اب تیسرے اور آخری اصول کو دیکھتے ہیں ..
٣. منفعت کی غیر موجودگی .
ترک لا یعنی اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ الجامع میں لکھتے ہیں :
ما لا خیر فیه او بما یلغی اثمه
"جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور اس میں کوئی گناہ ہی ہو۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے
اِنَّ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالَا یَعْنِیْہِ (ترمذی ۲/ ۵۸)
آپ ﷺ نے فرمایا،" آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ لا یعنی امور کو ترک کردے۔"
(ترمذی ص 58، مشکوٰۃ )
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا،" آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے یہ ہے کہ بے فائدہ امور کو چھوڑدے۔"
(مجمع الزوائد ج 8 ص 1
کتاب الله میں ہے مون تو وہ لوگ ہیں ...
وَٱلَّذِينَ لَا يَشۡهَدُونَ ٱلزُّورَ وَإِذَا مَرُّواْ بِٱللَّغۡوِ مَرُّواْ ڪِرَامً۬ا
(سُوۡرَةُ الفُرقان 72)
"اور وہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور اگر (اتفاقاً )بیہودہ مشغلوں کے پاس سے ہو کر گزریں تو سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔"
حدیث مبارکہ صل الله علیہ وسلم میں آتا ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مَّھِیْنٌ. وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیْ اُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ. اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ . خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ . (لقمان ۳۱: ۶۔۹)
’’اورلوگوں میں ایسے بھی ہیں جو ’لھو الحدیث‘ خرید کر لاتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دیں اور ان آیات کا مذاق اڑائیں۔یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ اور جب ان کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تواس طرح متکبرانہ اعراض کرتے ہیں گویا ان کو سنا ہی نہیں۔ گویا ان کے کانوں میں بہرا پن ہے تو ان کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کے لیے نعمت کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ یہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا اور وہ غالب و حکیم ہے۔‘‘
’لھو‘ کے معنی کھیل تماشے اور غافل کر دینے والی چیز کے ہیں۔
’’لسان العرب ‘‘میں ہے:
لھو: ما لھوت بہ ولعبت بہ وشغلک من ھوی وطرب نحوھما. (۱۵/ ۲۵۸)
’’لہو‘ سے مراد وہ چیز ہے جس کے ساتھ تم کھیلتے ہو یا ایسی خواہش یا خوشی یا کوئی بھی ایسی چیز جو تمھیں مشغول کردے یا ان دونوں جیسی کوئی چیز۔‘‘
صاحب مفردات علامہ راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
اللھو ما یشغل الإنسان عما یعنیہ ویھمہ. (المفردات فی غریب القرآن ۴۵۵)
’’لہو وہ چیز ہے جو انسان کو اس سے غافل کردے جس کا وہ ارادہ رکھتا ہو۔‘‘
زمخشری کہتے ہیں
للھو کل باطل ألھی عن الخیر وعما یعني و(لھو الحدیث) نحو السمر بالأساطیر والأحادیث التي لا أصل لہا، والتحدث بالخرافات والمضاحیک وفضول الکلام، وما لا ینبغي من کان وکان، ونحو الغناء وتعلم الموسیقار، وما أشبہ ذلک. (الکشاف۳/ ۴۹۶۔۴۹۸)
’’ ہر وہ باطل چیز ’ لھو ‘ہے جو انسان کو خیر کے کاموں اور بامقصد باتوں سے غافل کر دے۔ جیسے داستان گوئی، غیر حقیقی قصے، خرافات ہنسی مذاق ، فضول باتیں ، ادھر ادھر کی ہانکنا اور جیسے گانا، موسیقار کا موسیقی سیکھنااور اس طرح کی دوسری چیزیں۔‘‘
اور رازی رح کی رائے ہے
أن ترک الحکمۃ والاشتغال بحدیث آخر قبیح. (التفسیر الکبیر۲۵/ ۱۴۰)
’’اس سے مراد اچھی بات کو چھوڑکر کسی بری بات میں مشغول ہوجانا ہے۔‘‘
اسلامی فلسفے کے مطابق " وقت " الله رب العزت کی جانب سے ودیعت کردہ ایک نعمت ہے اور اس عظیم نعمت کو صحیح طریقہ پر استعمال نہ کیا جاوے تو یہ بھی ایک جرم ہے
معروف مفسر اور مورخ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ابوالمظہر یحییٰ بن محمد بن ھبیرہ فرمایا کرتے تھے :
والوقت أنہس ما عہنہيتَ بحہظه وأراه أسهل ما عليک يَضہيع
(ابن عماد حنبلي، شذرات الذهب، 4 : 195)
’’وقت وہ قیمتی ترین شے ہے جس کی حفاظت کا تمہیں ذمہ دار بنایا گیا ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی وہ چیز ہے جو تمہارے پاس نہایت آسانی سے ضائع ہو رہی ہے۔‘‘
حضرت حسن بصری رحمة الله عییہ فرماتے ہیں : اے انسان ! تو ایام ہی تو ہے ، جب ایک دن ختم ہو جائے تو تیرا ایک حصہ ختم ہو جاتا ہے ۔
قرآن کریم وقت کی قسم اٹھاتا ہے
’’والعصر ۔ ان الانسان لفی خسر‘‘ (العصر:1، 3) ’’زمانے کی قسم، بلا شبہ انسان گھاٹے میں ہے۔‘‘
سوائے ان لوگوں کے
إِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۳)
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور انہوں نےایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور صبر کی وصیت (تلقین) کی ! (۴)
پس معلوم ہوا کہ وہ تمام امور و اشیاء کہ جو اسلامی تعلیمات و احکامات میں تغیر پیدا کریں یا اپنے اندر کسی بھی قسم کی مضرت رکھتی ہوں یا پھر لا یعنی کے قبیل سے ہوں اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں .