شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

ستارہ وار چلے پھر بجھادیئے گئے ہم
پھر اس کے بعد نظر سے گرا دیئے گئے ہم

عزیز تھے ہمیں نوواردان کوچہ عشق
سو پیچھے ہٹتے گئے راستہ دیئے گئے ہم

دعائیں یاد کرا دی گئیں تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دیئے گئے ہم

زمینِ فرش گل و لالہ سے سجائی گئی
پھر اس زمیں کی امانت بنا دیئے گئے ہم

شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثالِ مالِ غنیمت لٹا دیئے گئے ہم‌​
 

حجاب

محفلین
دیکھا اُسے تو دل نے کہا شعر کہہ بھی دو
مدت کے بعد مشورہ اچھا لگا مجھے
لہجے میں اعتماد ہنسی میں کھنک بہت
تسخیر کر گئی ہے کسی کی ادا مجھے۔
 

ظفری

لائبریرین

اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر کون میری طرح تجھ کو چاہے گا

تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا

نہ جانے کب تیرے دل پر نئی سی دستک ہو
مکاں خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا

میں اپنی راہ میں دیوار بن کر بیٹھا ہوں
اگر وہ آیا تو کس راستے سے آئے گا

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا​
 

ظفری

لائبریرین
سفر میں ہیں مسلسل ہم کہیں آباد بھی ہونگے
ہوئے ناشاد جو اتنے تو ہم دل شاد بھی ہونگے

زمانے کو برا کہتے نہیں ہم ہی زمانہ ہیں
کہ ہم جو صید لگتے ہیں ہم صیاد بھی ہونگے

بُھلا بیٹھے ہیں وہ ہر بات اس گذرے زمانے کی
مگر قصے اس موسم کے ان کو یاد بھی ہونگے

ہر ایک شے ضد سے قائم ہے جہانِ خوابِ ہستی میں
جہاں پر دشت ہے آثارِ ابر وباد بھی ہونگے

منیر افکار جو تیرے یہاں برباد پھرتے ہیں
کسی آتے سمے کے شہر کی بنیاد بھی ہونگے​
 

سارا

محفلین
میں آدھی رات کو سجدے میں رو رہا تھا جب
وہ کون تھا مجھے جس کی صدا سنائی دی

یہ کم نگاہی میری کہ میرا ذوقِ جمال
ہر اک شے میں مجھے کوئی کمی دکھائی دی۔۔
 

سارا

محفلین
تو جو بدلا بدل گئے ہم بھی
پیار کرتے تھے بندگی تو نہیں

وقت کٹ جائے گا بہر صورت
تو کوئی شرطِ زندگی تو نہیں۔۔
 

حجاب

محفلین
غم کے سنجوگ اچھے لگتے ہیں
مستقل روگ اچھے لگتے ہیں
کوئی وعدہ نہ کر وفا کے مجھے
بے وفا لوگ اچھے لگتے ہیں۔
 

ماوراء

محفلین
کچھ لوگ بھی وہموں میں گرفتار بہت ہیں
کچھ شہر کی گلیاں بھی پُراسرار بہت ہیں

ہے کون اُترتا ہے وہاں جس کے لیے چاند
کہنے کو تو چہرے پسِ دیوار بہت ہیں

ہونٹوں پہ سُلگتے ہُوئے اِنکار پہ مت جا
پلکوں سے پَرے بھیگتے اقرار بہت ہیں

یہ دھوپ کی سازش ہے کہ موسم کی شرارت
سائے ہیں وہاں کم جہاں اشجار بہت ہیں

بے حرفِ طلب ان کو عطا کر کبھی خود سے
وہ یوں کہ سوالی تِرے خُوددار بہت ہیں

تُم مُنصِف و عادل ہی سہی شہر میں لیکن
کیوں خون کے چھینٹے سرِ دستار بہت ہیں

اے ہجر کی بستی تو سلامت رہے لیکن
سُنسان تِرے کوچہ و بازار بہت ہیں

محسن ہمیں ضِد ہے کہ ہو اندازِبیاں اور
ہم لوگ بھی غالب کے طرفدار بہت ہیں​
 

سارا

محفلین
نظر کے سامنے ایک راستہ ضروری ہے
بھٹکتے رہنے کا بھی سلسلہ ضروری ہے

تعلقات کے نا معتبر حوالوں میں
تمام عمر کا اک رابطہ ضروری ہے۔۔
 

حجاب

محفلین
وہی آہٹیں دروبام پر
وہی رتجگوں کے عذاب ہیں
وہی ادھ بُجھی میری نیند ہے
وہی ادھ جلے میرے خواب ہیں
میرے سامنے یہ جو خواہشوں کی ہے دھند حدَ نگاہ تک
پرے اُس کے جانے حقیقتیں کہ حقیقتوں کے سارب ہیں
مری دسترس میں کبھی تو ہوں
جو ہیں گھڑیاں کیف و نشاط کی
ہے یہ کیا کہ آئیں کبھی ادھر
تو لگے پابہ رکاب ہیں
کبھی چاہا جو خود کو سمیٹنا
تو بکھر کے اور بھی رہ گئے
ہیں جو کرچی کرچی پڑے ہوئے میرے سامنے
میرے خواب ہیں۔
 

