شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
تمھاری نظروں میں ہم نے دیکھا
عجب سی چاہت جھلک رہی ہے
تمھارے ہونٹوں کی سرخیوں سے
وفا کی شبنم جھلک رہی ہے
ہماری سانسوں کو چھو کے دیکھو
تمھارے خوشبو مہک رہی ہے
قسم خدا کی یقین کرلو
کہیں بنا نہیں ہوگا حسن ایسا
نہ دیکھو ایسے جھکا کے پلکیں
ہماری نیت بہک رہی ہے
تمھاری الفت میں جانٍ جاناں
ہمیں ملی تھی وہ ایک دھڑکن
ہمارے سینے میں آج تک وہ
تمھاری دھڑکن دھڑک رہی ہے
تمھاری نظروں میں ہم نے دیکھا
عجب سی چاہت جھلک رہی ہے
(ابھی ماوراء نے یہ گانا لکھا تو مجھے یاد آیا کہ میرے پاس اس کی وڈیو موجود ہے۔ تو میں نے دیکھتے ہوئے لکھ دیا۔)
بےبی ہاتھی
 

ماوراء

محفلین
~~
ایک پشیمانی رہتی ہے
اُلجھن اور گرانی بھی ۔۔۔۔
آؤ پھر سے لڑ کر دیکھیں
شاید اس سے بہتر کوئی اور سبب مل جائے ہم کو
پھر سے الگ ہو جانے کا!!

~~​
 

ماوراء

محفلین

~~
ہم نے دریا سے سیکھی ہے پانی کی پردہ داری
اوپر اوپر ہنستے رہنا ، گہرائی میں رو لینا
~~​
 

ماوراء

محفلین

~~
جب اور کچھ نہ ہوگا تو ڈبو ہی دیں گے سفینہ
ساحل کی قسم منتِ طوفاں نہ کریں گے
~~​
 

ماوراء

محفلین
~~

ہر قدم پہ اک نیا پتھر ہے حائل راہ میں
میں تجھے سر کر رہا ہوں کوہساروں کی طرح
~~​
 

شمشاد

لائبریرین
مدت سے نہ آئی کوئی خبر، یاران گلستاں کیسے ہیں
اے بادِ صبا اتنا تو بتا، سرو و گُل و ریحاں کیسے ہیں

پابندِ قفس تو کیسے کہیں اور کس سے کہیں رودادِ قفس
آزادِ قفس بتلائیں ہمیں اربابِ گلستاں کیسے ہیں
(اختر شیرانی)
 

شمشاد

لائبریرین
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو مرغزار کا
پالا ہوا ہے وہ بھی نسیمِ بہار کا
(جوش ملیح آبادی)
 

ظفری

لائبریرین
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم



یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم

مدّت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم

شاید بقیدِ زیست یہ ساعت نہ آ سکے
تم داستانِ شوق سنو اور سنائیں ہم

بےنور ہو چکی ہے، بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم

اُس کے بغیر آج بہت جی اُداس ہے
جالب چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہم

حبیب جالب
 

شمشاد

لائبریرین
میں کون ہوں کیا ہوں میری تحریر کہے گی
خاموش ہوا تو میری تصویر کہے گی

کیوں سُرخ ہیں نقشِ کفِ پا راہِ طلب میں
کوئی نہ کہے پاؤں کی زنجیر کہے گی

ہم کو تو سدا نیند میں چلنے کا مرض ہے
پہنچیں گے کہاں خواب کی تعبیر کہے گی

(حمائت علی شاعر)
 

ظفری

لائبریرین
دل کو اک بات کہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے

تو مری جان داستان تھا کبھی
اب ترا نام داستانی ہے

سہہ چکے زخمِ التفات ترا
اب تیری یاد آزمانی ہے

اک طرف دل ہے ، اک طرف دنیا
یہ کہانی بہت پرانی ہے

تھا سوال ان کی اداس آنکھوں کا
زندگی کیا نہیں گنوانی ہے

کیا بتاؤں میں اپنے پاسِ انا
میں نے ہنس ہنس کر ہار مانی ہے

ہوس انگیز ہے بدن میرا
ہائے میری ہوس کہ فانی ہے

زندگی کس طرح سے گزاروں میں
مجھ کو روزی نہیں کمانی ہے

(جان ایلیا )
 

شمشاد

لائبریرین
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
اک نقطے نے ہم کو محرم سے مجرم کر دیا
 

