ہوا کھانے سے تو آج تک کسی کا روزہ نہیں ٹوٹا
بیویوں کے لیےکوئی ایسی ایپلی کیشن ہو کہ جس میں سب ایپلیکیشنز کے سب "ایسے ویسے پیغامات" فلٹر ہو کے آتے رہیں۔ٹیکنالوجی کی ترقی کاسب سےزیادہ بوجھ پاکستانی بیویوں پرپڑا ہے۔۔۔ پہلےان کوصرف خاوند کے موبائل کے ٹیکسٹ میسجز کی تلاشی لینا ہوتی تھی۔۔۔
اب خاوند کےوٹس ایپ میسیجز،فیس بک کومنٹس،میسنجر Chat ، انسٹا گرام کے کومنٹس ،ٹویٹر ٹویٹس اور ری ٹویٹس اور دیگر اپلیکیشنز کو بھی ٹٹولنا پڑتا ہے۔۔۔
آئیڈیا برا نہیں ہے۔ اپنے بیٹے سے کہتا ہوں کہ تین لاکھ ریال جمع کرنا شروع کر دے، کبھی تو ہو ہی جائیں گے!حکایات واتسابی العربی
ترجمہ محمد سلیم
*****************
کہتے ہیں کہ ایک بیوہ نے شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی اپنی حسین و جمیل بیٹی کیلیئے حق مہر کا مطالبہ مبلغ پانچ لاکھ ریال کر رکھا تھا۔ کئی خواہشمند اتنا حق مہر سن کر ویسے ہی دستبردار ہو چکے تھے۔
اپنی ضد کا پکا ایک لڑکا بمشکل تین لاکھ ریال اکٹھے کر پایا۔ پیسے لیکر مزید کی مدد مانگنے کیلیئے سیدھا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور کہا: ابا جی، میرا کچھ کر لو، میں اس کاکی پر فدا ہو گیا ہوں، مگر اس کی ماں ہے کہ پانچ لاکھ ریال حق مہر سے ایک فلس کم پر بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ اب آپ ہی کچھ کیجیئے۔
باپ نے بیٹے کی سنجیدگی کو دیکھا اور کہا: ٹھیک ہے پُتر، چل لا پیسے۔ کچھ کرتے ہیں تیرا بھی۔
دونوں باپ بیٹا پیسے لیکر بیوہ کے گھر پہنچے۔ سلام و دعا کے بعد باپ نے خاتون سے کہا: میں آپ سے بات کرنے کیلیئے حاضر ہوا ہوں۔ میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ کہ جب تک میں اپنی بات مکمل نہ کر لوں آپ میری بات نہ کاٹیں۔
خاتون نے کہا: جی بسم اللہ ، کہیئے۔
لڑکے کے باپ نے کہا: میرا بیٹا آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور یہ ایک لاکھ ریال نقد حق مہر ساتھ لایا ہے۔
خاتون نے گڑبڑاتے ہوئے کہا؛ مگر مجھے اپنی بیٹی کے حق مہر میں پانچ لاکھ ریال سے ایک فلس کم بھی قبول نہیں ہے۔
لڑکے کے باپ نے کہا: محترمہ آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ مجھے بات پوری کرنے دیجیئے گا۔
خاتون نے معذرت کرتے ہوئے کہا: جی پوری کیجیئے اپنی بات۔
لڑکے کے باپ نے کہا: آپ بذات خود ایک انتہائی خوبصورت اور جوان جہان عورت ہیں۔ میں آپ کو بھی ایک لاکھ ریال حق مہر ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میرے حق شرعی میں آ جائیے۔
خاتون کی خوشی سے باچھیں کھل کر کانوں کو جا لگیں۔ بمشکل اپنے جذبات کو دباتے ہوئے کہا: اللہ آپ کا آنا قبول کرے۔ مجھے آپ کی دونوں شرطیں قبول ہیں۔
باپ بیٹا خوشی خوشی باہر نکلے تو ہمسائیوں نے پوچھا: ایسا کیسے ہوگیا؟ یہ تو ناممکن نظر آتا تھا۔
لڑکے کے باپ نے کہا: مال تھوک میں خریدتے ہوئے اور پرچون میں خریدتے ہوئے آخر ریٹ میں کچھ تو فرق پڑتا ہے ناں۔
لڑکے نے ہلکا سا گلا صاف کرتے ہوئے باپ سے کہا: ابا جی، وہ ایک لاکھ ریال جو بچ گئے ہیں، پھر وہ تو مجھے واپس دے دیجیئے۔
باپ نے کہا: ناں پُتر اوئے، ابھی ایک بڑا اور اہم مرحلہ تو باقی پڑا ہوا ہے۔ یہ ایک لاکھ ریال جا کر تیری ماں کو دینا پڑے گا تاکہ وہ بھی تو راضی ہو۔
ریال تو بعد کا مسئلہ نہیں!آئیڈیا برا نہیں ہے۔ اپنے بیٹے سے کہتا ہوں کہ تین لاکھ ریال جمع کرنا شروع کر دے، کبھی تو ہو ہی جائیں گے!
کہاں چوہدری صاحب، "ریال" ہی تو اصل مسئلہ ہیں۔ "روپے" تو میرے ابا جی کے زمانے کا مسئلہ تھا، انہوں نےکبھی مجھے کہا ہی نہیں، ان کو علم تھا کہ اس سے نہیں ہوگا!ریال تو بعد کا مسئلہ نہیں!
حال ہی کا بالکل سچا واقعہ۔۔۔شادی کے بعد خاوند نے تھوڑے رومینٹک انداز سے اپنی بیوی سے پوچھا کہ شادی سے پہلے میں جو باتیں تم سے کیا کرتا تھا ان میں سے کون کون سی باتیں تمہیں اب سچ لگتی ہیں؟
بیوی شرماتے ہوئے
وہ جو آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ
"جمیلہ میں تیرے قابل نہیں"