شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین
ایک مہرے کا سفر

جب وہ کم عمر ہی تھا
اس نے یہ جان لیا تھا کہ اگر جینا ہے
بڑی چالاکی سے جینا ہوگا
آنکھ کی آخری حد تک ہے بساطِ ہستی
اور وہ ایک معمولی سا ایک مہرہ ہے
ایک ایک خانہ بہت سوچ کر چلنا ہوگا
بازی آسان نہیں تھی اس کی
دورتک چاروں طرف پھیلے تھے مہرے
جلاد ، نہایت سفاک ، سخت بے رحم ، بہت ہی چالاک
اپنے قبضے میں لئے پُوری بساط
اس کے حصے میں فقط مات لئے
وہ جدھر جاتا ، اُسے ملتا ۔۔
ہر خانہ ایک نئی گھات لئے
مگر وہ بچتا رہا ۔۔ چلتا رہا ۔۔۔ ایک گھر ، دوسرا گھر ۔۔ تیسرا گھر
پاس آیا کبھی اوروں کے کبھی دُور ہوا
گو کہ معمولی سا مہرہ تھا
مگر جیت گیا ۔۔۔
یوں ایک روز وہ بڑا مہرہ بنا
اب وہ محفوظ ہے ایک خانے میں
اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ
دوست بھی پاس نہیں آسکتے
اُس کے ایک ہاتھ میں ہے جیت اُس کی
دوسرے ہاتھ میں تنہائی ہے


(جاوید اختر)
 

شمشاد

لائبریرین
آنکھ سے آنکھ ملا بات بناتا کیوں ہے
تُو اگر مجھ سے خفا ہے تو چھپاتا کیوں ہے

غیر لگتا ہے نہ اپنوں کی طرح ملتا ہے
تُو زمانے کی طرح مجھ کو ستاتا کیوں ہے

وقت کے ساتھ حالات بدل جاتے ہیں
یہ حقیقت ہے مگر مجھ کو سناتا کیوں ہے

اک مدت سے جہاں قافلے گزرے ہی نہیں
ایسی راہوں پہ چراغوں کو جلاتا کیوں ہے
(سعید راہی)
 

ظفری

لائبریرین

چہروں پہ چاہتوں کا جو غازہ تھا ہٹ گیا
رتبہ بلند ہونے سے قامت میں گھٹ گیا

شعروں میں میرے یوں تو ہر اک کیفیت رہی
لیکن اسے تو مصرع بچھڑنے کا رَٹ گیا

میں خاک بن کر اپنی ہی مٹی میں جا ملا
اور پھر زمین کی طرح ٹکڑوں میں بٹ گیا

اغیار سامنے نہ صفِ دشمناں کوئی
اپنا ہی آئینہ تھا، مقابل میں ڈٹ گیا​
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے
چمن میں راس نہ آئے گی یہ بہار مجھے

تیری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے
بنا دیا تیری فطرت کا رازدار مجھے

میری حیات کا انجام اور کچھ ہوتا
جو آپ کہتے کبھی اپنا جانثار مجھے

بدل دیا ہے نگاہوں نے رُخ زمانے کا
کبھی رہا ہے زمانے پہ اختیار مجھے

یہ حادثات جو ہیں اضطراب کا پیغام
یہ حادثات ہی آئیں گے سازگار مجھے

‘عزیز‘ اہلِ چمن کی شکایت بے سود
فریب دے گئی رنگینیِ بہار مجھے
(عزیز وارثی)
 

ماوراء

محفلین
ظفری نے کہا:

چہروں پہ چاہتوں کا جو غازہ تھا ہٹ گیا
رتبہ بلند ہونے سے قامت میں گھٹ گیا

شعروں میں میرے یوں تو ہر اک کیفیت رہی
لیکن اسے تو مصرع بچھڑنے کا رَٹ گیا

میں خاک بن کر اپنی ہی مٹی میں جا ملا
اور پھر زمین کی طرح ٹکڑوں میں بٹ گیا

اغیار سامنے نہ صفِ دشمناں کوئی
اپنا ہی آئینہ تھا، مقابل میں ڈٹ گیا​

~~
زبردست۔ بہت خوب۔
~~
 

سارا

محفلین
ان ہی کے دم سے ہے جاری یہ روشنی کا سفر
جو دل چراغ کی صورت جہان میں رہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اک انتظار سا تھا اب نظر میں وہ بھی نہیں
سفر میں مرنے کی فرصت تھی گھر میں وہ بھی نہیں

