ فرانسسکو جو چپ بیٹھا ہوا ان کی باتیں سن رہا تھا اب پہلی مرتبہ بولا۔
”خاتون صاحبہ اس سوانگ سے اپ کی مراد غالباً وہ رشتہ ہے جس سے کہ میں نے پریرا کے کہنے پر مجبور ہو کر آپ کو اور مسٹر اوٹرمکو مربوط کیا۔ میں آپ کو یہ جتا دینا اپنا فرض منصبی خیال کرتا ہوں کہ یہ نکاح خواہ کیسا ہی ہے۔۔۔(غیر واضح لفظ) اور بے ضابطہ طور پر پڑھا گیا ہو لیکن میں اس کو باطل نہیں سمجھتا۔ مجھے یقین واثق ہے کہ جب تک آپ دونوں کو موت جدا نہ کر دے اس وقت تک آپ بیوی میاں رہیں گے۔ البتہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) اعلیٰ (پوپ) کو اس رشتہ کے نسخ کر دینے کا اختیار ہے کیوں کہ انہی کو ایسا کرنے کا منصب حاصل ہے۔“
جوانا۔ (آگ بگولا ہو کر)”یہ سراسر جھوٹ ہے پادری فرانسسکو صاحب اگر آپ پھر میرے سامنے ایسی باتیں کریں گے تو میں آپ سے کبھی نہیں بولوں گی۔ میں اس نکاح کے جواز کی بالکل منکر ہوں۔ نکاح پڑھے جانے سے پہلے مسٹر اوٹرم نے میرے کان میں کہا تھا کہ اس سوانگ بھرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور واقعی یہ تھا بھی ایک سوانگ۔ اگر مجھے یہ خیال ہوتا کہ ایسا نہیں ہے تو میں زہر کھا لیتی۔ پادری صاحب کو کچھ آپ کہتے ہیں اگر اس کی کوئی اصلیت ہے تو میرے ساتھ فریب کیا گیا ہے۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
144
لیونارڈ۔ (طعنہ زن ہو کر) ”مس راڈ اگر یہ مان لیا جائے کہ جو کچھ پادری صاحب کہتے ہیں ٹھیک ہے تو کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ اس طرح کا فوری رشتہ مجھے پسند ہو گا۔ یقین مانیے کہ اگر میں آپ کے ساتھ فریب کرنا چاہتا تو سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ میں خود بھی اس دام فریب میں پھنس جاؤں۔ کیوں کہ اگر…(غیر واضح لفظ) نکاح منقطع نہیں ہو سکتا تو اس کے عدم انقطاع سے۔۔۔(غیر واضح لفظ) متاثر ہیں اور مجھ جیسا ناچیز اور کس۔۔۔(غیر واضح لفظ) شخص بھی پانچ منٹ کی جان پہچان پر ایک ایک عورت سے شادی نہیں کر سکتا۔ بات اصل میں یوں ہے کہ میں نے تمہاری رہائی کا بیڑا جس مقصد سے اٹھایا تھا وہ ازدواج نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا۔“
جوانا۔ ( اسی تلخی کے لہجہ میں جس میں کہ لیونارڈ نے گفتگو کی تھی) ”کیا میں اس مقصد کے استدراک کی جرات کر سکتی ہوں۔“
لیونارڈ۔ یقیناً آپ کو یہ منصب حاصل ہے مگر پہلے میں آپ کو اس امر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں ایک مفلس قلاش شخص ہوں اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) چند در چند دولت کمانے کا آرزو مند ہوں۔ نظر برآں جب یہ عورت (سوا کی طرف اشارہ کر کے) میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اگر تم میری مالکہ کو چھڑا دو گے تو میں لعلوں کا ایک گنج بے بہا تمہیں دوں گی۔ اور جب اس نے اس قسم کا ایک قیمتی پتھر مجھے معاوضہ میں پیشگی بھی دے دیا تو مجھے چونکہ اور کوئی کام نہ تھا اور کہیں اور جانا نہ تھا اور حالت میری نہایت ابتر تھی میں رضا مند ہو گیا اور احتیاطاً میں نے اس معاملہ کو قلمبند بھی کر لیا۔ ”فریقین معاہدہ میں سے ایک فریق میں تھا اور فریق ثانی سوا تھی جو آپ کی طرف سے بھی مختار تھی۔“
