شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فریب

محفلین
نہ تھی روشنی کسی آنکھ میں کسی خواب کی
یہ عجیب شا ِم فراق تھی
لب بے نوا کے حصار میں کہیں ایک حرف دعا نہ تھا
وہ فشار تھا مری روح میں کہیں جیسے کوئی خدا نہ تھا
فقط ایک چشم جمال نے مرے خیال کو بدل دیا
رہ بے چراغ اجال دی مرے چار ُسو کو بدل دیا
 

شمشاد

لائبریرین
زلفیں ہیں اس کی بھیگی ہوئی رات کی طرح
لہجہ خنک خنک سا ہے برسات کی طرح

بار الم کو میرے اٹھائے گا کیا بھلا
جو شخص خود دکھی ہو میری ذات کی طرح
 

فریب

محفلین
ہر خاکي و نوري پہ حکومت ہے خرد کي
باہر نہيں کچھ عقل خدا داد کي زد سے
عالم ہے غلام اس کے جلال ازلي کا
اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے
 

شمشاد

لائبریرین
فریب اگر شاعر کا نام معلوم ہو تو وہ بھی لکھ دیا کریں، لطف زیادہ ہو جائے گا۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------

گئی رتوں کا سوگ منایا نہ کرو
بات بدگمانی کی دہرایا نہ کرو

جو چھوڑ گیا لوٹ کے کب آیا ہے
یوں سرِ شام دیئے جلایا نہ کرو
 

فریب

محفلین
شمشاد بھائی بہت سارے شعر میں نے نیٹ سے نوٹ کیے ہیں‌بغیر شاعر کے نام کے اس لیے ایسا ہوتا ہے ورنہ جس کا نام معلوم ہوتا ہے کوشش کرتا ہوں‌کہ ساتھ لکھ دوں

فرض کرو! ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو! یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو! یہ جی کی بپتا، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو! ابھی اور ہو اِتنی، آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کرو! تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو! یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرو! یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پِیت ہماری ہو
فرض کرو! اِس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو

فرض کرو! یہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو! بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایہ ہو

دیکھ مری جاں کہہ گئے باہو، کون دِلوں کی جانے، ہُو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں‌کریں دیوانے، ہُو

جوگی بھی، جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی، جو میٹھی بولی بول کے مَن کو ہرتے ہیں
بنجارے، جو اُونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

اُن میں سُچے موتی بھی ہیں، اُن میں‌کنکر پتھر بھی
اُن میں اتھلے پانی بھی ہیں، اُن میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا، سب کا جھوٹا سچا، ہُو
ڈوبنے والی ڈوب گئی، وہ گھڑا تھا جس کا کچا، ہُو
 

شمشاد

لائبریرین
ہوا جو چاہے تو پربت اکھیڑ دیتی ہے
زمیں سے پیڑوں کے ٹانکے ادھیڑ دیتی ہے

میں چپ کراتا ہوں ہو شب اُمڈتی بارش کو
مگر یہ روز نئی بات چھیڑ دیتی ہے
(گلزار)
 

فریب

محفلین
اور تو کچھ یاد نہیں ہے بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی
اس نے پوچھا
افتخار یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو
اب اسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں اور ادھوری کہانیاں
اور ادھورے خواب
یہی تو شاعر کا سرمایہ ہوتے ہیں
پورے ہو جائیں تو دل اندر سے خالی ہو جاتا ہے
پھر دھوپ ہی دھوپ میں اتنی برف پڑی کہ بہت اونچا
اڑنے والے پرندے کے پر اس کا تابوت بن گئے
اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آئی تھی
افتخار عارف
 

ظفری

لائبریرین

تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیئے
اور اپنی موت بھی آئے تو بس اُسی کے لیئے

جوازِ ترکِ تعلق تو کچھ نہ تھا ، پھر بھی
بچھڑ گیا ہوں میں تُجھ سے تری خوشی کے لیئے

