شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
شکریہ ظفری، وہ کیا ہے کہ شعر ذہن میں بیٹھ نہیں رہا تھا اس لیے آپ سے پوچھنا پڑا اور آپ سے پہلے محب نے تصحیح کر دی۔

(کچھ زیادہ ہی نہیں غلطیاں کرنا شروع کر دیں، اس دن بھی محب نے آپ کو بال بال بچایا ورنہ آپ نے تو مغلیہ جاہ و جلال کو للکار ہی دیا تھا۔)
 

ظفری

لائبریرین

وہ کیوں نہ رُوٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا ، بہت وفا کی تھی

سُنا ہے ان دنوں ہم رنگ ہیں بہار اور آگ
یہ آگ پھول ہو میں نے بہت دُعا کی تھی

نہیں تھا قُرب میں بھی کچھ مگر یہ دل ، میرا دل
مجھے نہ چھوڑ ، بہت میں نے التجا کی تھی

سفر میں کشمکش مرگ و زیست کے دوران
نجانے کس نے مجھے زندگی عطا کی تھی

سمجھ سکا نہ کوئی بھی میری ضرورت کو
یہ اور بات کہ ایک خلق اشترا کی تھی

یہ ابتداء تھی کہ میں نے اُسے پکارا تھا
وہ آگیا تھا ظفر اُس نے انتہا کی تھی​
 

ظفری

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
شکریہ ظفری، وہ کیا ہے کہ شعر ذہن میں بیٹھ نہیں رہا تھا اس لیے آپ سے پوچھنا پڑا اور آپ سے پہلے محب نے تصحیح کر دی۔

(کچھ زیادہ ہی نہیں غلطیاں کرنا شروع کر دیں، اس دن بھی محب نے آپ کو بال بال بچایا ورنہ آپ نے تو مغلیہ جاہ و جلال کو للکار ہی دیا تھا۔)

وہ کیا ہے شمشاد بھائی کہ جب میں جاب پر ہوتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ جلدی سے پوسٹ کردوں ورنہ یہ گورے تانک جھانک کرتے ہیں کہ یہ “ عربی“ میں کیا لکھ رہا ہے ۔ حساس ادارے میں کام کرنے کی وجہ سے اُن لوگوں کی قدامت پسندی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔ اس لیئے کبھی کبھی جلدی میں غلطی ہو جاتی ہے ۔
ویسے بہادر شاہ ظفر نے اُس غلطی کے فوراً بعد ہی خواب میں آکر آخری وارننگ دے دی تھی کہ آئندہ اگر ایسی غلطی کی وہ مجھے بھی رنگون میں قید کروا دیں گے ۔
:wink:
 

ظفری

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
بہت ہی زبردست شاعری ہے ظفری بھائی، بہت مزہ آیا پڑھ کے۔
شکریہ شمشاد بھائی ۔۔ اب یہ سُنیئے ۔
---------------------------------------------------------------------------

بکھرتا پُھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا

بکھرنے اور بھٹکنے کے لیئے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہوتو ہمسفر اچھا نہیں لگتا

میں اُس کو سوچتا کیوں ہوں اگر ندرت نہیں اُس میں
میں اس کو دیکھتا کیوں ہوں اگر اچھا نہیں لگتا

اسی باعث میں تیری یاد میں مصروف رہتا ہوں
مجھے بے دھیان رہنے کا ہنر اچھا نہیں لگتا

کسی صورت تعلق کی مسافت طے تو کرنی ہے
مجھے معلوم ہے تجھ کو سفر اچھا نہیں لگتا

میرا دُکھ باٹنے والے بہت احباب ہیں میرے
رکھوں میں ساتھ کوئی نوحہ گر اچھا نہیں لگتا

ہزار آوارگی ہو ، بے ٹھکانہ زندگی کیا ہے
وہ انساں ہی نہیں جس کو گھر اچھا نہیں لگتا

نئی تخلیق سے باقی ہے جہاں میں حُسن سارا
شجر چاہے کوئی بھی ہو بے ثمر اچھا نہیں لگتا

وہ چاہے فصل پک جانے پہ سارے کھیت چک جائیں
پرندوں کو کروں بےبال و پر اچھا نہیں لگتا

