یہ زندگی
آج جو تمہارے
بدن کی چھوٹی بڑی نسوں میں
مچل رہی ہے
تمہارے پیروں سے چل رہی ہے
تمہاری آواز میں گلے سے نکل رہی ہے
تمہارے لفظوں میں ڈھل رہی ہے
یہ زندگی
جانے کتنی صدیوں سے
یوں ہی شکلیں بدل رہی ہے
بدلتی شکلوں
بدلتے جسموں میں
چلتے پھرتے یہ اک سہارا
جو اس گھڑی
نام ہے تمہارا
اسی سے ساری چہل پہل ہے
اسی سے روشن ہے ہر نظارہ
ستارے توڑو یا گھر بساؤ
قلم اٹھاؤ یا سر جھکاؤ
تمہاری آنکھوں کی روشنی تک
ہے کھیل سارا
یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ
یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ
(ندا فاضلی)