میں نے عرصہ ہوا
ایک مزاحیہ مضمون بعنوان"دربان اورغالب"لکھاتھا۔مزاح کے سلسلے میں یہ میری پہلی کوشش تھی۔
اس کا ایک اقتباس پیش کرتاہوں۔ جن کو پسندآئے وہ ضرور مسکرادیں اورجن کونہ آئے وہ بھی مسکرائیں کہ مسکرانے میں کچھ خرچ نہیں آتا۔
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے
امتحان کا زمانہ قریب ہے اس لئے طلبہ کی رہنمائی کیلئے شعر کا مطلب بھی ذیل میں ذکر کردیاجاتاہے ۔اس شعر کا مطلب ماہرین غالبیات اورشارحین کلام غالب کے ان افادات پرمشتمل ہے جو سینہ بسینہ ہم تک پہنچے ہیں۔ اس سلسلے میں مطبوعہ کتابوں میں کسی قسم کی بھی تفتیش لاحاصل ثابت ہوگی ویسے یہ بھی ذکر کرناضروری ہے کہ فی زمانہ اردو کے ٹیچروں کی قابلیت ازحد مشکوک ہوچکی ہے اس لئے اگر درج ذیل شعر کا مطلب (جوہم لکھیں گے)پرچہ میں لکھنے کے باوجود بتمام وکمال نمبر نہ ملے تو راقم الحروف اور سینہ بسینہ روایت پر شک کرنے کے بجائے اردو ٹیچر اورممتحن کی قابلیت پر شک کریں ۔اورمطالبہ کریں کہ اردو کے پرچہ کی جانچ کی ذمہ داری ہندی ٹیچر کے سپرد کی جائے۔
(غالب نے تواپنی زندگی میں اپنے شناسائوں کو خط لکھ کر اورزوروزبردستی سے تقاضاکیاکہ جوکچھ نذرونیاز کرناہے میری زندگی میں کرگزرو میرے بعد کچھ کیاتواس سے مجھے کیاحاصل ہوگا۔اگروہ موجودہ ماہرین غالبیات کو دیکھ لیتے توشاید غالب سے زیادہ ماہرغالبیات بنناپسند کرتے ۔اس سلسلے میں ہمارے دوست باذوق صاحب کی رائے مختلف ہے کہ موجودہ ماہرین غالبیات کی مہارت کو دیکھ کر غالب جوپہلی مرتبہ مجبوراًمرے تھے اس مرتبہ ہنسی خوشی مرنے پر راضی ہوجاتے۔)
شرح اول
:ایک رائے تویہ ہے کہ غالب چونکہ قرض کی مے پیتے تھے اورادھارچکانے سے زیادہ ان کو مزید ادھار کی فکر رہتی تھی اس لئے ایک مرتبہ تو لالہ جی نے ان کو اچھی طرح تنبیہ کردی کہ آئندہ وہ پہلے قرض اداکرین اوراس کے بعد ادھار لیاکریں ۔لیکن غالب نے اپنے اصول پر عمل کرتے ہوئے کہ
'' وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں''۔ادھار کیلئے لالہ جی کے پاس پہنچے۔لالہ جی نے بالا خانہ سے دیکھ لیاکہ وہ خالی ہاتھ ہیں اورمزید قرض مانگنے کی نیت سے آرہے ہیں۔لالہ جی نے دربان کو خاص اشارہ کردیا ۔
غالب کچھ دیر تک توخاموش رہے لیکن بالآخر عرض مطلب کرہی بیٹھے اوراس کے بعد دربان نے اپنی کارروائی شروع کی ۔انہوں نے پاسبان کے قدم تولئے لیکن اس کے بعد پاسبان اورلالہ جی نے ان کے ساتھ کیاسلوک کیاتاریخ اس سے خاموش ہے۔ویسے بھی غالب کہہ گئے ہیں کہ
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یادماضی عذاب ہے یارب
شاید اس شعر کی تخلیق میں بھی دربان کا دیاہوادردوکرب بھی شامل ہو۔
شرح ثانی :
کچھ ماہرین غالبیات کی رائے یہ ہے کہ ڈومنی آنٹی جوبقول غالب ان پر مرمٹی تھیں
(غالب کے اس بیان میں روایتاً ودرایتاًکلام کی کافی گنجائش ہے روایتا کلام کی گنجائش ہم کفایت اللہ صاحب کیلئے چھوڑے دیتے ہیںصرف درایتااشارہ کردیتے ہیں ۔
اولا غالب کا اپنااعتراف نامہ موجود ہے کہ'' ہم کہاں کے داناتھے کس ہنرمیں یکتاتھے'' جب کچھ نہیں تھے توڈومنی آنٹی کو ان پر مرمٹنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ثانیامانا کہ اس دور میں خلوص ومحبت کی وہ نایابی نہیں تھی جو دورحاضر میں ہے لیکن اتنی بھی فراوانی نہیں تھی کہ ہم غالب کے اس بیان کو بے چوں وچرا تسلیم کرلیں۔
ثالثا تسلیم کہ ڈومنی آنٹی ناقص العقل تھیں لیکن اتنی بھی ناقص العقل نہیں تھیں کہ وہ غالب پر مرمٹتی جن کو عشق نے قبل ازیں نکماکردیاتھا۔)
غالب ڈومنی آنٹی کو بار بار یہ کہہ کر چھیڑاکرتے تھے کہ ہم ''عذرمستی رکھ کر چھیڑیں گے''ایک دن قرض کی مئے پی کر بالآخر ''دھول دھپا ''کا اپناارمان پوراکرلیا۔غالب کے اپنے اعتراف نامہ سے معلوم ہوتاہے کہ ساراقصور غالب ہی کاتھا۔
دھول دھپا اس سراپاناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کربیٹھے تھے غالب پیش دستی ایکدن
