ظفری نے کہا:
اُس شخص کو بُھلا کر
اب زندگی ہماری
پہلے سے بھی زیادہ
دُشوار بن گئی ہے
ہم دَر بنا رہے تھے
دیوار بن گئی ہے
ظفری نے کہا:
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ دل تھا ، ایک شخص نے مجھ کو مار دیا
ایک سبز شاخ گلاب کی طرح ایک دنیا اپنے خواب کی طرح
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اُس کے لیے سب کچھ ہار دیا
یہ سجا سجایا گھر ساتھی میری ذات نہیں میرا حال نہیں
اے کاش تًم کبھی جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا
میں کھلی ہوئی سچائی، مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگو ں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یُوں جینا بھی
اُس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
عبیداللہ علیم