شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین
کسی سے کوئی خفا نہیں رہا اب تو
گلہ کرو کے گلہ بھی نہیں رہا اب تو

شکستِ ذات کا اقرار اور کیا ہو گا
کہ اداِ محبت بھی نہیں رہا اب تو

چنے ہوئے ہیں لبوں پر تیرے ہزار جواب
شکایتوں کا مزا بھی نہیں رہا اب تو

ہوں مبتلاِ یقین ، میری مشکلیں مت پوچھ
گماں اقدا کش بھی نہیں رہا اب تو

میرے وجود کا اب کیا سوال ہے یعنی
میرے اپنے حق میں برا نہیں رہا اب تو

یہی عطیہء صبح شبِ وصال ہے کیا
کے شہرِ ناز بھی نہیں رہا اب تو

یقین کر جو تیری آرزو میں تھا پہلے
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو

وہ سکھ وہاں کے خدا کی ہیں بخشیشیں کیا کیا
یہاں یہ دکھ کہ خدا بھی نہیں رہا اب تو

- جان ایلیا -
 

فرذوق احمد

محفلین
بجائے پیار کی شبنم میرے گلستاں میں
برستے رہتے ہے ہر سمت آنکھ سائے
سیاہیوں سے الجھ پڑتی ہیں میری آنکھیں
کوئی نہیں
کوئی بھی نہیں
جو بتلائیں مجھے میں کتنی دیر جاگا رات دن
کوئی نہیں
ہے کوئی بھی نہیں
نہ پاس نا دور
بس اِک یار ہے دل کی دھڑکن
اپنی چاہت کا علان جو کیے جاتی ہے
زندگی ہے جو جیئے جاتی ہے
خون کے گھونٹ پیئے جاتی ہے
خواب کانٹوں سے سیئے جاتی ہے


سوری شاعر کا نام مجھے معلوم نہیں یہ نظم میں نے ایک گانے میں سنی ہے اور اچھی لگی مجھے اس لیے میں آپ سے بھی شئیر کر رہا ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
شہر کی رات اور میں آوارہ و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
(مجاز لکھنوی)
 

ظفری

لائبریرین
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

درد شب ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خوں دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
منصف ہو تو شر اٹھا کیوں نہیں دیتے

ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرہ ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمان جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے

فیض احمد فیض
 

شمشاد

لائبریرین
فیض کی یہ بہت خوبصورت غزل ہے ظفری بھائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسی محبت کہاں کے فسانے
یہ پینے پلانے کے سب ہیں بہانے

وہ دامن ہو ان کا کہ سنساں صحرا
بس ہم کو تو آخر ہیں آنسو بہانے

یہ کس نے مجھے مست نظروں سے دیکھا
لگے خود بخود ہی قدم ڈگمگانے

چلو تم بھی “ گمنام “ اب میکدے میں
تم نے دفن کرنے ہیں کئی غم پرانے
(سریندر ملک گمنام)
 

ظفری

لائبریرین
جی ہاں بجا فرماتے ہیں آپ شمشاد بھائی ۔ واقعی بہت ہی خوبصورت غزل ہے ۔ آج ہی یاد آئی ۔۔ آج ہی ارسال کردی ۔
------------------------------------------------------------------------------
قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثار راہِ وفا کر چکے ہیں ہم

کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم

اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم

دیکھیں ہیں کون کون ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم

آپ اپنا اختیار ہیں چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جُدا کر چکے ہیں ہم

ان کی نظر میں، کیا کریں، پھیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا لہو ہے صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم

کچھ اپنے دل کی خُو کا بھی شکرانہ چاہئے
سو بار ان کی خُو کا گلا کر چکے ہیں ہم

فیض احمد فیض
 

ماوراء

محفلین
زندگی میں ساتھ دینا تو نہیں کرتے پسند
دم نکل جائے تو کندھے پہ اٹھا لیتے ہیں لوگ​
 

ماوراء

محفلین
او میرے مصروف خدا





او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلوت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
جھونپڑی والوں کی تقدیر
بجھا بجھا سا ایک دیا
خاک اڑاتے ہیں دن رات
میلوں پھیل گئے صحرا
زاغ و زغن کی چیخوں سے
سونا جنگل گونج اٹھا
سورج سر پر آ پہنچا
گرمی ہے یا روزِ جزا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑا
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا


ناصر کاظمی​
 

ماوراء

محفلین
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا، چھو نہ سکتا تھا​
 

قیصرانی

لائبریرین
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اٍک آس تھی اب جانے لگی
بے بی ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
بچھڑے ہوئے یاروں کی صدا کیوں نہیں آتی
اب روزنِ زنداں سے ہوا کیوں نہیں آتی
اے موسم خوشبو کی طرح روٹھنے والے
پیغام تیرا لے کے صبا کیوں نہیں آتی
 

شمشاد

لائبریرین
مانا کہ حسنِ یار کی دشمن ہیں شوخیاں
وہ کیا کرئے کہ جس کی طبیعت ہو چلبلی
 

ظفری

لائبریرین
جا چکا ہے وہ میرے حال سے باہر پھر بھی
اپنی جانب میرے ماضی کے نشاں کھینچتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
جانے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری
 

ریت

محفلین
یہ تھریڈ مجھے پہلے کیوں نظر نہیں آیا :shock:

زندگی پھیلی ہوئی تھی شامِ ہجراں کی طرح
کس کو اتنا حوصلہ تھا کون جی کر دکھاتا
 

ظفری

لائبریرین
زندگی ہنس کے گُذرتی تو اچھا تھا
خیر ہنس کے نہ سہی رَو کے گذر جائے گی
راکھ برباد محبت کی بچا رکھی ہے
بار بار جو اسے چھیڑا تو بکھر جائے گی
:wink:
 

ریت

محفلین
تھا ابتدائے شوق میں آرامِ جاں بہت
پر ہم تھے اپنی دھن میں بہت انتہا پرست
 

شمشاد

لائبریرین
یہ چاندنی بھی جن کو چھوتے ہوئے ڈرتی ہے
دنیا ان ہی پھولوں کو پیروں سے مسلتی ہے

شہرت کی بلندی پل بھر کا تماشہ ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
(بشیر بدر)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمید کے اسرار نظر آتے ہیں

میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جسے چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ‘ ساغر ‘
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

(ساغر صدیقی)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top