چودھری ناصر حسین
محفلین
ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
داغ دہلوی
بٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر امیرؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
امیرؔ مینائی
ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
داغ دہلوی
بٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر امیرؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
امیرؔ مینائی
امیر مینائی کے دیوان کا حوالہ بھی دے سکیں تو ممنون ہوں گا نیز مصرع اولیٰ جس طرح آپ نے درج کیا اس حالت میں بے وزن ہےبٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر امیرؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
امیرؔ مینائی
یہاں غالباً اے امیر ہے ۔امیر مینائی کے دیوان کا حوالہ بھی دے سکیں تو ممنون ہوں گا نیز مصرع اولیٰ جس طرح آپ نے درج کیا اس حالت میں بے وزن ہے
اے امیر کر کے وزن تو برابر ہو گیا لیکن حوالہ ندارد۔۔۔یہاں غالباً اے امیر ہے ۔
مجھے تو یقین نہیں کہ شعر مینائی ہے۔ کیا عجب کہ صہبائی ہویا کچھ اور۔حوالہ کی درخواست چوہدری ناصر حسین سے دوبارہ کی جاتی ہے۔اے امیر کر کے وزن تو برابر ہو گیا لیکن حوالہ ندارد۔۔۔
ہم نے امیر مینائی کے دونوں دواوین "صنم خانۂ عشق" اور "مراۃ الغیب" میں تلاش کیا لیکن یہ شعر کہیں نہیں ملا۔
اگر آپ حوالہ دے سکیں تو ممنون ہوں گا۔
ہم نے اسے ایک مصرع کے طور پر پڑھ رکھا ہے یعنینہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
جی جناب!ہم نے اسے ایک مصرع کے طور پر پڑھ رکھا ہے یعنی
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اور دوسرا مصرع یوں:
ہاتھ آیا نہ کچھ بھی اے وائے ستم! نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اس بناء پر اس کے بارے میں یہ بات سامنے آتی ہے:اعجاز صاحب! فسانۂ عجائب از مرزا رجب علی بیگ سرور لکھنوی میں دو اشعار کی صورت میں یوں درج ہیں۔
گئے دونوں جہان کے کام سے ہم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
ان اشعار پر رشید حسن خاں صاحب کا نوٹ یوں درج ہے۔
نسّاخ نے سخنِ شعرا میں اسے بہ نام مرزا صادق علی شرر لکھا ہے۔ اس میں ردیف "نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے" ہے
ُ
استاد جی!
ممکن ہے اس شعر میں "نہ" ایک حرفی ہی باندھا گیا ہو۔
ممکن ہے اس کا وزن "فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن" نہ ہو کر (ظفر کی درج ذیل غزل کی طرح) "فُعِلُن فُعِلُن فُعِلُن فُعِلُن" ہو۔
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جناب فرخ منظور صاحب کے پیغام (مراسلہ نمبر 33) میں دیے گئے پورے شعر کو دیکھ کر بھی اسی وزن کی تائید ہوتی ہے۔