شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
تم پہ یوں ہاتھ ڈالیں گی تنہائیاں اک وقت آئے گا
کوئی آہٹ بھی ہو گی دہل جاؤ گے جا کے پردیس میں
 

ماوراء

محفلین
~~
273_uff1_1.gif
ایک کو سمجھاؤں تو دوسرا۔۔۔huh
قیصرانی بابا، کیا آپ کو مجھے سمجھانے کی ضرورت پیش آئی ہے کیا۔؟؟ نہیں۔ تو میری دوستوں کو بخش دیں۔ انھیں میں اتنی مشکلوں سے لے کر آئی ہوں۔ کہیں میرے پلانز چکنا چور نہ ہو جائیں۔ اس سارا کو ذرا احتیاط سے ہی کہا کیجئے۔ میری بہت ہی سینسٹو دوست ہے۔ اور سمجھانے کی ضرورت پیش آئی تو میں ہوں نا۔ :?
~~
 

قیصرانی

لائبریرین
اوہ، بہت بہت معذرت سارا۔ بہت بہت معذرت ماوراء :( اب کچھ نہیں‌کہوں‌گا۔اب مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ اپنی دوستوں کو اپنے پلانز کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے لگ گئی ہیں؟
بےبی ہاتھی
 
قیصرانی تم شعر بھی پوسٹ کرو گے کہ صرف باتیں ہی بناؤ گے :wink: باقی ماورا ہے نہ سب ٹھیک کرنے کے لیے ، اور کوئی ہو نہ ہو یہ خود بہت سینس ۔۔ ٹیو ہے :wink:

احساس کا انداز بدل جاتا ہے ورنہ
آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی
 

سارا

محفلین
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے
ہجر کی رات کا کنارہ نہیں

وہ نہیں ملتا اک بار ہمیں
اور یہ زندگی دوبارہ نہیں۔۔
 

ماوراء

محفلین
~~


کبھی تم کتابوں میں کُچلی ہوئی کوئی تتلی جو دیکھو
تو یہ جان لینا
مجھے آسمان اور زمیں نے کُچل کر تمھاری کتابوں میں
تتلی کی صورت بقا بخش دی
کبھی پھول ٹوٹا ہوا کوئی پاؤ
تو یہ جان لینا
مجھے میرے اندر نے خود توڑکر تیرے قدموں میں نقشِ وفا کر دیا ہے

کبھی کوئی ساگر اُمنڈتا جو دیکھو
تو یہ جان لینا
یہ میرے آنسو ہیں جو اب سمندر میں طوفاں بنے ہیں
کبھی پھول، تتلی، سمندر، کنارے
گزرتے ہوئے تیز قدموں کو تھامیں
تو یہ جان لینا
یہ میں ہوں جو تھک کر یہاں آ گیا ہوں
ہمارے لئے ایسے دن بھی لکھے تھے
کہ جن میں اَنا نے فنا کے سفر میں
کئی درد جھیلے
کئی روپ دھارے
کبھی پھول، تتلی سمندر کنارے
کبھی رنگ، خوشبو، اُجالا، ستارے

طارق عزیز



~~​
 

ظفری

لائبریرین

اُس شخص کو بُھلا کر

اب زندگی ہماری

پہلے سے بھی زیادہ

دُشوار بن گئی ہے

ہم دَر بنا رہے تھے

دیوار بن گئی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
زندگی کسی کی امانت نہیں ہوتی
امانت میں کبھی خیانت نہیں ہوتی

دل کو سنبھال کر رکھنا میرے دوست
عشق کی قید میں کبھی ضمانت نہیں‌ ہوتی
 

شمشاد

لائبریرین
کس طرح سے ممکن تھا اک شاخ پر کھلتے
میں کہ ہجر کا لمحہ، تُو وصال کا موسم
 

