شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرذوق احمد

محفلین
شمشادبھائی غزلیں سن لیا کرے یہ تو میں جانتا ہوں کہ آپ کو گانے نہیں آتے ہیں اور نہ ہی آپ سنتے ہیں کیونکہ گانے والے دھاگے میں آپ نے کچھ بھی نہیں لکھا یہی سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا

ویسے غزلیں سن لیا کرے مہندی حسن خاں صاحب کی یہ دوسرے فنکاروں کی میں بھی اس وقت نور جہاں کی غزلیں سن رہا ہوں
ابھی وہ لگی دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
 

ظفری

لائبریرین
میں ہوں سورج کی پرستار مرے ساتھ نہ چل
دیکھ اے سایہِ دیوار مرے ساتھ نہ چل

فیصلہ کرنے میں تاخیر ہوئی ہے تجھ سے
ڈوبتی ناؤ میں اُس پار مرے ساتھ نہ چل

میں نے کب تجھ سے کہا، پاؤں کی ٹھوکر بن جا
لیکن اتنا ہے کہ بیکار مرے ساتھ نہ چل

میرا دُکھ تجھ سے چھپایا نہیں جاتا پگلی
گھر کی گِرتی ہوئی دیوار مرے ساتھ نہ چل

مجھ کو تنہائی کے جنگل سے گزرنا ہے قمر
تجھ کو خوف آئے گا اِس بار مرے ساتھ نہ چل

- ریحانہ قمر -
 

شمشاد

لائبریرین
کیا دورِ غزل تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کی فرصت بھی بہت تھی

ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
 

ظفری

لائبریرین
خُماری چڑھ کر اُتر گئی
زندگی یونہی گذر گئی
کبھی سوتے سوتے کبھی جاگتے
خوابوں کے پیچھے ہونہی بھاگتے
اپنی تو ساری عمر گئی

رنگین بہاروں کی خواہش رہی
ہاتھ مگرکچھ آیا نہیں
کہنے کو اپنے ساتھی تھے کئی
ساتھ مگر کسی نے نبھایا نہیں
کوئی بھی ہمسفر نہیں
کھو گئی ہر ڈگر کہیں

لوگوں کو اکثر دیکھاہے
گھر کے لئے روتے ہوئے
ہم تو مگر بے گھر ہی رہے
گھر والوں کے ہوتے ہوئے
آیا اپنا نظر نہیں
اپنی جہاں تک نظر گئی

پہلے تو ہم سُن لیتے تھے
شور میں بھی شہنائیاں
اب تو ہم کو لگتی ہیں
بھیڑ میں بھی تنہائیاں
جینے کی حسرت کدھر گئی
دل کی کی کلی بکھر گئی

کبھی سوتے سوتے کبھی جاگتے
خوابوں کے پیچھے ہونہی بھاگتے
اپنی تو ساری عمر گئی

خُماری چڑھ کر اُتر گئی
زندگی یونہی گذر گئی​
 

شمشاد

لائبریرین
آخری ٹیس آزمانے کو
جی تو چاہتا تھا مسکرانے کو

یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو

سنگریزوں میں ڈھل گئے آنسو
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

زخمِ نغمہ بھی لو تو دیتا ہے
اک دیا رہ گیا جلانے کو

جلنے والے تو جل بجھے آخر
کون دیتا خبر زمانے کو

کتنے مجبور ہو گئے ہوں گے
ان کہی بات منہ پے لانے کو

کھل کے ہنسنا تو سب کو آتا ہے
لوگ ترستے رہے اک بہانے کو

ریزہ ریزہ بکھر گیا انسان
دل کی ویرانیاں جتانے کو

حسرتوں کی پناہ گاہوں میں
کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو

ہاتھ کانٹوں سے کر لیا زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو

آس کی بات ہو کہ سانس ‘ ادا ‘
یہ کھلونے ہیں ٹوٹ جانے کو
(ادا جعفری)
 

شمشاد

لائبریرین
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا

آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا

رونے والوں سے کہہ دو ان کا بھی رونا رہ لیں
جن کو مجبوریِ حالات نے رونے نہ دیا

تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگیِ وقتِ ملاقات نے رونے نہ دیا
 

ظفری

لائبریرین
اپنا پن بھی اس بیگانے پن میں ہے
پورا عالم ایک دیوانے پن میں ہے
یہ جو تم سے میں انجان بنا پھرتا ہوں
ساری بات اسی انجانے پن میں ہے
 

شمشاد

لائبریرین
تیری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے
بنا دیا تیری فطرت کا رازدار مجھے

میری حیات کا انجام اور کچھ ہوتا
جو آپ کہتے کبھی اپنا جانثار مجھے
 

ماوراء

محفلین
~~
گنگا تو بہہ رہی ہے مگر ہاتھ خشک ہیں
بہتر ہے خود کشی کا چلن اس رواج سے
تم بھی میرے مزاج کی لے میں نہ ڈھل سکے
اُکتا گیا ہوں میں بھی تمہارے سماج سے
~~​
 