ستم جو ہورہا ہے درحقیقت وہ خدا جانے
مگر کوئی سرے سے بے خبر اچھا نہیں لگتا

وہ ایک اسمِ مبارک دل پہ لکھنا چاہیئے جس کو
وہ پیشانی پہ لکھ تو لوں مگر اچھا نہیں لگتا

وسیلہ راستے کا چھوڑ کر منزل نہیں ملتی
خدا اچھا لگے کیا ، جب بشر اچھا نہیں لگتا​
 

ماوراء

محفلین
ظفری نے کہا:
بکھرتا پُھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا

بکھرنے اور بھٹکنے کے لیئے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہوتو ہمسفر اچھا نہیں لگتا

میں اُس کو سوچتا کیوں ہوں اگر ندرت نہیں اُس میں
میں اس کو دیکھتا کیوں ہوں اگر اچھا نہیں لگتا

اسی باعث میں تیری یاد میں مصروف رہتا ہوں
مجھے بے دھیان رہنے کا ہنر اچھا نہیں لگتا

کسی صورت تعلق کی مسافت طے تو کرنی ہے
مجھے معلوم ہے تجھ کو سفر اچھا نہیں لگتا

میرا دُکھ باٹنے والے بہت احباب ہیں میرے
رکھوں میں ساتھ کوئی نوحہ گر اچھا نہیں لگتا

ہزار آوارگی ہو ، بے ٹھکانہ زندگی کیا ہے
وہ انساں ہی نہیں جس کو گھر اچھا نہیں لگتا

نئی تخلیق سے باقی ہے جہاں میں حُسن سارا
شجر چاہے کوئی بھی ہو بے ثمر اچھا نہیں لگتا

وہ چاہے فصل پک جانے پہ سارے کھیت چک جائیں
پرندوں کو کروں بےبال و پر اچھا نہیں لگتا

ستم جو ہورہا ہے درحقیقت وہ خدا جانے
مگر کوئی سرے سے بے خبر اچھا نہیں لگتا

وہ ایک اسمِ مبارک دل پہ لکھنا چاہیئے جس کو
وہ پیشانی پہ لکھ تو لوں مگر اچھا نہیں لگتا

وسیلہ راستے کا چھوڑ کر منزل نہیں ملتی
خدا اچھا لگے کیا ، جب بشر اچھا نہیں لگتا​

بہت خوب ظفری۔
 

سارہ خان

محفلین
ظفری نے کہا:

وہ کیوں نہ رُوٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا ، بہت وفا کی تھی

سُنا ہے ان دنوں ہم رنگ ہیں بہار اور آگ
یہ آگ پھول ہو میں نے بہت دُعا کی تھی

نہیں تھا قُرب میں بھی کچھ مگر یہ دل ، میرا دل
مجھے نہ چھوڑ ، بہت میں نے التجا کی تھی

سفر میں کشمکش مرگ و زیست کے دوران
نجانے کس نے مجھے زندگی عطا کی تھی

سمجھ سکا نہ کوئی بھی میری ضرورت کو
یہ اور بات کہ ایک خلق اشترا کی تھی

یہ ابتداء تھی کہ میں نے اُسے پکارا تھا
وہ آگیا تھا ظفر اُس نے انتہا کی تھی​

:great:
 

سارہ خان

محفلین

اک لفظِ اعتبار بڑا معتبر سا ہے
قائم نہ رہ سکے تو بڑا بےقدر سا ہے
رشتہ ہو کوئی خون کا ہا چاہتوں کا ہو
جو اعتماد ہو تو جبھی معتبر سا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
دستور عبادت کا دنیا سے نرالا ہو
اک ہاتھ میں مالا ہو اک ہاتھ میں پیالہ ہو

پوجیں گے سلیقے سے انداز مگر اپنا
ہو یادِ خدا دل میں ساقی نے سنبھالا ہو

مستی بھی تقدس بھی اک ساتھ چلیں دونوں
اک سمت ہو میخانہ اک سمت شوالہ ہو

مسجد کی طرف سے تُو جانا نہ کبھی ساقی
زاہد بھی کبھی تیرا نہ چاہنے والا ہو

وہ ڈوب کے مر جائیں مدراء کی صراحی میں
معشوق نے گر دل کی محفل سے نکالا ہو
 

شمشاد

لائبریرین
درد جب تیری عطا ہے تو گلہ کس سے کریں
ہجر جب تو نے دیا ہے تو گلہ کس سے کریں