ذرا ملال کی ظلمت کو ٹالنے کے لیے
کئی خیال تھے اب تو اثر میں وہ بھی نہیں
(محشر بدایونی)
 

شمشاد

لائبریرین
کرئے دریا نہ پُل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے

بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا در و دیوار میرے

وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے

وہی یہ شہر ہے تو شہر والو
کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے
(محشر بدایونی)
 

ظفری

لائبریرین

تیرے بچھڑنے پر کیا روئیں، یہ تو ا،ک دن ہونا تھا
میلے کی اس بھیڑ بھاڑ میں، کسی کو کُچھ تو کھونا تھا

وحشت جاگ اُٹھی تھی دل میں،ایسی آگ اُٹھی تھی دل میں
دیر طلوعِ ماہ کی تھی بس، پھر میں نے کیا سونا تھا

دل تک آنے والے ! تُو نےدل میں بھی جھانکا ہوتا
لیکن تُو نے دیر لگا دی ، یہی تو سارا رونا تھا

تُو تھا میری سوچ کا محور، میں تھا تیری راہ کا پتھر
تیری مرضی، جس کا ہوتا، میں نے کس کا ہونا تھا

تُو دریا تھا اور ہم پیاسے، کیوں دل کو دیتے نہ دل سے
لیکن ہم نے یہ نہیں سوچا، تیرا کام ڈبونا تھا

میرے اپنے بس میں کہاں تھا میرا چلنا پھرنا بھی
میں تو کٹھ پُتلی جیسا اِک ڈوری دار کھلونا تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
نظر نظر سے ملا کر شراب پیتے ہیں
ہم ان کو پاس بیٹھا کر شراب پیتے ہیں

اس لیے تو اندھیرا ہے میکدے میں بہت
یہاں گھروں کو جلا کر شراب پیتے ہیں

ہمیں تمہارے سوا کچھ نظر نہیں آتا
تمہیں نظر میں سجا کر شراب پیتے ہیں

ان کے حصے میں آتی ہے پیاس ہی آخر
جو دوسروں کو پلا کر شراب پیتے ہیں
(تسنیم فاروقی)
 

LeoTheLion

محفلین
کسی بات پر تو قناعت کرے
بشر کیوں ہمیشہ شکایت کرے

اُسے یاد رکھو جو محسن بنے
بھلا دو اُسے جو عداوت کرے
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بھی کیا کم ہے انہیں قربتِ گل تو ہے نصیب
آج گل کی نہ سہی خار کی باتیں ہی سہی

یہ تو طے ہے کہ جیئے جائیں گے ہر حال میں ہم
ان کے لب پر رسن و دار کی باتیں ہی سہی
(حمائت علی شاعر)
 

ماوراء

محفلین
~~
لوگ جائیں یا ترا پیچھا کریں
ہر قدم پہ سوچتے ہیں کیا کریں

یا ہماری تلخ باتوں کو سہار
یا بتا دے کس سے ہم جھگڑا کریں

ڈھونڈتے تو ہم بھی ہیں راہِ فرار
سوچتے تو ہم بھی ہیں اب کیا کریں

ایک مدّت ہو گئی روئے ہوئے
یار مجلس ہی کوئی برپا کریں

اپنی مرضی سے گزاریں زندگی
دن میں سوئیں رات میں جاگا کریں

چھوڑنے کو چھوڑ دیں دُنیا مگر
اتنے سارے دوستوں کا کیا کریں

شہر کو شورِ قیامت چاہئے
یار یہ دو چار چڑیاں کیا کریں

آپ کو آخر یہ حق کس نے دیا
آپ اہلِ دل کو کیوں رسوا کریں

آپ نے تو پھر بہایا خونِ خلق
ہم اگر غصّے میں آئیں کیا کریں

شاخ سے کیوں توڑ لیں تازہ گلاب
کیوں کسی تتلی کا حق مارا کریں

تم مکمل بات پہ خاموش ہو
لوگ تو پورا میرا جملہ کریں

بس نہیں چلتا زمانے پہ اگر
بال ہیں سر پر انہیں نوچا کریں

یہ سمندر تو اُگل دیتا ہے لاش
قصد کرنا ہے تو صحرا کیا کرے

قیس مل جائے تو پوچھیں مرشدا
عشق کرنا چھوڑ دیں ہم یا کریں


عباس تابش


~~​
 

شمشاد

لائبریرین
بعد مدت انہیں دیکھ کر یوں لگا
جیسے بیتاب دل کو قرار آ گیا

آرزوؤں کے گل مسکرانے لگے
جیسے گلشن میں جانِ بہار آ گیا

نشنہ نظریں ملیں شوخ نظروں سے جب
مئے برسنے لگی جام بھرنے لگے

ساقیا آج تیری ضرورت نہیں
بن پیئے بن بلائے خمار آ گیا
(روشن نندا)
 

