شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
اسکا الجھا الجھا سا لہجہ
کچھ پياسي پياسي آنکھيں
خشک لبوں کي تھر تھراہٹ
ميري جانب بے اختيار

کبھي بڑھتے کبھي رکتے ہاتھ
نشے ميں چور جسم کو

ميري اوڑ کھينچنا
اپني بانہوں ميں بھر کے
لبوں کو چومنا

تيري اک اک ادا
ميں بھولوں کيسے

جس اور مڑتي ہوں
اک حسين ياد

اپني بانہيں پھيلائے
مجھے پکارتي ہے

اور ميں نہ چاہتے ہوئے بھي
تيري يادوں کي بانہوں ميں

تيرے سنگ
سينے پہ سر رکھ کے

تيري يادوں ميں کھو جاتي ہوں​
 

شمشاد

لائبریرین
دیارِ غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تُو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے

تم ہی نے ہم کو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ہم آسمان ہلا دیتے
 

ظفری

لائبریرین

سمجھتے تھے مگر پھر بھی نہ رکھیں دُوریاں ہم نے
چراغوں کو جلانے میں جلا لیں اُنگلیاں ہم نے​
 

شمشاد

لائبریرین
شبِ وصل کی بیخودی چھا رہی ہے
کہو تو ستاروں کی شمع بجھا دیں

تم افسانہِ عشق کیا پوچھتے ہو
اِدھر آؤ ہم تم کو لیلٰی بنا دیں
(اختر شیرانی)
 

ظفری

لائبریرین
نہ تجھ کو مات ہوئی ہے ، نہ مجھ کو مات ہوئی ہے
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کر دیکھتے ہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
پھر وہی دانستہ ٹھوکر کھائیے
پھر میری آغوش میں گِر جائیے

میری دنیا منتظر ہے آپ کی
اپنی دنیا چھوڑ کر آ جائیے

یہ ہوا ‘ ساغر ‘ یہ ہلکی چاندنی
جی میں آتا ہے یہیں مر جائیے
(ساغر نظامی)
 

شمشاد

لائبریرین
محبت کے موسم
زمانے کے سب موسموں سے نرالے
بہار و خزاں ان کي سب سے جدا
الگ ان کو سوکھا الگ ہے گھٹا
محبت کے خطے کي آب و ہوا
ماورا ان عناصرے سے جو
موسموں کے تغير کي بنياد ہيں
يہ زمان و مکاں کے کم و بيش سے
ايسے آزاد ہيں
جيسے صبح زال۔۔۔جيسے شام فنا
شب وروز عالم کے احکام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
زندگي کي مسافت کے انجام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
رفاقت کي خوشبو سے خالي ہو جو
يہ کوئي ايسا منظر نہيں ديکھتے
وفا کے علاوہ کسي کلام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے​
(امجد اسلام امجد)
 

حجاب

محفلین
بڑی پُرسکون تھی زندگی
نیا درد کس نے جگا دیا
کسی بے نیاز نگاہ نے
میری وحشتوں کو بڑھا دیا
میرے کم سُخن کا یہ حکم تھا
کہ کلام اُس سے میں کم کروں
میرے ہونٹ ایسے سلے کے پھر
میری چپ نے اُس کو رلا دیا
اُسے شعر سننے کا ذوق تھا
اَسی ذوق و شوق میں اک دن
اُسے دل کا حال سُنا دیا
کسی نام سے کسی یاد سے
میرے دل کی بزم سجی رہی
کبھی یہ چراغ جلا دیا
کبھی وہ چراغ جلا دیا
وہ نگاہ کیسی نگاہ تھی
یہ گریز کیسا گریز ہے
مجھے دیکھ کر بھی نہ دیکھنا
اس ادا نے راز بتا دیا۔۔۔۔۔۔
 
خوب حجاب ویسے کچھ یاد ہے یہ کس نے لکھی ہے۔

یونہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے
بچھڑ کر لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
 

تیشہ

محفلین
کبھی یہ چپُ میں کبھی میری بات بات میں تھا
تمھارا عکس میری ساری کائنات میں تھا

ہم اہل ِ عشق بہت بدگمان ہوتے ہیں
اِسی طرح کا کوئی وصف تیری ذات میں تھا ،۔۔
 

حجاب

محفلین
محب علوی نے کہا:
خوب حجاب ویسے کچھ یاد ہے یہ کس نے لکھی ہے۔

یونہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے
بچھڑ کر لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے

یہ خلیل اللہ فاروقی صاحب کی شاعری ہے ان کا مجموعہ آنے والا ہے ۔محبت تو خوش گماں ہے کہ نام سے۔
 
یہ معلومات میں اضافہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ حجاب

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
 

ماوراء

محفلین
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے

بُرا نہ مان مِرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے

ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے

بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے

مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہَوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے

یہ اور بات عدالت ہے بےخبر ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے

اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے

قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہَوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے۔​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top