بکھرتا پُھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا
بکھرنے اور بھٹکنے کے لیئے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہوتو ہمسفر اچھا نہیں لگتا
میں اُس کو سوچتا کیوں ہوں اگر ندرت نہیں اُس میں
میں اس کو دیکھتا کیوں ہوں اگر اچھا نہیں لگتا
اسی باعث میں تیری یاد میں مصروف رہتا ہوں
مجھے بے دھیان رہنے کا ہنر اچھا نہیں لگتا
کسی صورت تعلق کی مسافت طے تو کرنی ہے
مجھے معلوم ہے تجھ کو سفر اچھا نہیں لگتا
میرا دُکھ باٹنے والے بہت احباب ہیں میرے
رکھوں میں ساتھ کوئی نوحہ گر اچھا نہیں لگتا
ہزار آوارگی ہو ، بے ٹھکانہ زندگی کیا ہے
وہ انساں ہی نہیں جس کو گھر اچھا نہیں لگتا
نئی تخلیق سے باقی ہے جہاں میں حُسن سارا
شجر چاہے کوئی بھی ہو بے ثمر اچھا نہیں لگتا
وہ چاہے فصل پک جانے پہ سارے کھیت چک جائیں
پرندوں کو کروں بےبال و پر اچھا نہیں لگتا
ستم جو ہورہا ہے درحقیقت وہ خدا جانے
مگر کوئی سرے سے بے خبر اچھا نہیں لگتا
وہ ایک اسمِ مبارک دل پہ لکھنا چاہیئے جس کو
وہ پیشانی پہ لکھ تو لوں مگر اچھا نہیں لگتا
وسیلہ راستے کا چھوڑ کر منزل نہیں ملتی
خدا اچھا لگے کیا ، جب بشر اچھا نہیں لگتا