جوانا مجھے اس بات کا ذرا علم نہیں کہ آپ کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سوا کو تو میں نے کبھی اختیار نہیں دیا تھا کہ کسی معاہدہ پر میری طرف سے دستخط کر دے مگر کیا آپ یہ تحریر مجھے دکھا سکتے ہیں؟“
لیونارڈ۔ ”ضرور“ اور یہ کہہ کر وہ اپنے سامان کی طرف گیا اور تھوڑی دیر میں لیونارڈ ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں بائبل لیے ہوئے آیا۔ جوانا نے لالٹین پاس رکھ کر کتاب کو کھولا۔ پہلی شے جس پر اس کی نگاہ پڑی جین بیچ کا نام تھا جو کتاب کے پہلے ورق پر اس تحریر کے نیچے لکھا ہو اتھا۔ ”جان سے پیارے لیونارڈ کو جین کی طرف سے یہ ہدیہ قبول ہو۔“۔۔۔(غیر واضح لفظ)
لیونارڈ۔ (۔۔۔(غیر واضح لفظ) سے) ”ورق پلٹیے اقرار نامہ دوسری طرف ہے۔“
جوانا کے دل پر جین بیچ کا نام دیکھتے ہی ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی وہ متحیر ہو کر سوچنے لگی یہ جین کون ہے۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
145
اور مسٹر اوٹرم کو اس نے ”جان سے پیارے لیونارڈ“ کیوں کہا؟ عورتوں کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں۔
دفعتًہ جوانا کو جین سے خواہ وہ کوئی بھی ہو ایک گونہ تنفر پیدا ہو گیا جب وہ اقرار نامہ کو پڑھ چکی تو اس نے اپنا دلفریب چہرہ جس پر حقارت آمیز تبسم ظاہر تھا اٹھایا اور بولی”ظلمات اور لعلوں کی حکایت کے کیا معنی ہیں؟“
سوا۔ راعیہ اسے کہانی مت سمجھو جب تم بچی تھیں تو جو زبان کہ میں نے تمہیں سکھائی تھی وہ ساکنان ظلمات کی زبان تھی یہ داستان بالکل سچ ہے۔ تمہارے باپ۔۔۔(غیر واضح لفظ) سے میں نے اس لیے اسے چھپائے رکھا کہ کہیں وہ قیمتی پتھروں کی تلاش میں خود نہ جائے اور مارا جائے“ یہ کہہ کر اس نے قصہ جولیونارڈ کو سنا چکی تھی حرف بہ حرف دھرایا اور اسے یوں ختم کیا۔
”میں نے یہ قصہ گورے آدمی اس لیے بیان کیا کہ اپنی قوم کے لوگوں کی طرح وہ بھی حریص اور طمع ہے اور اس وقت اور کوئی تدبیر مجھے نہ سوجھتی تھی۔ اس لیے سرخ پتھر اسے رشوت میں دیا اور اس نے وعدہ کیا کہ میں تجھے ظلمات کی سر زمین میں لے چلوں گی کیوں کہ اگر میں ایسا نہ کرتی تو وہ تمہیں پیلے بھتنے سے رہا کرنے میں کبھی اپنی ہمت اور تدبیر سے اس طرح کام نہ لیتا۔ اور اسی لیے میں نے اس کاغذ پر اپنی اور تمہاری طرف سے دستخط بھی کر دیے کیوں کہ مجھے خوب معلوم تھا کہ مجھے آپ کی طرف سے اقرار کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں اور آپ جیسا چاہیں معاہدہ کی شرائط کی تکمیل سے انکار کر سکتی ہیں۔ اگرچہ میں اس پر قائم ہوں۔“
لیونارڈ (آپ ہی آپ) ”بات تو اس نے گہری کی۔ اس بڑھیا کو اگر مختار بنایا جاتا تو غضب کا قانون بناتے۔“
جوانا۔ ”سوا یہ تو بتا کہ ان پتھروں کی تلاش میں کیا یہ لازمی ہے کہ میں تیری قوم کے لوگوں میں اس مہم میں حصہ لوں۔“
سوا۔ اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہیں ہو سکتی لیکن اس سے کیا تم بالکل آزاد ہو اور تمہاری طرف سے جو وعدہ میں نے کیا ہے وہ کالعدم ہے اس گورے آدمی کو بے صلہ جانے دو دور دراز سفر کی زحمت سے بچ جائے گا۔
لیونارڈ ”مختار کیا اسے تو مختار عام ہونا چاہیے تھا۔“
آٹر۔ واؤ! مال شادی قحبہ! میرا بس چلے تو اس تابکار بڑھیا کا گلا گھونٹ ڈالوں۔