سارا

محفلین
پوچھ اس قطرے سے کہ لذتِ طوفان کیا ہے
لاکھ طوفانوں سے گزرا جو گُہر ہونے تک

ہم نے مانا کہ مقبول دعائیں ہوں گی
ہم کہاں ہوں گے دعاؤں کا اثر ہونے تک۔۔
 

ماوراء

محفلین


روز و شب کا یہ سلسلہ ہے کیا
تجھ سے ملنا بھی حادثہ ہے کیا

عکس کیوں ایک سا نہیں رہتا
وقت کیا اور آئینہ ہے کیا

دیکھتا ہوں جب اپنی تحریریں
سوچتا ہوں کہ یہ لکھاہے کیا

بے طرح یاد آرہا ہوں کیوں
اس نے مجھ کو بھلا دیا ہے کیا

زندگی موت کا سوال ہے اب
دیکھئے اس کا مشورہ ہے کیا

کتنے رنگوں کے پھول کھِلتے ہیں
زرد مٹی میں یہ ملا ہے کیا

آئیے ہم بھی آج کھو جائیں
دیکھئے وہ بھی ڈھونڈتا ہے کیا​
 

قیصرانی

لائبریرین
ظفری نے کہا:
ستارہ وار چلے پھر بجھادیئے گئے ہم
پھر اس کے بعد نظر سے گرا دیئے گئے ہم

عزیز تھے ہمیں نوواردان کوچہ عشق
سو پیچھے ہٹتے گئے راستہ دیئے گئے ہم

دعائیں یاد کرا دی گئیں تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دیئے گئے ہم

زمینِ فرش گل و لالہ سے سجائی گئی
پھر اس زمیں کی امانت بنا دیئے گئے ہم

شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثالِ مالِ غنیمت لٹا دیئے گئے ہم‌​
پہلے میں سمجھا کہ یہ سٹار وارز کا ذکر ہو رہا ہے پھر پوری بات سمجھ میں آئی :)
قیصرانی
 

ظفری

لائبریرین

میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں


میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں
وہی گاتی ہوئی آنکھیں وہی اندازِ کلام
وہی گُلنار تبسّم سے مہکتا چہرہ
وہی خوش رنگ خرام،
نرم لہجے میں ترنّم کی وہی گُل کاری
جیسے وہ کل کی گئی آج چلی آئی ہو
جیسے سب جاگ کے کاٹی ہوئی کالی راتیں
سرد کمرے میں ٹھٹھرتی ہوئی سوچیں، یادیں
رات بھر روئی ہوئی آنکھ سے بھیگے تکیے
اور تالو سے چمٹے ہوئے کڑوے لمحے،
( میرے بہکے ہوئے خوابوں کے تراشید تھے ! )
میں نے سوچا تھا گزرتے ہوئے کڑوے لمحے
اس کے تالو سے بھی چمٹے ہونگے !
اُس کے تکیوں پہ بھی میری یادیں
اشک بن بن کہ ٹپکتی ہونگی !
سرد راتوں میں سمِ تنہائی
اس کی نیندوں کو بھی کھاتا ہوگا !
اس کی آنکھوں میں مگر درد کا سایہ بھی نہ تھا
( جیسے وہ گزرے ہوئے وقت سے گزری ہی نہ تھی )
جیسے اُس نے مجھے چاہا بھی نہ تھا

مجھ کو یوں سامنے پا کر وہ ہراساں نہ ہوئی
میرے بےربط سوالوں سے پریشاں نہ ہوئی
اپنے مانس تبسّم میں ترنم بھر کر
مجھ سے چلتے ہوئے بولی " ہیلو
شاعرِ وقت کہو، کیسے ہو "
میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں​
 

ماوراء

محفلین
قیصرانی نے کہا:
ظفری نے کہا:
ستارہ وار چلے پھر بجھادیئے گئے ہم
پھر اس کے بعد نظر سے گرا دیئے گئے ہم

عزیز تھے ہمیں نوواردان کوچہ عشق
سو پیچھے ہٹتے گئے راستہ دیئے گئے ہم

دعائیں یاد کرا دی گئیں تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دیئے گئے ہم

زمینِ فرش گل و لالہ سے سجائی گئی
پھر اس زمیں کی امانت بنا دیئے گئے ہم

شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثالِ مالِ غنیمت لٹا دیئے گئے ہم‌​
پہلے میں سمجھا کہ یہ سٹار وارز کا ذکر ہو رہا ہے پھر پوری بات سمجھ میں آئی :)
قیصرانی

پوری بات کیا سمجھ میں آئی ہے؟؟ :D
 

ماوراء

محفلین

جُز گماں اور تھا ہی کیا میرا
فقط اک میرا نام تھا میرا

نکہتِ پیرہن سے اُس گُل کی
سلسلہ بے صبا رہا میرا

مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈھنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا

تھوک دے خون جان لے وہ اگر
عالمِ ترکِ مُدعا میرا

جب تجھے میری چاہ تھی جاناں!
بس وہی وقت تھا کڑا میرا

کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا
اتنا آسان ہے پتا میرا

آ چکا پیش وہ مروّت سے
اب چلوں کام ہو چکا میرا

آج میں خود سے ہو گیا مایوس
آج اِک یار مر گیا میرا



جون ایلیا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top