یہ آج کیسی تھکن کا احساس ہے
جیسے جاگی ہوئی برسوں کی پیاس ہے
نکل پاؤں تیرے حصار سے کیسے
دور رہ کر بھی جیسے تو بہت پاس ہے
کھڑی رہتی ہوں کیوں دہلیز پر میں
شاید اب بھی تیرے لوٹ آنے کی آس ہے
(یاسمین منیر)
کل میں نے آکاش پہ کوئی کونج بچھڑتے دیکھی ہے
ایک تمنا گھائل ہوکر نیچے گرتے دیکھی ہے
ٹوٹے پروں سے کوشش کر کے کوئل اڑتے دیکھی ہے
پتھر لگتے دیکھا ہے اک چڑیا مرتے دیکھی ہے
آپ بےوجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
(ساحر لدھیانوی)