مجھ سے مخلص تھا نہ واقف مرے جذبات سے تھا
اسکا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا ۔ ۔ ۔
اب جو بچھڑا ہے تو کیا روئیں جدائی پہ تیری ۔ ۔
یہ اندیشہ تو ہمیں پہلی ملاقات سے تھا ۔ ۔
دل کے بجھنے کا ہواؤں سے گلہ کیا کرنا ؟
یہ دیا نزع کے عالم میں تو کل رات سے تھا ۔ ۔
لب کشائی پہ کھلا اسکے سخن کا افلاس
کتنا آراستہ وہ اطلس و با نات سے تھا ۔ ۔ ۔