شادی کرنے سے آبادی بڑھتی ہے۔ مسائل بڑھتے ہیں، خرچے بڑھتے ہیں۔ خاندان کا اور معاشرے کا اسکون برباد ہو جاتا ہے۔
شادی کا بنیادی مقصد ایک نئے خاندان کا وجود ہے ۔ خاندان کا ادارہ ، انسان کی ضرورت ہے ۔ اور یہ ادارہ اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا ۔ جب تک آپ بدکاری اور نکاح کے تعلق میں فرق نہیں کریں گے ۔ آپ جب تک حرام رشتوں کا تعین نہیں کریں گے اس وقت تک ماں کا رشتہ وجود میں نہیں آسکتا ، بہن کا رشتہ وجود میں نہیں آسکتا ۔ آپ کو اس بات کا تعین کرنے پڑے گا کہ گھر کے معاملات کس کے سپرد ہونگے ، معشیت کی ذمہ داری کس کی ہوگی ۔ اگر مرد کا گھر کا سربراہ ہے تو اس کی ذمہ داری کیا ہوگی اور اسی طرح عورت گھر کی سربراہ ہے تو اس کی حیثیت کیا ہوگی ۔ یعنی ایک ادارہ وجود میں آئے گا اور اگر آپ اس رشتے کو ایک ادارے کی نظر سے دیکھتے ہیں تو قوانین اور احکامات وجود میں آتے ہیں ۔
مگر آپ اس کو ایک ادارے کے وجود کی نظر سے نہیں دیکھتے تو آپ ان رشتوں کو وجود میں نہیں لانا چاہتے ۔ آپ ان رشتوں کا تقدس اپنی نگاہ میں نہیں رکھتے ۔ آپ کے نزدیک یہ ایک معمولی سا معاملہ ہے کہ ایک مرد و عورت اکھٹے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے ایک ساتھ چند لمحے نشاط و عیش کے گذارے ہیں ۔ اس کے کچھ نےنتائج نکلے ہیں ۔ جو وہ جانے اور ان کا معاشرہ جانے ۔ اگر آپ اس مقام پر کھڑے ہیں تو پھر ٹھیک ہے کہ آزادنہ طور پر جنسی تعلقات ہوں ۔ اس کے نتیجے میں کیا واقعات اور معاملات پیدا ہوتے ہیں اس سے نہ مجھے کوئی سروکار ہونا چاہیئے اور نہ ہی کسی اور کو ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ، اگر آپ ایک خاندان وجود میں لانا چاہتے ہیں ۔ اس کو ایک ادارے کی حیثیت دینی ہے تو پھر یہ وہ چیز ہے ۔ جو مذہب کے علاوہ کہاں سے ملیں گی ۔ کون ماں کی حرمت کو بیان کرے گا ۔ کون میاں اور بیوی کے اس رشتے کے توازن کو بیان کرے گا ۔ یہ ایک ایسا حساس معاملہ ہے کہ آپ قرآن کو دیکھ لیں کہ سیاست سے متعلق بہت ہی کم احکامات ہیں ۔ معیشت کے بارے میں چند باتیں بیان کی گئیں ہیں ۔ مگر معاشرت کا معاملہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ اس میں اللہ تعالی نے طلاق کے بارے میں تفصیلی احکامات بیان کیئے ہیں ، نکاح کے بارے تفصیلی احکامات بیان کیئے ہیں ۔ میاں اور بیوی کے باہمی تعلقات کے بارے میں تفصیلی احکامات بیان کیئے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں سب سے حساس اور خطرناک یہی رشتہ ہے ۔ اگر اس کے توازن کو مجروح کر بیٹھیں گے تو اس کے بعد انسانیت کے لیئے عزت و ناموس کا مفہوم ہی ناپید ہوجائے گا ۔
ہمارے معاشرے میں آپ کے فلسفوں کے برخلاف مذہب اب بھی فطرت میں اترا ہوا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ چند فلسفیوں کی باتوں میں آکر انسانیت نے بغاوت کردی ہے ۔ انسانیت اب بھی وہیں سے ان رشتوں کو دیکھ رہی ہے ۔ مغربی معاشرے کا بھی مطالعہ کریں تو یہ اقدار اب بھی ان میں موجود ہے ۔ ہاں ان کے خلاف بات ہوجاتی ہے مگر یہ کہیں گئی نہیں ہے ۔ وہاں باپ اب بھی باپ اور ماں اب بھی ماں ہے ۔ میاں اور بیوی کے رشتوں کا تقدس سوسائٹی اب بھی محسوس کرتی ہے ۔ یہ چیز اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک آپ ان بنیادی اصولوں کو مانتے ہیں ۔ اگر آپ ان بنیادی اصولوں کو نہیں مانتے تو پہلے اس بنیادی باتوں اور ضابطوں کو سمجھ لیں جو کسی معاشرے کی بقا کے لیئے ایک اساس کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کسی قانون کو سمجھنے لیئے اس کی بنیادی باتوں کو سمجھنا پڑتا ہے ۔ جس ادارے کی بات ہورہی ہے ۔ اس میں انسان کی پوری زندگی کا احاطہ ہوا ہوتا ہے جو بچپن سے لیکر بڑھاپے تک میحط ہوتا ہے ۔ اور ایسے ادارے کی بقا کے لیئے کوئی قانون مرتب ہوتا ہے ۔ کوئی ضابطہ وجود پذیر ہوتا ہے ۔ جس طرح کسی معاشرے کو منظم رکھنے کے لیئے قانون سازی اور ضابطے مرتب کیئے جاتے ہیں اس طرح ایک مرد اور عورت کو اختلاط کو بھی کسی قانون اور ضابطے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جس سے وہ رشتہ ایک خاندان میں تبدیل ہو اور وہ خاندان ایک ادارہ کی شکل میں اپنا وجود پائے اور وہ ادارہ ایک اچھے معاشرے کے وجود کو برقرار رکھنے کا حامل ہو ۔