کُھلا یہ بھید بھی ، لکین تجھے گنوا کے کُھلا
منافقت بھی ضروری تھی دوستی کے لیئے

وہ بے خبر ہی سہی میرے حال سے یکسر
میں مضطرب ہوں مگر آج بھی اُسی کے لیئے

اگر طلوعِ سحر کا یقین ہو مجھ کو
میں دل کے ساتھ ہی جل جاؤں روشنی کے لیئے

ذرا اُنہیں بھی کبھی دیکھ میرے نبض شناس
عذاب سہتے ہیں ، جیتے ہیں جو کسی کے لیئے

-اعتبار ساجد -​
 

شمشاد

لائبریرین
ہاتھوں میں فقط ہاتھ ہیں، سوغات نہیں ہے
کیا بات کریں بات میں وہ بات نہیں ہے

تھک ہار کر ہر بار محبت کے سہارے
ملنے کو تو ملتے ہیں، ملاقات نہیں ہے
 

شمشاد

لائبریرین
یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات
یاد آ رہے ہیں عشق کے ٹوٹے تعلقات

مایوسیوں کی گود میں دم توڑتا ہے عشق
اب بھی کوئی بنا لے تو بگڑی نہیں ہے بات
 

شمشاد

لائبریرین
مکمل نظم

نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر

لفظ کاغذ‌ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح

کب سے بیٹھا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا

بس ترا نام ہی مکمل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہو گی
(گلزار)
 

سارا

محفلین
یونہی زندگی گزار دی
ہم نے وصل کی چاہ میں
فراق کے زنداں میں
رتجگوں کے عزاب جھیلے
صہرائے آبلہ پاء میں
تمہاری یاد کے عوض
اپنی ہر سانس وار دی
ہم نے وصل کی چاہ میں
یونہی زندگی گزار دی
سدا حق رہی بے کلی
سدا پریشاں رہے
کچھ بھی حاصل نہ ہوا
سدا تہی داماں رہے
شکست پر کھائی شکست
اسی وصل کی چاہ میں
بلآخر جاں ہار دی
ہم نے وصل کی چاہ میں
یونہی زندگی گزار دی
فراق کے زنداں میں۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
اے میرے رب پاک
شبِ برات کی گھڑیوں میں
جب تیرے فرشتے
چاند جیسی اجلی کتاب میں
سونے کی قلم اٹھائیں
اور ہمارا نصیب لکھنے آئیں
تو تُو ان سے کہنا کہ۔۔۔
جب زمین پر بسنے والی
اس پاگل لڑکی کی باری آئے
تو اس کے حصے کے سارے سُکھ
اس کے سوئے ہوئے محبوب کے
تکیے کے نیچے رکھ دینا
کہ یہ لڑکی بھیگی پلکیں لیے
ساری رات اس کے لیے دُعا کرتی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
فریب بھائی،
فرض کرو! ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو! یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
یہ نظم ابنٍ انشاء کی ہے۔
بےبی ہاتھی
 

سارا

محفلین
میں نے گل کی‘ تاروں کی ‘چاند کی بات کی
اس انجمن میں سب کا گماں آپ پر گیا۔۔
 
اتنے واضح اشارے دے دیے تھے شک تو ہونا تھا لوگوں کو :lol:

ہر ظلم ہے ترا یاد مجھے بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں کوئی تجھ سا تو نہیں ہوں
 

سارا

محفلین
:D
اگرچہ شہر میں ہے اپنی شناسائی بہت
پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساسِ تنہائی بہت

اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں
ہم نے کر کے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت۔۔
 

ظفری

لائبریرین

ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
ایک طرف مورچے تھے پلکوں کے
ایک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے
تھیں حسرتیں سجی دُکھوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے
آج ذہن و دل بھوکوں مرتے ہیں
اُن دنوں فاقے بھی ہم نے جھیلے تھے
خود کشی کیا غموں کا حل بنتی
موت کے بھی اپنے سو جھمیلے تھے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top