شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلا
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا ‘شکیل‘
مجھ کو اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا
(شکیل بدایونی)
 

فرذوق احمد

محفلین
آپ کی خدمت میں چند اشعار پیش کرتا ہوں
--------------------------------------
آتا ہے داغِ حسرت ِدل کا شمار یاد
مجھ سے میرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
غالب
ایک تو ہی نہیں اس میداں میں یکتا غالب
سنا ہے پچھلے زمانے میں کوئی میِر بھی تھا
غالب
آؤ سو جائیں خزاں آنے سے پہلے اِک رات
کون دیکھے گا بہاروں کا پریشاں ہونا
عدم
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ بھلا کیا ملتا
آئینہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
شکیب جلالی
بے رخی اس سے بڑھ کر اور بھلا کیا ہوگی
ایک مدت سے ہمیں اس نے ستایا بھی نہیں
قتیل شفائی
بچھڑ گئے تو پھر ملیں گے ہم دونوں اِک بار
یااس بستی دنیا میں یا اس کی حدوں سے پار
منیر نیازی
بہت کام لینے تھے جس سے ہم کو
وہ صرفِ تمنا ہوا چاہتا ہے
حالی
بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدم
اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے
عدم

غزل کہو کبھی سادہ سے لکھو اس کو
اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں
میرے وجود سے شاید ملے سراغ تیرا
میں خود کو بھی تیرے واسطے تلاش کروں

اس شاعر کا نام مجھے نہیں پتا
 

ماوراء

محفلین

پیار سے بڑھ کر نہیں دنیا میں کوئی روشنی
پی گئے یہ روشنی تو آئینہ ہو جاؤ گے
گفتگو میٹھی کرو، ہرشخص سے جھک کر ملو
دشمنوں کے واسطے بھی دِلربا ہو جاؤ گے​
 

شمشاد

لائبریرین
اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سوئے آشیاں یارو

اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہگزر کوئی
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
(حمایت علی شاعر)
 

ظفری

لائبریرین
اِتنے تارے تھے رات، لگتا تھا
کوئی میلہ ہے آسمان نہیں

۔ امجد اسلام امجد ۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ راز ہے میری زندگی کا
پہنے ہوئے ہوں کفن خودی کا

پھر نشترِ غم سے چھیڑتے ہیں
اک طرز ہے یہ بھی دل دہی کا

او لفظ و بیاں میں چھپانے والے
اب قصد ہے اور خامشی کا

مرنا تو ہے ابتدا کی اک بات
جینا ہے کمال منتہی کا

ہاں سینہ گلوں کی طرح کر چاک
دے مر کے ثبوت زندگی کا
(اصغر گوندوی)
 

ماوراء

محفلین
تمہاری صبح حسین ہو رخ ِ سحر کی طرح
تمہاری رات ہو روشن شبِ قمر کی طرح
کوئی پوچھے جو جنت کا تو یہ کہہ سکو ہنس کر
وہ بھی خوب جگہ ہے ہمارے گھر کی طرح​
 

شمشاد

لائبریرین
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بیکسی سے ہم
(مومن خان مومن)
 

ظفری

لائبریرین
سب سے چُھپا کر جو درد مُسکرا دیا
اُس کی ہنسی نے تو آج مجھے رُلا دیا
لہجے سے اُٹھ رہا تھا ہر ایک درد کا دُھواں
چہرہ بتا رہا تھا کہ آج کچھ گنوا دیا
آواز میں ٹہراؤ تھا آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہا تھا سب کچھ میں نے بُھلا دیا
جانے کیا اُس کو تھیں لوگوں سے شکایتیں
تنہائیوں کے دیس میں خود کو بسا دیا
خود بھی وہ ہم سے بچھڑ کر اَدُھورا سا ہوگیا
مجھ کو بھی اتنے لوگوں میں تنہا بنا دیا
 

شمشاد

لائبریرین
فرشتہ کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
 

ظفری

لائبریرین
تتلیوں کا ٹوٹا ہوا پر لگتا ہے
دل پر وہ نام بھی لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
رات آئی تو ستاروں بھری چادر تانی
خوبصورت مجھے سورج کا سفر لگتا ہے
میں تیرے ساتھ ستاروں سے گذر سکتا ہوں
کتنا آساں محبت کا سفر لگتا ہے
 

فریب

محفلین
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائیگی
یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے
رنجِ رہ کیوں کھینچیے واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنہ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے
ہے دلِ شوریدہ غالب طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے

(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
خالق بھی کارساز بھی، پروردگار بھی
وہ جس کی ذات پردہ کُشا، پردہ دار بھی

ذکرِ خدائے پاک جو ہے جل شانہ
تسکین روح بھی ہے، دلوں کا قرار بھی ہے
 

F@rzana

محفلین
ظفری نے کہا:
تتلیوں کا ٹوٹا ہوا پر لگتا ہے
دل پر وہ نام بھی لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
رات آئی تو ستاروں بھری چادر تانی
خوبصورت مجھے سورج کا سفر لگتا ہے
میں تیرے ساتھ ستاروں سے گذر سکتا ہوں
کتنا آساں محبت کا سفر لگتا ہے
واہ واہ واہ، بہت خوب ظفری۔

۔
پہلے تو ہر طرف سے پذیرائیاں ملیں
پھر اس کے بعد سب نے فراموش کردیا
ان کو جو سر اٹھانے لگے تھے گلی گلی
ارباب اختیار نے خاموش کردیا
۔
 

شمشاد

لائبریرین
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی

اس بت کے ستم سہہ کے دیکھا ہی دیئے ہمنے
گو اپنی طبیعت میں بغاوت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
 

قیصرانی

لائبریرین
ظفری نے کہا:
سب سے چُھپا کر جو درد مُسکرا دیا
اُس کی ہنسی نے تو آج مجھے رُلا دیا
لہجے سے اُٹھ رہا تھا ہر ایک درد کا دُھواں
چہرہ بتا رہا تھا کہ آج کچھ گنوا دیا
آواز میں ٹہراؤ تھا آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہا تھا سب کچھ میں نے بُھلا دیا
جانے کیا اُس کو تھیں لوگوں سے شکایتیں
تنہائیوں کے دیس میں خود کو بسا دیا
خود بھی وہ ہم سے بچھڑ کر اَدُھورا سا ہوگیا
مجھ کو بھی اتنے لوگوں میں تنہا بنا دیا
ظفری بھائی یعنی کہ آپ بھی؟
قیصرانی
 

شمشاد

لائبریرین
یہ دورِ مسرت یہ تیور تمہارے
ابھرنے سے پہلے نہ ڈوبیں ستارے

بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
(رضا ہمدانی)
 

ظفری

لائبریرین
کیسے کہہ دوں کہ بدلتے ہوئے موسم تم ہو
بے وفا وقت بھی اتنا نہیں جتنے تم ہو

آو اِس بار کسی شخص کو ضامِن کر لیں
میرے نزدیک تو ہر بار بدلتے تم ہو
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top