شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

جو شجر سُوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیغمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو

جس کو جانا ہی نہیں اُس کو خدا کہوں میں
اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو

دُور سے دیکھ کر میں نے اُسے پہچان لیا
اُس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا کیسے ہو

وہ بھی ایک دور تھا جب میں نے تجھے چاہا تھا
دل کا دروازہ ہے ، ہر وقت کُھلا کیسے ہو​
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری نے کہا:

جو شجر سُوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیغمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو

جس کو جانا ہی نہیں اُس کو خدا کہوں میں
اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو

دُور سے دیکھ کر میں نے اُسے پہچان لیا
اُس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا کیسے ہو

وہ بھی ایک دور تھا جب میں نے تجھے چاہا تھا
دل کا دروازہ ہے ، ہر وقت کُھلا کیسے ہو​

بہت خوب ظفری بھائی، بہت مزہ آیا پڑھ کے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اُسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا​
وہ بندہ ، جس کو عرفاں اپنا حاصل ہو نہیں سکتا
کبھی خاصانِ حق کی صف میں شامل ہو نہیں سکتا​
زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں
کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا​
محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے
یہاں جو عقل دوڑائے، وہ عاقل ہو نہیں سکتا​
پہنچتے ہیں، پہنچنے والے اُس کوچے میں مر مر کر
کوئی جنّت میں قبل از مرگ داخل ہو نہیں سکتا​
نہیں جب اذنِ سجدہ ہی تو یہ تسلیم کیونکر ہو
مرا سر تیرے سنگ ِدر کے قابل ہو نہیں سکتا​
مرا دل اور تم کو بھول جائے ، غیر ممکن ہے
تمہاری یاد سے دم بھر یہ غافل ہو نہیں سکتا​
مرا ایمان ہے اُن پر ، مجھے اُن سے محبت ہے
مرا جذبہ ، مرا ایمان ، باطل ہو نہیں سکتا​
نزاکت کے سبب خنجر اُٹھانا بار ہو جس کو
وہ قاتل بن نہیں سکتا، وہ قاتل ہو نہیں سکتا​
مرے داغِ تمنّا کا ذرا سا عکس ہے ، شاید
کسی کے عارضِ دلکش پہ یہ تِل ہو نہیں سکتا​
نہ ہو وارفتہ جو اُس جانِ خوبی پر دل و جاں سے
وہ عاشق بن نہیں سکتا ، وہ عاشق ہو نہیں سکتا​
ہمیں منظور مر جانا ، اگر اُن کا اِشارہ ہو
یہ کام آسان ہو سکتا ہے، مشکل ہو نہیں سکتا​
جو رونق آج ہے ، وہ آج ہے ، کل ہو نہیں سکتی
ہمارے بعد پھر یہ رنگِ محفل ہو نہیں سکتا​
نصیر اب کھیلنا ہے بحرِ غم کے تیز دھارے سے
سفینہ زیست کا ممنونِ ساحل ہو نہیں سکتا​
از پیر سیّد نصیر الدین نصیر
 

سارا

محفلین
تمہی کو چاہتے ہیں ہم‘ تمہی سے پیار کرتے ہیں
یہی برسوں سے عادت ہے اور عادت کب بدلتی ہے۔۔

‘ارشد ملک‘
 

سارا

محفلین
کچھ تو ہی مرے کرب کا مفہوم سمجھ لے
ہنستا ہوا چہرہ تو زمانے کے لیے ہے۔۔

‘مظفر وارثی‘
 

سارا

محفلین
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا۔۔

‘جوش‘
 

ظفری

لائبریرین
ابھی تک سادہ رکھا ہے یہ کاغذ اپنی چاہت کا
مناسب جب بھی سمجھیں گے کوئی پیغام لکھ دیں‌گے
کوئی پیغام کیا لکھیں‌گے ایک چھوٹے سے کاغذ پر
جسے ہم چاہتے ہیں بس اُسی کا نام لکھ دیں گے

اعتبار ساجد​
 

فریب

محفلین
جلتا ہوں ہجرِ شاہد و يادِ شراب ميں
شوق ثواب نے مجھے ڈالا عذاب ميں

کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہانِ خراب ميں

بد نام ميرے گر يہ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں

ناکاميوں سے کام رہا عمر بھر ہميں
پري ميں ياس ہے جو ہوس تھي شباب ميں

دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش
وہ ہي خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں

تقدير بھي بري مري تدبير بھي بري
بگڑے وہ پر سشِ سببِ اجتناب ميں

کيا جلوے ياد آئے کہ اپني خبر نہيں
بے بادہ مست ہوں ميں شبِ ماہ تاب میں

پيہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب ميں
 

سارا

محفلین
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
چہرے کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ۔۔

‘شکیب جلالی‘
 

سارا

محفلین
دیکھ غریب شہر نے پردے کے واسطے
گھر کی فصیل اٹھائی ہے کس خستگی کے ساتھ

‘حبیب الرحمان حبیب‘
 

سارا

محفلین
میں نے پلکوں سے دریا پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

‘ساغر صدیقی‘
 

قیصرانی

لائبریرین
سارا نے کہا:
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
چہرے کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ۔۔

‘شکیب جلالی‘
بہت عمدہ،، ابھی چند دن پہلے پروفیسر نے یہی لکھا تھا، ہمیں بہت پسند آیا۔ ابھی آپ نے دوہرایا تو بہت ہی اچھا لگا۔ :)
قیصرانی
 

سارا

محفلین
حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جدا ہونے کا
ورنہ کاجل تری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا۔۔

‘احمد ندیم قاسمی‘
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top