محب علوی
مدیر
سارا نے کہا:محب علوی نے کہا:سارا نے کہا:شکریہ۔۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
‘مرزا غالب‘
سارا یہ کیا غضب کر رہی ہیں ، میر تقی میر کا شعر غالب کے سر تھوپ رہی ہیں ، شکر کریں غالب کی بھتیجی نے نہیں دیکھ لیا ورنہ طوفان کھڑا ہو جاتا۔ ویسے شعر بہت عمدہ ہے
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں ، کچھ روز میں بھر جاتے ہیں
راستہ روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جانا ہے
چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں
نرم الفاظ ، بھلی باتیں ، مہذب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اتر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
شاعری کی کتاب ہے۔۔‘کہو مجھ سے محبت ہے‘ ارشدملک کی۔۔۔
وہاں یہ شعر ‘مرزا غالب‘ کے نام سے ھی لکھا ہے۔۔۔
یہ کتاب میرے پاس بھی رہی ہے ، اچھی کتاب ہے۔ چلیں آپ کو فائدہ ہو گیا کہ اصل شاعر کا پتہ چل گیا، مجھے بھی یہاں اپنی بڑی غلطیوں کا پتہ چلا ہے۔
کون اس راہ سے گزرتا ہے
دل یونہی انتظار کرتا ہے
دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے
دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے
شہر گل میں کٹی ہے ساری رات
دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے