شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
مجھے پیار کرنے والی تجھے مجھ سے پیار کیوں ہے
مری یاد میں تُو ہر دم یونہی بیقرار کیوں ہے
تیرا رنگ زرد کیوں ہے تیرا حال زار کیوں ہے
تجھے اضطرار کیوں ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اتنی مدت بعد ملے ہو، کن سوچوں میں گُم پھرتے ہو
اتنے خائف کیوں رہتے ہو، ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو

تیز ہوا نے پوچھا، مجھ سے ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو
کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے، رات گئے تک کیوں جگتے ہو
(محسن نقوی)
 

ماوراء

محفلین
~~
اپنا ہی تھا قصور جو طوفاں میں گھِر گئے
اک موج تھی کہ جس کو کنارا سمجھ لیا
~~​
 

شمشاد

لائبریرین
نظر اُٹھاؤں میں جس طرف بھی میرے سائے ہیں ظلمتوں کے
یہ کیا میرے نصیب کے ماہتاب سارے جھلس گئے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
آتی ہے چاہتوں کی کہانی پہ اب ہنسی
تجھ سے بچھڑ کے سوچ کے رُخ بھی بدل گئے

اب تم کو دیکھ کر بھی دھڑکتا نہیں ہے دل
تم وہ نہیں رہے کہ مرے دکھ بدل گئے
 

شمشاد

لائبریرین
شاخِ مژگانِ محبت پہ سجا لے مجھ کو
برگِ آوارہ ہوں، صر صر سے بچا لے مجھ کو

رات بھر چاند کی ٹھنڈک میں سلگتا ہے بدن
کوئی تنہائی کی دوزخ سے نکالے مجھ کو
 

شمشاد

لائبریرین
وقت کتنا گزر گیا جاناں
تیری زلفوں کی چھاؤں کو چھوئے
ہاں مگر پھر بھی بے خیالی میں
جب کبھی تیرا نام لکھتا ہوں
انگلیاں کانپ کانپ جاتی ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
بے ترتیبی میں ترتیب ڈھونڈتے ہیں
جینے کی کوئی ترکیب ڈھونڈتے ہیں

اُن سے بے وفائی کا گلہ کوئی نہیں ہے
ہم تو فقط اپنا رقیب ڈھونڈتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
اچھے ہیں یا برے ہیں بڑے نایاب ہیں ہم
کوئی ہم سا اگر ہے تو ذرا ڈھونڈ کے لاؤ
 

شمشاد

لائبریرین
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے بہت
میرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ، ایک تم بھی سہی
اب اتنی سی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
 

شمشاد

لائبریرین
یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شفاء کہتے ہیں
 

ظفری

لائبریرین

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو مرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کے سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا​
 

شمشاد

لائبریرین
ہمیں جنگل جنگل بھٹکا دو
ہمیں سولی سولی لٹکا دو
جو جی سے چاہے یار کرو
ہم پڑ جو گئے تیری راہ پیا
میرا شام سلونا شاہ پیا

کہیں روح میں پیاس پکارے گی
کہیں آنکھ میں آس پکارے گی
کہیں خون، کہیں دل بولے گا
کبھی آنا مقتل گاہ میں پیا
میرا شام سلونا شاہ پیا
 

ماوراء

محفلین

~~
آنکھیں کھلیں توجاگ اٹھی حسرتیں تمام
اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں
~~​
 

قیصرانی

لائبریرین
کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا،
رہا دل کہاں ،کبھی کھوجنا
کبھی اُڑتے پنچھی دبوچنا،
کبھی خود کھرنڈ کو نوچنا
کبھی جب شفق میں ہنسی کھلے،
کسی نین جھیل میں ،خوں ملے
تو اداس چاند کو ،دیکھنا،
کوئی رخ اکیلےہی ڈھونڈنا
یہ رُتیں جو دھیرےسےچھوتی ہیں
ہمیں، خوشبوئوں سےبھگوتی ہیں
یہ رُتیں نہ پھر کبھی آئیں گی ،
یہ جوروٹھ روٹھ کےجائیں گی
یہ رُتیں انوکھا سرور ہیں
کہ یہ پاس ہو کےبھی دور ہیں
انھیں تم دُعاؤں میں ڈھلنےدو،
انہیں آسمان کو، چلنےدو
ُسنوہوک جب کسی کونج میں
اِنھیں سرد، ہواؤں کی گونج میں
تو اداس چاند کو، دیکھنا
کبھی تم بھی،ہم کو ہی سوچنا۔۔۔!!!
فرزانہ نیناں
بےبی ہاتھی
 

قیصرانی

لائبریرین
میری بہت ہی پسندیدہ نظموں میں سے ایک
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنےپیکر کی سبز رت پر ،بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سےتاریک خواب بنتی
تو میں اذیت کی ملگجی انگنت اداسی کےرنگ چنتی
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
میں اپنےپلو میں سوگ باندھے، کسی کو ان کا پتہ نہ دیتی
اجالےکو ٹھوکروں میں رکھتی، خموشیوں کےببول چنتی
سماعتوں کےتمام افسون، پاش کرتی، میں کچھ نہ سنتی
دہکتی کرنوں کا جھرناہوتی
سفر کےہر ایک مرحلے پر، میں رہزنوں کی طرح مکرتی
وہم اگاتی،گمان رکھتی
تمہاری ساری وجاہتوں کو میں سو طرح، پارہ پارہ کرتی
نہ تم کو یوں آئینہ بناتی
اگر میں پتھر کی لڑکی ہو تی۔۔۔!!!
فرزانہ نیناں
بےبی ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
سوچتا ہوں میں کسی طور بھلا دوں تجھ کو
اپنی یادوں سے کسی روز مٹا دوں تجھ کو
 

قیصرانی

لائبریرین
مثالِ رفتگاں ، جاتے ہوئے مہکے ہوئے لمحے
خزاں کےزرد پتوں کے لئے ہی قرض لےآؤ
مسلسل جو اُداسی پر اداسی،
یوں برستی ہے
کہیں مرجھا نہ دے، سرسبز اس شاخِ محبت کو
تعلق کی بھی میری جان ، اک میعاد ہوتی ہے
پھر اس کےبعد،
ہر بندھن سےجان آزاد ہوتی ہے
فرزانہ نیناں
بےبی ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
یاد

کبھی کبھی کوئی یاد
کوئی بہت پرانی یاد
دل کے دروازے پر
ایسے دستک دیتی ہے
شام کو جیسے تارا نکلے
صبح کو جیسے پھول
جیسے دھیرے دھیرے زمیں پر
روشنیوں کا نزول
جیسے روح کی پیاس بجھائے
اترے کوئی رسول
جیسے روتے روتے اچانک
ہنس دے کوئی ملول

کبھی کبھی کوئی یاد، کوئی بہت پرانی یاد
دل کے دروازے پر، ایسے دستک دیتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
انجانی لڑکی

خوابوں کی دہلیز پہ بیٹھی
آس کا دیپ ہاتھوں میں تھامے
جانے وہ کب سے سلگ رہی ہے

وقت کا دیمک چاٹ رہا ہے
آس کے سارے خوابوں کو
تیز ہوا کی زد سے کب تک
آس کے دیپ بچائے گی

اک دن وہ انجانی لڑکی
خود ہی لوٹ جائے گی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top