شعر جو ضرب المثل بنے

شوکت پرویز

محفلین
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
کیا یہ شعر اس زمرے میں آئے گا۔۔۔ ۔۔۔ ؟

جی بھلکڑ بھائی!
یہ شعر یہاں پہلے سے موجود ہے۔ مراسلہ نمبر 32 :)
جواب

ویسے خالد شریف صاحب کا یہ شعر بھی اب اکثر سننے میں آتا ہے۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
 

شوکت پرویز

محفلین
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازؤے قاتل میں ہے
(بسمل عظیم آبادی - رام پرساد بسمل)
 

عمر طفیل

محفلین
جواب

درست شعر

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو
اس سلسلے میں کلاسیکی شعرا بہت زیادہ خوش قسمت رہے جن میں داغ، غالب میر اکبر جگر وغیرہ شامل ہیں۔

لطف مے تجھ سے کیا کہوں واعظ
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
دی شب وصل موزن نے اذاں پچھلے پہر
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا
تو ہے ہر جائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی (داغ)

(اس عاشقی میں عزتِ سعادت بھی گئی)
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا (میر)

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذودپشیماں کا پشیماں ہونا
یہ لاش بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں (غالب)

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو (مومن)

زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں (ناسخ)

مرگ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد (مولانا محمد علی جوہر)

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا (ظفر علی خان)

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا(اکبر)

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
گلزار و ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (اقبال)

یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیئے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے (جگر)

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئ (حفیظ جالندھری

کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں (شائد سلیم احمد کا شعر ہے)
گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہو کچھ لوگ پہچانے گئے خاطر غزنوی

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھے روتا ہے کیا
 

حسینی

محفلین
حضرت علامہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو

آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
علامہ محمد اقبال:

عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!
 

حسینی

محفلین
حضرت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ:

خرد نے کہ بھی دیا ’لاالہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
 

حسینی

محفلین
حضرت علامہ رحمہ اللہ:

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
 

حسینی

محفلین
حضرت علامہ رحمہ اللہ:

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند
 
Top