شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
یہ عنائتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی
میری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی

میرا غم رولا چکا ہے تجھے بکھری زلف والے
یہ گھٹا بتا رہی ہے کہ برس چکا ہے پانی
(نذیر بنارسی)
 

ظفری

لائبریرین
اندھیروں میں تھے جب تلک زمانہ سازگار تھا
چراغ کیا جلا دیا ، ہوا ہی اور ہو گئی
 

سیفی

محفلین
اک گل کو چاہنا دوجے گل کے سامنے
انداز ہے یہ بھی کسی گل کو تڑپانے کا
 

قیصرانی

لائبریرین
اختیار
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
اب اس کی مرضی کہ وہ خزاں‌کو بہار لکھ دے
بہار کو انتظار لکھ دے
سفر کی خواہشوں کو واہموں کے عذاب سے ہمکنار کر دے
وفا کے راستوں پر چلنے والوں کی قسمتوں‌میں غبار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
ہوا کی مرضی کہ وصل موسم میں ہجر ہو حصہ دار لکھ دے
محبتوں میں‌گزرنے والی رُتوں کو ناپائیدار لکھ دے
شجر کو کم سایہ دار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
اب اس کی مرضی کہ وہ ہمارے دئے بجھا کر
شبوں کو با اختیار کرے کے سحر کو بے اعتبار لکھ دے
ہوا کو لکھنا سکھانے والو!
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے۔

نوشی گیلانی (موجودہ دور کی شاعری میں میری پہلی پسند اور نوشی گیلانی کے مجموعے سے واحد انتخاب)
بے بی ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
نہ سوچا نہ سمجھا نہ سیکھا نہ جانا
مجھے آ گیا خود بخود دل لگانا

ذرا دیکھ کر اپنا جلوہ دکھانا
سمٹ کر یہیں آ نا جائے زمانہ

زباں پر لگی ہیں وفاؤں کی مہریں
خاموشی میری کہہ رہی ہے فسانہ

گلوں تک لگائی تو آساں ہے لیکن
ہے دشوار کانٹوں سے دامن بچانا

کرو لاکھ تم ماتمِ نوجوانی
پر ‘میر‘ اب نہیں آئے گا وہ زمانہ
 

ظفری

لائبریرین
سمجھتے تھے مگرپھر بھی نہ رکھیں دُوریاں ہم نے
چراغوں کو جلانے میں جلا لیں اُنگلیاں ہم نے

کوئی تتلی ہمارے پاس آتی بھی تو کیا آتی
سجائےعمر بھی کاغذ کے پُھول اور پتیاں ہم نے

یونہی گُھٹ گھٹ کر مرجانا ہمیں منظور تھا لیکن
کسی کم ظرف پر ظاہر نہ کیں مجبوریاں ہم نے

ہم اُس محفل میں بس ایک بار سچ بولے تھے والی
زبان پر عمر بھر محسوس کیں چنگاریا ں ہم نے
 

ظفری

لائبریرین
بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے
وہ زودِ رنج تو ہے، وہ وفا شناس بھی ہے

تقاضے جِسم کے اپنے ہیں، دل کا مزاج اپنا
وہ مجھ سے دور بھی ہے، اور میرے آس پاس بھی ہے

نہ جانے کون سے چشمے ہیں ماورائےِ بدن
کہ پا چکا ہوں جسے، مجھ کو اس کی پیاس بھی ہے

وہ ایک پیکرِ محسوس، پھر بھی نا محسوس
میرا یقین بھی ہے اور میرا قیاس بھی ہے

حسیں بہت ہیں مگر میرا انتخاب ہے وہ
کہ اس کے حُسن پہ باطن کا انعکاس بھی ہے

ندیم اُسی کا کرم ہے، کہ اس کے در سے ملا
وہ ا یک دردِ مسلسل جو مجھ کو راس بھی ہے

احمد ندیم قاسمی
 

شمشاد

لائبریرین
بکھر گئے سب سپنے میرے
آنسوؤں کے ریلے میں
جو سپنا دیکھا وہ بہہ گیا
تخیل کے سمندر میں
اب تو میں ہو
اور وہی تنہایاں
خاموش دل
نم آنکھیں
جو ہو سکے تو آ کر دیکھ لے
دم بھر کے ہی لیے
آ جا کہ دل ٹہر نہ جائے
کہیں دیر نہ ہو جائے
 

شمشاد

لائبریرین
تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
لوگ مر جائیں بلا سے تیری

کوئی نسبت کبھی اے جانِ سخن
کسی محرومِ نوا سے تیری

اے میرے ابرِ گریزان کب تک
راہ تکتے رہیں پیاسے تیرے

تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد
ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری

تو بھی نادم ہے زمانے سے ‘فراز‘
وہ بھی ناخوش ہیں وفا سے تیری
 

شمشاد

لائبریرین
تجھے گر ملیں کبھی فرصتیں میری شام پھر سے سنوار دے
گر قتل کرنا ہے تو قتل کر، یوں جدائیوں کی سزا نہ دے
 

شمشاد

لائبریرین
بحر عشق میں ڈوب کے دیکھ کبھی
جامِ محبت پی کے دیکھ کبھی

ہر طرف تیرا ہی عکس نظر آئے گا
میری آنکھوں میں پیار سے دیکھ کبھی

غرور ہے تجھے اپنی زلفوں کی چھاؤں کا
میری پلکوں کی چھاؤں میں بیٹھ کے دیکھ کبھی
 

ظفری

لائبریرین
ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں
اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں

ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں

وہ کَڑا موڑ ہے ہمیں درپیش
راستے ہر طرف نکلتے ہیں

کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی
دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں

وہ ہوئیں بارشیں، کی کھیتوں میں
کرب اُگتے ہیں، درد پلتے ہیں

پتھروں کا غرور ختم ہوا
اب اِنساں شرر اُگلتے ہیں

ٹھوکریں کھا رہے ہیں صدیوں سے
گو دِلوں میں چراغ جلتے ہیں

احمد ندیم قاسمی
 

ظفری

لائبریرین
کون ہے کیسا ، کل سوچیں گے
سچا جھوٹا ، کل سوچیں گے

آج کی راہوں سے گذر لیں
کل کیا ہوگا ، کل سوچیں گے

ابھی تو محفل میں ہیں یارو
تنہا تنہا ، کل سوچیں گے

اب تک جو سوچا اچھا تھا
اور بھی اچھا ، کل سوچیں گے

اپنے نام ہوں دو بس لمحے
وقت ہے کس کا ، کل سوچیں گے

ٹُوٹ گیا دل یارو ایک دن
اب کیوں ٹُوٹا ، کل سوچیں گے

تم کو پا کر ہم نے خود کو
کتنا کھویا ، کل سوچیں گے

ذہن کہے کچھ کل کی سوچو
دل ہے کہتا ، کل سوچیں گے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top