تیشہ

محفلین
LeoTheLion نے کہا:
کسی بات پر تو قناعت کرے
بشر کیوں ہمیشہ شکایت کرے

اُسے یاد رکھو جو محسن بنے
بھلا دو اُسے جو عداوت کرے


:best: مگر لیو ، آکے بتا تو جاتے کہ آپا یہ میں ہوں لیو ، آج پی ۔ ایم نہ ملتا تو مجھے پتا ہی نہ چلتا یہ اپنا لیو ہے یا کوئی اور ۔، :?
 
شمشاد نے کہا:
یہ بھی کیا کم ہے انہیں قربتِ گل تو ہے نصیب
آج گل کی نہ سہی خار کی باتیں ہی سہی

یہ تو طے ہے کہ جیئے جائیں گے ہر حال میں ہم
ان کے لب پر رسان و دار کی باتیں ہی سہی
(حمائت علی شاعر)

شمشاد شاید دوسرے شعر میں رسن و دار کی باتیں ہے :)
 

ظفری

لائبریرین

افسانے درد محرومی کے دہرائے نہیں جاتے
کچھ ایسے زخم ہوتے ہیں جو دکھائے نہیں جاتے
تمنا آرزوئے حسرت اُمید وصل اور چاہت
یہ لاشے رکھ لیئے جاتے ہیں دفنائے نہیں جاتے​
 
ماوراء نے کہا:
~~
لوگ جائیں یا ترا پیچھا کریں
ہر قدم پہ سوچتے ہیں کیا کریں

یا ہماری تلخ باتوں کو سہار
یا بتا دے کس سے ہم جھگڑا کریں

ڈھونڈتے تو ہم بھی ہیں راہِ فرار
سوچتے تو ہم بھی ہیں اب کیا کریں

ایک مدّت ہو گئی روئے ہوئے
یار مجلس ہی کوئی برپا کریں

اپنی مرضی سے گزاریں زندگی
دن میں سوئیں رات میں جاگا کریں

چھوڑنے کو چھوڑ دیں دُنیا مگر
اتنے سارے دوستوں کا کیا کریں

شہر کو شورِ قیامت چاہئے
یار یہ دو چار چڑیاں کیا کریں

آپ کو آخر یہ حق کس نے دیا
آپ اہلِ دل کو کیوں رسوا کریں

آپ نے تو پھر بہایا خونِ خلق
ہم اگر غصّے میں آئیں کیا کریں

شاخ سے کیوں توڑ لیں تازہ گلاب
کیوں کسی تتلی کا حق مارا کریں

تم مکمل بات پہ خاموش ہو
لوگ تو پورا میرا جملہ کریں

بس نہیں چلتا زمانے پہ اگر
بال ہیں سر پر انہیں نوچا کریں

یہ سمندر تو اُگل دیتا ہے لاش
قصد کرنا ہے تو صحرا کیا کرے

قیس مل جائے تو پوچھیں مرشدا
عشق کرنا چھوڑ دیں ہم یا کریں


عباس تابش


~~​

ماورا

عشق کرنا چھوڑ دیں ہم یا کیا کریں

کیا اس مصرعہ میں “کیا“ کا لفظ نہیں ہونا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
شمشاد نے کہا:
یہ بھی کیا کم ہے انہیں قربتِ گل تو ہے نصیب
آج گل کی نہ سہی خار کی باتیں ہی سہی

یہ تو طے ہے کہ جیئے جائیں گے ہر حال میں ہم
ان کے لب پر رسن و دار کی باتیں ہی سہی
(حمائت علی شاعر)

شمشاد شاید دوسرے شعر میں رسن و دار کی باتیں ہے :)

شکریہ ظفری بھائی، تصیح کر دی ہے، املا کی غلطی تھی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top