پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا (ظفر علی خان)
شاید یہ مصرع کچھ یوںہے:کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
اب اداس پھرتے ھو سردیوں کی شاموں میںاب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اگر میں غلطی پر نہیں تو یہ شعر ناصر کاظمی کا ہے
کوئی صاحب یا صاحبہ تصحیح فرما دیں تو تشکر
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہےساغر صدیقی کی اس غزل کے کئی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔
ہے دعا یاد مگرحرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایاتھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں پہ درِ یار سے دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
بہت شکریہ فرحت! لیکن اس مصرع میں شاید "اگر بخشے" ہے۔گر بخشے، زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
اصغر خان اصغر
میر عمداً ہی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
(میر تقی میر)
بہت شکریہ فرحت! لیکن اس مصرع میں شاید "اگر بخشے" ہے۔
فرخ صاحب! آج تک میں مصرع اولٰی کو یوں سمجھتا رہا ہوں:
میر عمداً "بھی" کوئی مرتا ہے