شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارا

محفلین
جی اچھا۔۔۔

تم نے ہمارے چاروں طرف ہی گھاتیں کیں
ہم نے کہاں محسوس تمہاری باتیں کیں

جا تو رہے ہو جیت سمیٹ کے مٹھی میں
سوچو تم نے کس کے حوالے ماتیں کیں۔۔
 

سارا

محفلین
چُپ چُپ گم صم رہنے والے
اپنے آپ سے جنگ کرتے ہیں

سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا
پچھتاوے پھر تنگ کرتے ہیں۔۔
 

سارا

محفلین
وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئ سال کی

ہے منیر تیری نگاہ میں
کوئی بات گہرے ملال کی۔۔
 

سارا

محفلین
زندگی میں ساتھ دینا تو نہیں کرتے پسند
دم نکل جائے تو کندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ
 
شمشاد نے کہا:
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاریں
اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا

ہے سلسلہ احوال کہ ہر لہجہ دگرگوں
اے سالکِ راہ فکر نہ کر سود و زیاں کا

شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلق اپنے جہاں کا

(علامہ اقبال)

بڑی مدت بعد اقبال کو دیکھا ہے اور دوسرے شعر پر مجھے لگا کہ یہ اقبال کا ہی رنگ ہے آخری پڑھا تو یقین آگیا ہے، کیا کمال شعر ہے آخری۔

دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
(علامہ اقبال )
 

شمشاد

لائبریرین
Zuha Ali
بہت خوب، لیکن آپ اپنا تعارف تو کروائیں

تعارف کا ایک الگ سے زمرہ ہے وہاں آ جائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ جیسا بھی ہے اچھا ہے
خوش رنگ گلابوں جیسا ہے
بدمست شرابوں جیسا ہے
وہ جیسا بھی ہے اچھا ہے

گھنگھور گھٹاؤں جیسا ہے
پیپل کی چھاؤں جیسا ہے
خاموش صداؤں جیسا ہے
وہ میری دعاؤں جیسا ہے
وہ جیسا بھی ہے اچھا ہے
 

سارہ خان

محفلین
زبان تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے

نہیں ملتے تو ایک ادنی شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے

یہ مانا کے شیشہِ دل رونقِ بازارِ الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے

نگاہیں پرکھ لیتی ہیں محبت کی نگاہوں کو
چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اجنبی سی راہوں کا
اجنبی مسافر ایک
مجھ سے پوچھ بیٹھا ہے
راستہ بتا دو گے
اجنبی سی راہوں کے
اجنبی مسافر سن
راستہ کوئی بھی ہو
واسطہ کوئی بھی ہو
منزلیں نہیں ملتیں
منزلیں تو دھوکہ ہیں
منزلیں جو مل جائیں
جستجو نہیں رہتی
زندگی کو جینے کی
آرزو نہیں رہتی
 

شمشاد

لائبریرین
لاکھ کوئی ٹھکرا دے
سارے وعدے جھٹلا دے
توڑ کر سبھی بندھن
راہ ہجر دکھلا دے
پھر بھی آس چاہت کی
آرزو محبت کی
دل سے تو نہیں جاتی
 

شمشاد

لائبریرین
آغاز یوں ہوا تھا
اس نے گلاب بھیجا
میں نے کتاب کھولی
اور اس میں رکھ دیا وہ
سب سے اسے چھپایا
انجام یہ ہوا ہے
کچھ خشک پتیاں ہیں
تھوڑی سی ہے مہک بھی
بس اور کچھ نہیں ہے
 

شمشاد

لائبریرین
میں بہت ہی بزدل تھا
اور کم سخن سا بھی
تو بہت بہادر تھی
اور جانِ محفل بھی
صد ہزار لوگوں کے
تنہا دل کی دھڑکن بھی
میں بہت ہی بزدل تھا
اتنا بھی نہ کہہ پایا
تُجھ پہ میری جاں واری
تو بہت ہی ہے پیاری
 

شمشاد

لائبریرین
بہت کڑا تھا وہ ایک لمحہ
کہا جب آہستگی سے میں نے
نگاہیں تم سے چرا کے اک دن
ہمارا ملنا نہیں ہے ممکن
جو بن پڑے تو بھلا دو مجھ کو
بہت کڑا تھا وہ ایک لمحہ
 

فریب

محفلین
منزلیں بھی اس کی تھیں راستہ بھی اس کا تھا
ایک میں اکیلا تھا قافلہ بھی اس کا تھا

ساتھ ساتھ چلنے کی سوچ بھی اسی کی تھی
پھر راستہ بدلنے کا فیصلہ بھی اس کا تھا

آج کیوں اکیلا ہوں ‌دل سوال کرتا ہے
لوگ تو اسی کے تھے کیا خدا بھی اس کا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
کبھی دن کی دھوپ میں جھوم کے کبھی شب کے پھول کو چوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو

میرے ساتھ میرے حبیب آ، ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے دھڑکنوں میں اتار لوں کہ بچھڑنے کا کوئی ڈر نہ ہو
(بشیر بدر)
 

فریب

محفلین
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو، اور جو نہ چاہو نہ کہو

شاید (فیض احمد فیض)‌ کا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
مہک رہا ہے چمن کی طرح وہ آئینہ
کہ جس میں تو نے کبھی اپنا روپ دیکھا تھا

گھٹا اٹھی ہے تو پھر یاد آ گیا انور
عجیب شخص تھا، اکثر اداس رہتا تھا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top