مجھے یاد ہے کہ میرے بچے آدھے ٹکٹ کی عمر سے بڑے تھے سو میں نے لوئر اے سی کے پورے ٹکٹ لئے۔ ٹکٹ چیکر اپنے ساتھی کے ساتھ آئے تو ٹکٹ چیک کرتے ہوئے خاصے حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی۔ بچوں کے پاس بیٹھ کے باتیں کرتے رہے اور اس بات کی تعریف بھی۔
ایک صاحب اپنی منزل سے ایک اسٹیشن آگے اترے۔۔۔
پوچھا کہ اس زائد سفر کا کرایہ دینا ہوگا؟؟؟
ہم نے کہا جی۔۔۔
کہنے لگے کیا صورت ہوگی؟؟؟
ہم نے جواب دیا کہ فوری اور آسان صورت یہ ہے کہ اس زائد سفر کا جتنا کرایہ بنے اتنی مالیت کے پلیٹ فارم ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیں۔۔۔
انہوں نے ایسا ہی کیا!!!
ان واقعات پر ایک تحریر نظروں سے گزری:
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک مرید تھے، جن کو آپؒ نے خلافت بھی عطا فرمائی تھی اور ان کو بیعت اور تلقین کی اجازت دے دی تھی۔ ایک مرتبہ وہ سفر کر کے حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کا بچہ بھی تھا، انہوں نے آکر سلام کیا اور ملاقات کی اور بچے کو بھی ملوایا کہ حضرت یہ میرا بچہ ہے، اس کے لیے دعا فرما دیجئے۔ حضرت والا نے بچے کے لیے دعا فرمائی اور پھر ویسے ہی پوچھ لیا کہ: اس بچے کی عمر کیا ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ حضرت اس کی عمر تیرہ (13) سال ہے۔ حضرت نے پوچھا کہ: آپ نے ریل گاڑی کا سفر کیا ہے تو اس بچے کا آدھا ٹکٹ لیا تھا یا پورا ٹکٹ لیا تھا؟
انہوں نے جواب دیا کہ حضرت آدھا ٹکٹ لیا تھا۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ: آپ نے آدھا ٹکٹ کیسے لیا جبکہ بارہ (12) سال سے زائد عمر کے بچے کا تو پورا ٹکٹ لگتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ قانون تو یہی ہے کہ بارہ (12) سال کے بعد پورا ٹکٹ لینا چاہئے اور یہ بچہ اگرچہ 13 سال کا ہے، لیکن دیکھنے میں بارہ سال کا لگتا ہے، اس وجہ سے آدھا ٹکٹ لے لیا۔
حضرتؒ نے فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تصوف اور طریقت کی ہوا بھی نہیں لگی ہے، آپ کو ابھی تک اس بات کا احساس اور ادراک نہیں کہ بچے کو جو سفر آپ نے کرایا، یہ حرام کرایا ہے۔ جبکہ قانون یہ ہے کہ بارہ (12) سال سے زائد عمر کے بچے کا ٹکٹ پورا لگتا ہے اور آپ نے آدھا ٹکٹ لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ریلوے کے آدھے ٹکٹ کے پیسے غصب کر لیے اور آپ نے چوری کر لی اور جو شخص چوری اور غضب کرے ایسا شخص تصوف اور طریقت میں کوئی مقام نہیں رکھ سکتا، لہٰذا آج سے آپ کی خلافت اور اجازت بیعت واپس لی جاتی ہے۔‘‘
چنانچہ اس بات پر اس کی خلافت سلب فرمالی گئی۔ حالانکہ اپنے اوراد وظائف میں، عبادات اور نوافل میں اور تہجد اور اشراق میں ان میں سے ہر چیز میں، بالکل اپنے طریقے پر مکمل تھے، لیکن یہ غلطی کی کہ بچے کا ٹکٹ پورا نہیں لیا، صرف اس غلطی کی بنا پر خلافت سلب فرما لی گئی۔
حضرت والاؒ کی طرف سے اپنے سارے مریدین اور متعلقین کو یہ ہدایت تھی کہ جب کبھی ریلوے میں سفر کرو اور تمہارا سامان اس مقدار سے زائد ہو جتنا ریلوے نے تمہیں مفت لے جانے کی اجازت دی ہے، تو اس صورت میں اپنے سامان کا وزن کرائو اور زائد سامان کا کرایہ ادا کرو۔ خود حضرت والاؒ کا اپنا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ریلوے میں سفر کے ارادے سے اسٹیشن پہنچے، گاڑی کے آنے کا وقت قریب تھا، آپؒ اپنا سامان لے کر اس دفتر میں پہنچے، جہاں پر سامان کا وزن کرایا جاتا تھا اور جاکر لائن میں لگ گئے۔ اتفاق سے گاڑی میں ساتھ جانے والا گارڈ وہاں آگیا اور حضرت والا کو دیکھ کر پہچان لیا اور پوچھا کہ: حضرت آپ یہاں کیسے کھڑے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ: میں سامان کا وزن کرانے آیا ہوں۔ گارڈ نے کہا کہ آپ کو سامان کا وزن کرانے کی ضرورت نہیں، آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، میں آپ کے ساتھ گاڑی میں جا رہا ہوں، آپ کو زائد سامان کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت نے پوچھا کہ: تم میرے ساتھ کہاں تک جاؤ گے؟ گارڈ نے کہا کہ فلاں اسٹیشن تک جاؤں گا۔ حضرت نے پوچھا کہ اس اسٹیشن کے بعد کیا ہو گا؟ گارڈ نے کہا اس اسٹیشن کے بعد دوسرا گارڈ آئے گا، میں اس کو بتا دوں گا کہ یہ حضرتؒ کا سامان ہے، اس کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ مت کرنا۔ حضرت نے پوچھا کہ وہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا؟ گارڈ نے کہا: وہ تو اور آگے جائے گا، اس سے پہلے ہی آپ کا اسٹیشن آجائے گا۔
حضرتؒ نے فرمایا: ’’میں تو اور آگے جاؤں گا، یعنی آخرت کی طرف جاؤں گا اور اپنی قبر میں جاؤں گا، وہاں پر کونسا گارڈ میرے ساتھ جائے گا؟… جب وہاں آخرت میں مجھ سے سوال ہو گا کہ ایک سرکاری گاڑی میں سامان کا کرایہ ادا کئے بغیر جو سفر کیا اور جو چوری کی اس کا حساب دو، تو وہاں پر کونسا گارڈ میری مدد کرے گا؟…‘‘
چنانچہ وہاں پر یہ بات مشہور تھی کہ جب کوئی شخص ریلوے کے دفتر میں اپنے سامان کا وزن کرا رہا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے تھے کہ یہ شخص تھانہ بھون جانے والا ہے اور حضرت تھانویؒ کے متعلقین میں سے ہے۔ (بحوالہ اصلاحی خطبات)
ربط