جوانا نے ان چہ میگوئیاں کی جانب کچھ التفات نہ کیا۔ کچھ دیر تک وہ سوچتی رہی اور پھر مسکر کر کہنے لگی۔”واقعی میں یہ ایک نہایت بیش قیمت قانونی دستاویز ہے مگر مسٹر اوٹرم آپ نے حقیقت کھول کر میری غلط فہمی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
146
کو کیوں رفع کر دیا۔ میں اپنے تصور میں اس واقعہ کو زمانہ وسطی کے ان دل آویز افسانوں سے تشبیہ دیے بیٹھی تھی جن میں جنگ۔۔۔(غیر واضح لفظ) ستم رسیدہ عیسائی لڑکیوں کو اپنے زور بازو سے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے پنجہ قید سے جا کر رہائی دلواتے تھے۔ میں اپنے تئیں اسی طرح کی آفت رسیدہ لڑکی خیال کیے ہوئے تھی جو پیلے بھتنے کی قید میں مبتلا تھی اور آپ کی نسبت میرا یہ خیال تھا کہ ان سورماؤں کی طرح میری مصیبت کا حال سنتے ہی آپ سرک بکتر لگا کر۔۔۔(غیر واضح لفظ) بن کر میرے چھڑانے کے لیے روانہ ہوئے مگر آپ نے تو زمانہ وسطی کا پردہ اٹھا کر دفعتًہ انیسویں صدی کا سین میرے پردہ نظر پر کھینچ دیا۔

خود غلط بودا ۔۔۔(غیر واضح لفظ) ما پندا ۔۔۔(غیر واضح لفظ)
یہاں۔۔۔(غیر واضح لفظ) اور شجاعت کہاں یہ تو اچھا خاصہ بیوپار ہے۔ میں مشکل میں پھنس گئی لیکن چونکہ آپ کے گمان میں ایک موہوم خدمت انجام دے کر میں آپ کو حصول گنج میں مدد دے سکتی تھی۔ لہذا آپ نے میری رہائی کی حامی بھری۔
ابھی تک مجھے یہ معلوم نہیں کہ مجھ سے کون سی خدمات لی جانے والی ہے۔ لیکن آپ مطمئن رہیں میں سوا کے کہنے پر اس وعدہ سے جو سوا نے میری طرف سے کیا ہے ہرگز نہ پھیروں گی۔ مسٹر اوٹرم اگر میرے امکان میں ہو تو میں آپ کو اس مہم میں مدد دینے میں ہر طرح سے کوشش کروں گی۔ کیوں کہ آپ نے نہایت زحمت اٹھائی ہے اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا ہے مجھے یقین ہے کہ آپ نے اپنا روپیہ کما لیا ہے کم از کم روپیہ کے ملنے کی توقع تو آپ کے ہاتھ سے کہیں گئی نہیں۔”ان سب باتوں کو سن کر ہنسی آتی ہے“ اور یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
جوانا کی ان باتوں کے سننے سے لیونارڈ کی جو حالت ہوئی وہ ناگفتہ بہ تھی غیظ و غضب کی آگ اس کے سینہ میں بھڑک رہی تھی اور مارے شرم کے اس پر گھڑوں پانی پڑ رہا تھا۔ اس نے کیسی حماقت کی کہ اپنے آپ کو اس لڑکی کی زبان کے تیروں کا آماجگاہ بنایا اور اس کے طعن و تشنیع کا مورد ہوا۔ دل میں وہ کہتا تھا کہ ”وہ نامراد گھڑی کون سی تھی جب کہ میں نے اس کمبخت دستاویز کو قلمبند کیا۔ کاش میرے ہاتھ اس وقت جل گئے ہوتے۔“
لیکن اب سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ جس طرح بن پڑے اپنی بات کو نبھائے اس لیے اس نے کہا۔
”مس راڈ شکر ہے کہ آخر آپ پر میری حقیقت تو کھل گئی۔ میں نے یہ معاہدہ اس لیے ثبت کیا تھا کہ اس سے مجھے اپنی مقصد کے حصول کی امید پیدا ہوئی تھی جو کہ دولت ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اگر معاہدہ نہ ہوتا تو میں آپ کی رہائی کی کوشش نہ کرتا مگر آپ میرے اس قول کو کیوں باور کرنے لگیں۔“
جوانا ”مسٹر اوٹرم میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں آپ کے حزم و احتیاط کی نہایت مشکور ہوں۔ اس کی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
147
