شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارا

محفلین
آئیے ہاتھ اٹھائیں‘ ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دُعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بُت کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہر امروز میں شرینی فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باری ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب وروز کو ہلکا کر دے

‘فیض احمد فیض‘
 

سارا

محفلین
شکستہ پاراہ میں کھڑا ہوں‘گئے دنوں کو پکارتا ہوں
جو قافلہ ہم سفر تھا میرا‘ مثالِ گردِ سفر گیا وہ۔۔
 

ماوراء

محفلین

تجھے خبر ہے،تجھے سوچنے کی خاطر ہم
بہت سے کام مقدّر پہ ٹال رکھتے ہیں
تمہارے بعد یہ عادت سی ہو گئی اپنی
بکھرے پتّے سنبھال رکھتے ہیں
 

ماوراء

محفلین


کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

تم اُن میں سے ہو جو یاں فتحمند ٹھہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی



جون ایلیا
 

شمشاد

لائبریرین
غنچے تري زندگي پہ دل ہلتا ہے
بس ايک تبسم کے لئے کھلتا ہے
غنچے نے کہا کہ اس چمن ميں بابا
يہ ايک تبسم بھي کسے ملتا ہے
(جوش)
 

تیشہ

محفلین
میں نے فکر میں کاٹیں کئی راتیں ،کئی دن
میرے شعروں میں تیرا نام نہ آئے لیکن !
جب تیری سانسیں میری سانسوں میں رس گھولتیں ہیں

شاعری سچ بولتی ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
خزاں کے چاند نے پوچھا يہ جھک کے کھڑکي میں
کبھي چراغ بھي جلتا ہے اس حويلي میں

يہ آدمي ہیں کہ سائے ہیں آدميت کے
گزر ہوا ہے میرا کس اجاڑ بستي میں

جھکي چٹان پھسلتي گرفت جھولتا جسم
میں اب گرا ہي گرا تنگ و تار گھاٹي میں

زمانے بھر سے نرالي ہے آپ کي منطق
ندي کو پار کيا کس نے الٹی کشتي میں

جلائےکيوں اگر اتنے ہي قيمتي تھے خطوط
کريدتے ہو عبث راکھ اب انگيٹھي میں

عجب نہیں جو اُگیں ياں درخت پاني کے
کہ آشک بوئے ہیں شب بھر کسي نہ دھرتي میں
(شکیب جلالی)
 

شمشاد

لائبریرین
خموشي بول اٹھے، ہر نظر پيغام ہوجائے
يہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہوجائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھ بھي ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہوجائے

میں وہ آدم گزيدہ ہوں جو تنہائي کے صحرا میں
خود اپني چاپ سن کر لرز براندام ہوجائے

مشال ايسي ہے اس دور خرد کے ہوش مندوں کي
نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہوجائے

شکيب اپنے تعارف کيلئے يہ بات کافي ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو راستہ عام ہوجائے
(شکيب جلالی)
 

شمشاد

لائبریرین
تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے

ترچھے ترچھے تِیر نظر کے لگتے ہیں
سیدھا سیدھا دل پہ نشانہ لگتا ہے

آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے اک زمانہ لگتا ہے

سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے
ہنستا چہرہ اک بہانہ لگتا ہے
(کیف بھوپالی)
 
ماوراء نے کہا:


کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

تم اُن میں سے ہو جو یاں فتحمند ٹھہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی



جون ایلیا

اتنے اچھے شعر اس رنگ میں پیش کیے ہیں کہ کوئی پڑھ نہ سکے۔ :lol:
 

شمشاد

لائبریرین
بول سکھي دل نے کس پل اکسايا ہوگا؟
پگلي جس پل اس کا درشن پايا ہوگا

بول سکھي، کيوں چندا مجھ کو تانکے جھانکے؟
پگلي اس کو آخر کچھ تو بھايا ہوگا

بول سکھي نينوں سے نيند چراني کس نے؟
پگلي وصل کا جس نے خواب دکھايا ہوگا

بول سکھي وہ روٹھا روٹھا کيوں لاگے ہے؟
پگلي بيري لوگوں نے سکھلايا ہوگا

بول سکھي کیوں منوا جل کر طور بنا ہے؟
پگلي پريتم نے جلوہ دکھلايا ہوگا

بول سکھي کيوں سرخ گلاب کسي نے بھيجا؟
پگلي پيت کا سنديسہ بھجوايا ہوگا

بول سکھي يہ تن من کس کي بھينٹ چڑھاؤں؟
پگلي جس کے کارن جيون پايا ہوگا

بول سکھي نٹ کھٹ سکھياں کيوں چھيڑيں مجھ کو؟
پگلي تو نے بھيد انہيں بتلايا ہوگا

بول سکھي منڈير پہ کاگا کيوں بولے ہے؟
پگلي تيرے در پر جوگي آيا ہوگا

بول سکھي وہ بن ٹھن کر کيوں نکلا گھر سے؟
پگلي بيرن سوتن نے بلوايا ہوگا
(فاخرہ بتول)
 

ماوراء

محفلین
سرِ صحرا حباب بیچے ہیں
لَبِ دریا سراب بیچے ہیں

اور تو کیا تھا بیچنے کے لیے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

خود سوال ان لبوں سے کرکے میاں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں

زُلف کوچوں میں شانہ کش نے ترے
کتنے ہی پیچ و تاپ بیچے ہیں

شہر میں خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں

جانِ مَن تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں

میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں​
 

ماوراء

محفلین
اداسی کم نہیں‌ہوتی



اداسی تیرگی ہوتی تو شاید
اٍک دیا آباد کرنے سے ہی چھٹ جاتی
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی راستہ ہوتی
تو اسکو اپنے پیروں سے گنا کرتے
کہیں‌تو جا کے گنتی ختم ہوجاتی
مگر ایسا نہیں‌ ہے
اداسی پیڑ ہوتی تو
ہم اسکے سارے بازو کاٹ کے معذور کر دیتے
زمیں سے اس کا سایہ دور کر دیتے
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی سال ہی ہوتی
تو ہم خود کو یہ سمجھاتے
کہ دیکھو تین سو پینسٹھ دنوں کی بات ہے ساری
اداسی پھر نہیں ہوگی
مگر ایسا نہیں‌ہے
اداسی دائرہ ہوتی
تو ہم اس سے کسی تسنیخ کے خط کی طرح باہر نکل جاتے
کوئی تو ایسا لمحہ مل ہی جاتا
ہم سنبھل جاتے
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی تو اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یہاں‌ جتنی بھی بارش ہو
یہ مٹی نم نہیں‌ ہوتی
اداسی کم نہیں‌ ہوتی!​
 

شمشاد

لائبریرین
تیرے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تُو کس خیال میں ہے اے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

پکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

راہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تیری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

پھر اس کی یاد میں دل بیقرار ہے ‘ ناصر ‘
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
(ناصر کاظمی)
 

شمشاد

لائبریرین
تو پھر ان میں رنگ کب اور کیسے بھرے جائیں گے؟
(کچھ نظر تو آئے، عینک لگا کر اور دماغ پر زور دے کر پڑھنا پڑھتا ہے)
 

ماوراء

محفلین
رنگ ختم ہو گئے ہیں نہ۔ اب خریدوں گی تو تب ہی شاید کچھ پھیکا پن دور ہو گا۔ :(

اگر کسی نے پڑھنا ہے تو کاپی کر کہیں اور لے جا کر پڑھ لے نہ۔ عینک اور دماغ کا کچھ تو خیال کریں۔ :(
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top