ظفری

لائبریرین
دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش
اور چاروں طرف ہے گھر درپیش

ہے یہ عالم عجیب اور یہاں
ماجرا ہے عجیب تر درپیش

دو جہاں سے گزر گیا پھر بھی
وہ رہا خود کو عمر بھر درپیش

اب میں کوئے عبث چلوں
کئی اک کام ہیں ادھر درپیش

اس کے دیدار کی امید کہاں
جبکہ ہے دید کو نظر درپیش

اب مری جاں بچ گئی یعنی
ایک قاتل کی ہے سپر درپیش

خلوتِ ناز اور آئینہ
خود نگر کو ہے ،خود نگر درپیش
 

شمشاد

لائبریرین
میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے
اُسے سمجھنے کو کوئی تو سلسلہ نکلے

کتابِ ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا
نجانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے

جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے
اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلہ نکلے
(وسیم بریلوی)
 

ظفری

لائبریرین
میرا میری ذات میں سودا ہوا
اور میں پھر بھی نہ شرمندہ ہوا

کیا سناؤں سرگزشتِ زندگی
اک سرائے میں تھا میں ٹھیرا ہوا

پاس تھا رشتوں کا جس بستی میں عام
میں اس بستی میں بے رشتہ ہوا

اک گلی سے جب سے روٹھن ہے مری
میں ہو سارے شہر سے روٹھا ہوا

پنج شنبہ اور دکانِ مہ فروش
کیا بتاؤں کیسا ہنگامہ ہوا

( جان ایلیا )
 

شمشاد

لائبریرین
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمیں نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمیں نیا آسماں مل بھی جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل میرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا
(کیفی اعظمی)
 

شمشاد

لائبریرین
نجانے آج یہ کس کا خیال آیا ہے
خوشی کے رنگ لیے ہر ملال آیا ہے

وہ اک شخص کہ حاصل نہ تھا جو خود کو بھی
مٹا کسی پہ تو کیسا بےحال آیا ہے

زباں پہ حرفِ طلب بھی نہیں کوئی پھر بھی
نگاہِ دوست میں رنگِ جلال آیا ہے

کیا نہ ذکر بھی جس کا تمام عمر کبھی
ہمارے کام بہت وہ ملال آیا ہے

نہیں ہے تم سے کوئی دوستی بھی اب تو مگر
قدم قدم پہ یہ کیسا وبال آیا ہے
(احمد ہمدانی)
 

شمشاد

لائبریرین
نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے

عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے

میں اک جام ہوں کس کس کے ہونٹوں تک پہنچوں
غضب کی پیاس لیے ہر بشر لگے ہے مجھے

تراش لیتا ہوں اس سے بھی آئینہ “ منظور “
کسی کے ہاتھ کا پتھر اگر لگے ہے مجھے
(ملک زادہ منظور احمد)
 
اسیر صورتِ حالات ہو گئے ہم بھی
جگا سکے نہ کسی کو تو سو گئے ہم بھی

چلے تھے شہر کو دنیا سے باخبر کرنے
خود اپنی ذات کے افسوں میں کھو گئے ہم بھی

جہاں سے چاہتے ہیں لوگ پڑھنے لگتے ہیں
کھلی کتاب کی مانند ہو گئے ہم بھی
 

شمشاد

لائبریرین
قدم اسی موڑ پر جمے ہیں
نظر سمیٹے ہوئے کھڑا ہوں
جنوں یہ مجبور کر رہا ہے پلٹ کے دیکھوں
خودی یہ کہتی ہے مڑ مڑ جا
اگرچہ احساس کہہ رہا ہے
کھلے دریچے کے پیچھے دو آنکھیں جانکھتیں ہیں
ابھی میرے انتظار میں وہ بھی جاگتی ہیں
کہیں تو اس کے گوشہِ دل میں درد ہو گا
اسے یہ ضد ہے کہ میں پکاروں
مجھے تقاضا ہے وہ بلا لے
قدم اسی موڑ پر جمے ہیں
نظر سمیٹے ہوئے کھڑا ہوں
(گلزار)
 
فرزانہ کو خبر ہو جائے تو اس پوسٹ پر اڑتی ہوئے آئے :)

گلہ تو خیر کوئی نہیں بس اتنا تم سے کہنا ہے
تمہاری عمر میں کوئی یوں ستم گر نہیں ہوتا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top