وجہ سے میرے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ اٹھ گیا کیوں کہ اگر میں آپ کو ان اہل ظلمات کے جواہرات کے حصول میں مدد دے سکوں تو آپ کے اس احسان کا بدلہ ہو جائے گا جس کے بوجھ تلے میں اس وقت دبی جا رہی ہوں۔“
لیونارڈ۔ (دفعتًہ اٹھ کر) ”ہمیں کل بہت سویرے روانہ ہونا ہے اس کی مجھے اب اجازت دیجیے۔“
یہ کہہ کر وہ چل دیا اور جب وہ آگ کے پاس سے گزرا تو جوانا نے دیکھا کہ اس کا چہرہ غصہ سے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کا ہو رہا ہے اور اس نے دل میں کہا ”اچھا ہوا کہ خفا ہو گیا۔ وہ کون تھا مجھے روپیہ کی خاطر چھڑانے والا؟ مگر ہے عجیب شخص اور میں اچھی طرح اس کی طبیعت کے حال سے واقف نہیں ہوئی۔ خدا جانے یہ جین بیچ کون ہے؟ یا شاید روپیہ اسے مطلوب ہو عام طور پر عورتیں دولت کی آرزو مند ہوتی ہیں۔“ پھر وہ بآواز بلند بولی ”سوا ادھر آ۔ میں سنتی ہوں اور تو پھر حرف بہ حرف بیان کر کہ مسٹر اوٹرم سے تیری ملاقات کیوں کر ہوئی تھی اور تیری باتیں ان سے کیا ہوئیں اور یہ بھی بتا کہ ظلمات کا خزانہ حاصل کرنے میں میں کیا مدد دے سکتی ہوں۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
148

سولہواں باب

غلط فہمیاں
جس تلخ و ترش مکالمہ کا ذکر پیچھلے باب میں کیا گیا ہے اس کی وجہ سے لیونارڈ اور جوانا میں شکر رنجی پیدا گئی۔
اور اگرچہ سفر کی ضرورتیں انہیں ایک دوسرے سے ملنے پر مجبور کرتی تھیں لیکن یہ کشیدگی ایک عرصہ تک باقی رہی۔
دونوں کو ایک دوسرے سے گلہ تھا لیکن دونوں محجوب اور نادم بھی تھے۔ لیونارڈ کو سوا سے عہد پیماں کرنے کا بے حد افسوس تھا اور جوانا ک اس بات کا افسوس تھا کہ میں اس معاملہ میں لیونارڈ کے ساتھ کیوں اس قدر درشتی اور روکھے پن سے پیش آئی کیوں کہ اس نے اگر سوا سے اقرار لے لیا تو اس میں کیا برا کیا۔ اس کو میرا حال کیسے معلوم ہو سکتا تھا۔ علاوہ اس کے وہ جو دولت کمانے کا آرزو مند ہے تو شاید اس کی تہ میں وہ عورت جس کا نام بائبل کے خالی صفحہ پر لکھا ہوا تھا۔
عورتیں۔۔۔(غیر واضح لفظ) متجسس ہوتی ہیں اور جوانا اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہ تھی۔ جین کا خیال دل میں لاتی ہی وہ اس ٹوہ میں لگی کسی نہ کسی طرح یہ دریافت کرنا چاہیے کہ یہ عورت کون ہے؟ لیکن دریافت کرتی تو کس سے کرتی۔ لیونارڈ سے اس سے بول چال نہ تھی اور دوسرا کوئی ایسا شخص نہ تھا جسے لیونارڈ کی خانگی حالات معلوم ہوں آٹر البتہ ایسا تھا جسے شاید کچھ معلوم ہو اس خیال سے اس نے آٹر سے اس بارے میں گفتگو شروع کی مگر اس نے ایسے واہی تباہی جواب دیے کہ وہ کھسیانی ہو کر چپ ہو گئی وہ کہنے لگا کہ ”میرے میان سمندر پار ایک بڑی کرال میں رہتے تھے جین بیچ غالباً ان کی دس جوڑوں میں سے کوئی ہوگی۔ اس ملک میں جو سمندر پار واقع ہے۔
میرے میان۔۔۔(غیر واضح لفظ) میں سب سے دولت مند سردار تھے مگر حاسدوں کی عداوت کی وجہ سے ان کی دولت اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) گئیں اور وہ یہاں نئی دولت کی جستجو میں چلے آئے۔ جب جوانا نے آٹر سے پوچھا کہ تجھے اپنے میان کی۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے نام یاد ہیں؟“ تو وہ کہنے لگا ہاں خوب یاد ہیں اور اپنے ملک کی حبشن عورتوں کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) انگلیوں پر گنے کر ایک وثوق کے لہجہ میں بتائے۔ ”بڑی کرال“ کا نام آٹر
 
Top