جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اُسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا
وہ بندہ ، جس کو عرفاں اپنا حاصل ہو نہیں سکتا
کبھی خاصانِ حق کی صف میں شامل ہو نہیں سکتا
زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں
کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا
محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے
یہاں جو عقل دوڑائے، وہ عاقل ہو نہیں سکتا
پہنچتے ہیں، پہنچنے والے اُس کوچے میں مر مر کر
کوئی جنّت میں قبل از مرگ داخل ہو نہیں سکتا
نہیں جب اذنِ سجدہ ہی تو یہ تسلیم کیونکر ہو
مرا سر تیرے سنگ ِدر کے قابل ہو نہیں سکتا
مرا دل اور تم کو بھول جائے ، غیر ممکن ہے
تمہاری یاد سے دم بھر یہ غافل ہو نہیں سکتا
مرا ایمان ہے اُن پر ، مجھے اُن سے محبت ہے
مرا جذبہ ، مرا ایمان ، باطل ہو نہیں سکتا
نزاکت کے سبب خنجر اُٹھانا بار ہو جس کو
وہ قاتل بن نہیں سکتا، وہ قاتل ہو نہیں سکتا
مرے داغِ تمنّا کا ذرا سا عکس ہے ، شاید
کسی کے عارضِ دلکش پہ یہ تِل ہو نہیں سکتا
نہ ہو وارفتہ جو اُس جانِ خوبی پر دل و جاں سے
وہ عاشق بن نہیں سکتا ، وہ عاشق ہو نہیں سکتا
ہمیں منظور مر جانا ، اگر اُن کا اِشارہ ہو
یہ کام آسان ہو سکتا ہے، مشکل ہو نہیں سکتا
جو رونق آج ہے ، وہ آج ہے ، کل ہو نہیں سکتی
ہمارے بعد پھر یہ رنگِ محفل ہو نہیں سکتا
نصیر اب کھیلنا ہے بحرِ غم کے تیز دھارے سے
سفینہ زیست کا ممنونِ ساحل ہو نہیں سکتا
از پیر سیّد نصیر الدین نصیر