ظفری

لائبریرین
اگرچہ یہ وقت مرہم ہے
مگر کچھ وقت تو لگتا ہے
کسی کو بُھول جانے میں
دوبارہ دل بسانے میں
کچھ وقت تو لگتا ہے
ابھی وہ درد باقی ہے
میں کیسے نئی اُلفت میں
اپنی ذات کو گُم کرلوں
کہ میرے جسم و وجود میں
ابھی وہ فرد باقی ہے
ابھی اُس شخص کی مجھ پر
نگاہِ سرد باقی ہے
ابھی تو عشق کے راستوں کی
مجھ پر گرد باقی ہے
ابھی وہ درد باقی ہے ۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ دل تھا ، ایک شخص نے مجھ کو مار دیا
ایک سبز شاخ گلاب کی طرح ایک دنیا اپنے خواب کی طرح
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اُس کے لیے سب کچھ ہار دیا
یہ سجا سجایا گھر ساتھی میری ذات نہیں میرا حال نہیں
اے کاش تًم کبھی جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا
میں کھلی ہوئی سچائی، مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگو ں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یُوں جینا بھی
اُس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا

عبیداللہ علیم
 

شمشاد

لائبریرین
جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے
وہ میری تنگیِ داماں کا گلہ کرتا ہے

دیر سے آج میرا سر ہے تیرے زانوں پر
یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے
 

ظفری

لائبریرین
کچھ نہ کسی سے بولیں گے
تنہائی میں رو لیں گے

ہم بے راہ رووں کا کیا
ساتھ کسی کے ہو لیں گے

خود تو ہوئے رُسوا لیکن
تیرے بھید نہ کھولیں گے

جیون زہر بھرا ساگر
کب تک امرت گھولیں گے

ہجر کی شب سونے والے
حشر کو آنکھیں کھولیں گے

پھر کوئی آندھی اُٹھے گی
پنچھی جب بھی پر تولیں گے

نیند تو کیا آئے گی فراز
موت آئی تو سو لیں گے​
 

شمشاد

لائبریرین
عجیب سانحہ گزرا ہے مجھ پہ آج کی شام
میں آج شام تمہارے ہجر میں اداس نہ تھا

اب ایک سال تو یہ ایک غم ہی کافی ہے
تمہاری سالگرہ پر تمہارے پاس نہ تھا
(وصی شاہ)
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے تیری سالگرہ پر
سوچا کوئی تحفہ نذر کروں
کچھ ایسا جو تیرے پاس نہیں
پا سکا نہ تجھ میں کوئی کمی
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین اس لمحے
جب خالقِ کون و مکاں
ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر
حسبِ معمول آج بھی آیا
اچانک ہی
میرے ہاتھ اٹھے اور دامن پھیلایا
تب میرے لبوں پر رک گیا آ کے
تیرا ہی نام
افق کو چھو لے تیرا مقام
(آمین)
 
ظفری نے کہا:

اُس شخص کو بُھلا کر

اب زندگی ہماری

پہلے سے بھی زیادہ

دُشوار بن گئی ہے

ہم دَر بنا رہے تھے

دیوار بن گئی ہے

بہت عمدہ ظفری ، چھوٹی سی نظم میں کتنی گہری بات کردی۔

کتابوں سے دلیلیں دوں کہ دل کو سامنے رکھ دوں
وہ مجھ سے پوچھ بیٹھے ہیں ، محبت کس کو کہتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاریں
اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا

ہے سلسلہ احوال کہ ہر لہجہ دگرگوں
اے سالکِ راہ فکر نہ کر سود و زیاں کا

شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلق اپنے جہاں کا

(علامہ اقبال)
 

سارا

محفلین
ظفری نے کہا:

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ دل تھا ، ایک شخص نے مجھ کو مار دیا
ایک سبز شاخ گلاب کی طرح ایک دنیا اپنے خواب کی طرح
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اُس کے لیے سب کچھ ہار دیا
یہ سجا سجایا گھر ساتھی میری ذات نہیں میرا حال نہیں
اے کاش تًم کبھی جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا
میں کھلی ہوئی سچائی، مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگو ں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یُوں جینا بھی
اُس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا

عبیداللہ علیم

زبردست۔۔ظفری بھائی۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top