بڑی پُرسکون تھی زندگی
نیا درد کس نے جگا دیا
کسی بے نیاز نگاہ نے
میری وحشتوں کو بڑھا دیا
میرے کم سُخن کا یہ حکم تھا
کہ کلام اُس سے میں کم کروں
میرے ہونٹ ایسے سلے کے پھر
میری چپ نے اُس کو رلا دیا
اُسے شعر سننے کا ذوق تھا
اَسی ذوق و شوق میں اک دن
اُسے دل کا حال سُنا دیا
کسی نام سے کسی یاد سے
میرے دل کی بزم سجی رہی
کبھی یہ چراغ جلا دیا
کبھی وہ چراغ جلا دیا
وہ نگاہ کیسی نگاہ تھی
یہ گریز کیسا گریز ہے
مجھے دیکھ کر بھی نہ دیکھنا
اس ادا نے راز بتا دیا۔۔۔۔۔۔