غالب کی اس حرکت مغلوبہ کے بعد آنٹی نے دربان کو کچھ خاص احکامات بارے غالب کے دے دیئے۔ ایک عرصہ تک غالب فقیروں کا بھیس بناکر اہل کرم کا تماشہ دیکھتے رہے ۔اوراسی حلیہ میں آنٹی کے پاس پہنچ گئے ۔
(نوٹ:ایک ماہر غالبیات کہتے ہیں کہ لوگ غالب کے نام کی روٹی کھاتے ہیں اوریہ تک سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ'' گداسمجھ کے وہ چپ تھا'' اور''بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب'' میں کتنازبردست ربط ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان دونوں اشعار کے مابین ربط ڈھونڈنے کا سہرا ان کے ہی سر ہے۔موصوف کانام وپتہ اس لئے شائع نہیں کررہے ہیں کہ موصوف کو خوف ہے کہ کولمبس کی ایک نادانستہ غلطی سے جس طرح امریکہ نام کی مصیبت دنیا بھرکے گلے لگ گئی ہے کہیں ویسی صورت ان کے ساتھ پیش نہ آجائے اس سے بڑاخطرہ موصوف کو یہ ہے کہ کہیں ساہتیہ اکیڈمی والے انہیں زبردستی گیان پیٹھ ایوارڈ نہ تھمادیں)
دعوی مختصر ان کی پیش قدمی دیکھتے ہی دربان نے پیش دستی کی ۔دربان کی پیش دستی کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور اوروہ دربان کی جانب لپکے۔ غالب کی نیت تودربان کی قدمبوسی تھی لیکن دربان کی نیت کیاتھی وہ اس شعر سے پتہ نہیں چلتا اوربعد میں کیاہوا وہ بھی پتہ نہیں چلتا لیکن کچھ اشعار سے ان کہی کہانی معلوم ہوتی ہے
ہوچکی غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
دربان نے غالباًکچھ اس طرح غالب کی مرمت کی تھی کہ ان کو دنیاکے ساتھ ساتھ ان کی عقبی کی عافیت بھی خطرے میں نظرآنے لگی۔شارحین اس ضمن میںان کے آخری عمر میں اس شعر کو کثرت سے پڑھنے کو شاہد کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
اب توگھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے چین نہ پایا توکدھرجائیں گے
شرح ثالث:
(نوٹ :اردوطلبہ کے استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ بتاناضروری ہے کہ شرح اول ،شرح ثانی اورشرح ثالث سلسلہ غالب کے کسی شاعر کانام نہیں بلکہ ماہرین غالبیات کی اس شعر کے تعلق سے پہلی رائے ،دوسری رائے اورتیسری رائے ہے)
شعر کے تعلق سے ایک تیسری رائے یہ ہے کہ استادشہہ کاخطاب پانے کے بعد غالب کے ساتھ وہی معاملہ ہوا جو ایک دوسرے شاعر کے ساتھ ہواتھا۔
شاعر نے قصیدہ کہااوراپنے ممدوح کا قصیدہ سنایا۔ممدوح نے خوشخبری سنائی کہ کل آنا ۔تمیں انعام دوں گا۔ انعام کاخواب لئے شاعر واپس ااگیا اوردوکاندار سے قرض لے کر شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔اگلے دن جب شاعر ممدوح کے پاس پہنچ کر انعام کا طالب ہوا توممدوح نے یہ کہہ کر اسے ٹرخادیاکہ تم نے مجھے خالی خولی الفاظ سے خوش کیا میں نے انعام کی بات کرکے خوش کیا۔حساب برابر۔
حساب برابر سے یاد آیاکہ غالب حساب برابر کرنے میں بھی کافی ماہر تھے۔
ان کے ایک شاگر ان کا پائوں دبانے لگے غالب نے ازراہ تکلف ،تکلف سے منع کیاشاگرد نے عرض کیاکہ اگرآپ کو مفت کی خدمت گراں گزرتی ہے تواس کے پیسے دے دیجئے گا۔معاملہ طئے ہوگیا۔پائوں دابنے کے بعد جب شاگرد معاوضہ کا خواہاں ہوا توغالب نے یہ کہہ کرٹرخادیاکہ تم نے میرے پائوں دابے میں نے تمہارے پیسے دابے حساب برابر۔
پائوں دبانے کے ذکر سے یاد آیاکہ کسی زمانہ میں موصوف کا خود بھی ہی پیشہ تھاکہ وہ بلامعاوضہ بیگار میں پائوں دبایاکرتے تھے۔ماہرغالبیات اس کے ضمن میں غالب کا اقرار نامہ پیش کرتے ہیں۔
''ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پائوں''
ہاں توبات چل رہی تھی تیسری روایت کی ۔اب بات دربان سے سے گزرکر غالب کی تیسری روایت تک پہنچ چکی ہے اوریہاں تک پہنچنے کے بعد میراحافظہ بھی اسی طرح دغادے رہاہے جیساکہ ایک مرید کو پیش آیاتھا۔
مجھے اپنے مرشد سے دوچیزیں تحفے میں ملی ہیں۔ بھری مجلس میں ایک شخص نے اعلان کیاحاضرین ہمہ تین متوجہ ہوگئے۔پہلی چیز جومجھے مرشد سے ملی ہے وہ ہے یادداشت اورحافظہ کا خزانہ۔اوردوسری چیز۔۔۔۔۔۔ہاں کچھ کچھ یاد آرہاہے۔بہرحال پورایاد نہیں آرہاہے پھرکبھی سناتاہوں۔