عکس بکھرا ہے تیرا ٹوٹ کے آئینے میں
ہو گئی نم نظر عکس لیا کس سے کریں
 

ظفری

لائبریرین

ایک تلاطم میں ہوں، شورش میں ہوں ، چکر میں ہوں
رقص کرتا ہوں مگر ترشے ہوئے پتھر میں‌ہوں

میرے اندر دو صفیں ہیں صرف تیرے واسطے
روز لڑتا ہوں جو خود سے میں اُسی لشکر میں ہوں

میرا مالک بھی میری قیمت سے خود واقف نہیں
ایک خزانہ ہوکے بھی ایک ٹُوٹ ہوئے چھپر میں ہوں

میرے ساتھی ڈھونڈتے ہیں مجھ کو میں نہیں ملتا
اور تیرے واسطے میں پھول میں پتھر میں ہوں

جو تیری رہگذر اس راستے کا پھول ہو
جو پسند تیری آنکھیں کریں تیری اس منظر میں ہوں

خود ہی منزل ، خود ہی واستہ ، خود ہی خواہش ، خود اُمید
اُس سے یوں بچھڑا ہوں جیسے عرصہِ محشر میں‌ ہوں​
 

شمشاد

لائبریرین
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

میں نہ جگنو ہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ہیں

نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے میری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں
 

ظفری

لائبریرین

دُوری

دُور ہی دُور رہی بس مجھ سے
پاس وہ میرے آ نہ سکی تھی
لیکن اُس کو چاہ تھی میری
وہ یہ بھید چُھپا نہ سکی تھی

اب وہ کہاں ہے اور کیسی ہے
یہ تو کوئی بتا نہ سکےگا
پر کوئی اُس کی نظروں کو
میرے دل سے مِٹا نہ سکے گا

اب وہ خواب میں دُلہن بن کر
میرے پاس چلی آتی ہے
میں اُس کو تکتا رہتا ہوں
لیکن وہ روتی جاتی ہے

(مُنیر نیازی)​
 

شمشاد

لائبریرین
لبوں پہ نرم تبسم رچا کہ دھل جائیں
خدا کرئے میرے آنسو کسی کے کام آئیں

جو ابتداء سفر میں دیا بُجھا بیٹھے
وہ بد نصیب کسی کا سراغ کیا پائیں
 

ظفری

لائبریرین

فاصلہ فاصلے میں رہتا کیوں
میں بھلا دائرے میں رہتا کیوں

کسی اگلے پڑاؤ کی طرح
دیر تک قافلے میں رہتا کیوں

توُ اگر سامنے سے ہٹ جاتا
عکس اس آئینے میں رہتا کیوں

آنکھ تھی آنکھ کو تو کُھلنا تھا
خواب تھا جاگتے میں رہتا کیوں

صاحبِ راہ سے تھی رسم و راہ
مطمئن راستے میں رہتا کیوں

تُو مقدر ہے صفحہِ دل کا
ذہن کے حاشیے میں رہتا کیوں

میں خدا کی زمیں پر ساجد
آدمی تھا مزے میں رہتا کیوں​
 

شمشاد

لائبریرین
مدتوں دل اور پيکاں دونوں سينے میں رہے
آخرش دل بہہ گيا خوں ہو کے پیکاں ھي رہا

آگے زلفیں دل میں بستي تھیں اور اب آنکھیں تري
ملک دل اپنا ہميشہ کافرستاں ہي رہا

مجھ میں اس میں ربط ہے گويا برنگ بوئے گل
وھ رہا آغوش میں لیکن گریزاں ہي رہا

دين و ايمان ڈھونڈت ہے ذوق کيا اس وقت
اب نہ کچھ ديں ہي رہا باقي نہ ايمان ہي رہا
 

شمشاد

لائبریرین
اچھے عيسي ہو مريضوں کا خيال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے

تجھ سے مانگوں ميں تجھي کو کہ سبھي کچھ مل جائے
سو سوالوں سے يہي ايک سوال اچھا ہے

ديکھ لے بلبل و پروانہ کي بے تابي کو
ہجراچھا نہ حسينوں کا وصال اچھا ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top