ظفری

لائبریرین
تیرے سوا قرار کسی نے نہیں دیا
اتنا تو مجھ کو پیار کسی نے نہ دیا

یہ لطف زندگی میں کہیں بھی نہ مل سکا
یہ کیفِ انتظار کسی نے نہیں دیا

میں اپنے ساتھ بھی کوئی لمحہ گذار لوں
اتنا بھی اختیار کسی نے نہیں دیا

مانگی تھی ایک شام رفاقت بہار میں
ایک لمحہ بھی اُدھار کسی نے نہیں دیا

مت یہ سمجھ ، کسی کو جدائی کا غم نہ تھا
ہنس کر یہ دن گذار کسی نے نہیں دیا

دُکھ بھی دیا کسی نے مگر ساری زندگی
سکھ اتنا اعتبار کسی نے نہیں دیا

- اعتبار ساجد -
 

شمشاد

لائبریرین
نہ شکائیتں نہ گلہ کرئے
کوئی ایسا شخص ہوا کرے
جو میرے لیے ہی سجا کرے
مجھ ہی سے باتیں کیا کرے

کبھی روئے جائے وہ بے پناہ
کبھی بے تحاشہ اداس ہو
کبھی چپکے چپکے دبے قدم
میرے پیچھے آ کر ہنسا کرے

میری قربتیں میری چاہتیں
کوئی یاد کرے قدم قدم
میں طویل سفر میں ہوں اگر
میری واپسی کی دعا کرے
(امجد اسلام امجد)
 

شمشاد

لائبریرین
ریت پر لکھ کے میرا نام مٹایا نہ کرو
آنکھیں سچ بولتی ہیں پیار چھپایا نہ کرو

لوگ ہر بات کا فسانہ بنا لیتے ہیں
سب کو حالات کی روداد سنایا نہ کرو

یہ ضروری نہیں ہر شخص مسیحا ہی ہو
پیار کے زخم امانت ہیں دیکھایا نہ کرو

شہرِ احساس میں پتھر بہت ہیں ‘ محسن ‘
دل کو شیشے کے جھروکوں میں سجایا نہ کرو
 

ظفری

لائبریرین
سمندر کا تماشا کر رہا ہوں
میں ساحل ہو کے پیاسا مر رہا ہوں

اگرچہ دل میں صحرا کی تپش ہے
مگر میں ڈُوبنے سے ڈر رہا ہوں

میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر
شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں

قفس میں مجھ پہ جو بیتی سو بیتی
چمن میں بھی شکستہ پر رہا ہوں

اُٹھے گا حشر کیا محشر میں مجھ پر
میں خود ہنگامہِ محشر رہا ہوں

کسا ہے جھوٹ کا پھندا گلے میں
میں سچائی کی خاطر مر رہا ہوں

وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
میں جس پتھر کو سجدے کر رہا ہوں

مری گردش میں ہر سازِ الم ہے
جہانِ درد کا محور رہا ہوں

بنائی جو مرے دستِ ہنر نے
اُسی تصویر سے اب ڈر رہا ہوں

تراشے شہر میں نے بخش کیا کیا
مگر میں خود سدا بے گھر رہا ہوں

(بخش لائلپوری)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بھی نہیں بیمار نہ تھے
اتنے جنوں آثار نہ تھے

لوگوں کا کیا ذکر کریں
ہم بھی کم عیار نہ تھے

گھر میں اور بہت کچھ تھا
صرف در و دیوار نہ تھے
(آشفتہ چنگیزی)
 

ظفری

لائبریرین
شاخ کیا ٹوٹی آشیانے کی
نبض ہی رُک گئی زمانے کی

اپنے ہاتھوں اگر جلانا تھا
کیا ضرورت تھی گھر بنانے کی

کُوچہِ مومناں میں بندش ہے
کلمہِ حق زباں پہ لانے کی

جم گئی ہے جو اپنے چہروں پر
وہ سیاہی ہے کارخانے کی

قریہِ شہر یار میں اب تو
سخت مشکل ہے سر چُھپانے کی

بخش لندن میں رنگداروں کو
فکر لاحق ہے آب و دانے کی

(بخش لائیلپوری)
 

ماوراء

محفلین
~~
اپنے اکیلے پن کا میں کس سے گلا کروں
جس کو بھی مڑ کے دیکھا وہ تنہائیوں میں ہے
~~​
 

ماوراء

محفلین
~~
میں اپنا قافلہ خود ہوں اپنی ہمسفر خود ہوں
انا کے قیدیوں میں اب میرا بھی نام ہو جائے
~~​
 
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
لگی نہ ٹھیس پھر سے خلوص ‌میں
میں نے کہا نہ تھا میرے یار سوچنا
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top