شعر لکھیں اور اس کی مزاحیہ تشریح لکھیں

شاعر نے بیوی سے لڑائی کر لی ،اتفاق سے اسی درمیان بیمار پڑ گئے ،ڈاکٹر نے کڑوی کڑوی دوائی د ے دی ،اب پئے تو کیسے پئیں ،اہلیہ بھی نہیں وہ نارض ہو کر مائکے چلی گئیں تو حسرت سےاپنی اہلیہ کو یاد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ------
وہ ہاتھوں سے پلائے تو یقیں ہے
حیات ہو گی زہر میں بھی

امجد میانداد بھائی جان کیا خوب تشریح ہے نا ----
 
آخری تدوین:

ابن جمال

محفلین
میں نے عرصہ ہوا
ایک مزاحیہ مضمون بعنوان"دربان اورغالب"لکھاتھا۔مزاح کے سلسلے میں یہ میری پہلی کوشش تھی۔
اس کا ایک اقتباس پیش کرتاہوں۔ جن کو پسندآئے وہ ضرور مسکرادیں اورجن کونہ آئے وہ بھی مسکرائیں کہ مسکرانے میں کچھ خرچ نہیں آتا۔

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے

امتحان کا زمانہ قریب ہے اس لئے طلبہ کی رہنمائی کیلئے شعر کا مطلب بھی ذیل میں ذکر کردیاجاتاہے ۔اس شعر کا مطلب ماہرین غالبیات اورشارحین کلام غالب کے ان افادات پرمشتمل ہے جو سینہ بسینہ ہم تک پہنچے ہیں۔ اس سلسلے میں مطبوعہ کتابوں میں کسی قسم کی بھی تفتیش لاحاصل ثابت ہوگی ویسے یہ بھی ذکر کرناضروری ہے کہ فی زمانہ اردو کے ٹیچروں کی قابلیت ازحد مشکوک ہوچکی ہے اس لئے اگر درج ذیل شعر کا مطلب (جوہم لکھیں گے)پرچہ میں لکھنے کے باوجود بتمام وکمال نمبر نہ ملے تو راقم الحروف اور سینہ بسینہ روایت پر شک کرنے کے بجائے اردو ٹیچر اورممتحن کی قابلیت پر شک کریں ۔اورمطالبہ کریں کہ اردو کے پرچہ کی جانچ کی ذمہ داری ہندی ٹیچر کے سپرد کی جائے۔

(غالب نے تواپنی زندگی میں اپنے شناسائوں کو خط لکھ کر اورزوروزبردستی سے تقاضاکیاکہ جوکچھ نذرونیاز کرناہے میری زندگی میں کرگزرو میرے بعد کچھ کیاتواس سے مجھے کیاحاصل ہوگا۔اگروہ موجودہ ماہرین غالبیات کو دیکھ لیتے توشاید غالب سے زیادہ ماہرغالبیات بنناپسند کرتے ۔اس سلسلے میں ہمارے دوست باذوق صاحب کی رائے مختلف ہے کہ موجودہ ماہرین غالبیات کی مہارت کو دیکھ کر غالب جوپہلی مرتبہ مجبوراًمرے تھے اس مرتبہ ہنسی خوشی مرنے پر راضی ہوجاتے۔)

شرح اول
:ایک رائے تویہ ہے کہ غالب چونکہ قرض کی مے پیتے تھے اورادھارچکانے سے زیادہ ان کو مزید ادھار کی فکر رہتی تھی اس لئے ایک مرتبہ تو لالہ جی نے ان کو اچھی طرح تنبیہ کردی کہ آئندہ وہ پہلے قرض اداکرین اوراس کے بعد ادھار لیاکریں ۔لیکن غالب نے اپنے اصول پر عمل کرتے ہوئے کہ'' وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں''۔ادھار کیلئے لالہ جی کے پاس پہنچے۔لالہ جی نے بالا خانہ سے دیکھ لیاکہ وہ خالی ہاتھ ہیں اورمزید قرض مانگنے کی نیت سے آرہے ہیں۔لالہ جی نے دربان کو خاص اشارہ کردیا ۔

غالب کچھ دیر تک توخاموش رہے لیکن بالآخر عرض مطلب کرہی بیٹھے اوراس کے بعد دربان نے اپنی کارروائی شروع کی ۔انہوں نے پاسبان کے قدم تولئے لیکن اس کے بعد پاسبان اورلالہ جی نے ان کے ساتھ کیاسلوک کیاتاریخ اس سے خاموش ہے۔ویسے بھی غالب کہہ گئے ہیں کہ

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یادماضی عذاب ہے یارب

شاید اس شعر کی تخلیق میں بھی دربان کا دیاہوادردوکرب بھی شامل ہو۔

شرح ثانی :
کچھ ماہرین غالبیات کی رائے یہ ہے کہ ڈومنی آنٹی جوبقول غالب ان پر مرمٹی تھیں
(غالب کے اس بیان میں روایتاً ودرایتاًکلام کی کافی گنجائش ہے روایتا کلام کی گنجائش ہم کفایت اللہ صاحب کیلئے چھوڑے دیتے ہیںصرف درایتااشارہ کردیتے ہیں ۔
اولا غالب کا اپنااعتراف نامہ موجود ہے کہ'' ہم کہاں کے داناتھے کس ہنرمیں یکتاتھے'' جب کچھ نہیں تھے توڈومنی آنٹی کو ان پر مرمٹنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ثانیامانا کہ اس دور میں خلوص ومحبت کی وہ نایابی نہیں تھی جو دورحاضر میں ہے لیکن اتنی بھی فراوانی نہیں تھی کہ ہم غالب کے اس بیان کو بے چوں وچرا تسلیم کرلیں۔
ثالثا تسلیم کہ ڈومنی آنٹی ناقص العقل تھیں لیکن اتنی بھی ناقص العقل نہیں تھیں کہ وہ غالب پر مرمٹتی جن کو عشق نے قبل ازیں نکماکردیاتھا۔)

غالب ڈومنی آنٹی کو بار بار یہ کہہ کر چھیڑاکرتے تھے کہ ہم ''عذرمستی رکھ کر چھیڑیں گے''ایک دن قرض کی مئے پی کر بالآخر ''دھول دھپا ''کا اپناارمان پوراکرلیا۔غالب کے اپنے اعتراف نامہ سے معلوم ہوتاہے کہ ساراقصور غالب ہی کاتھا۔

دھول دھپا اس سراپاناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کربیٹھے تھے غالب پیش دستی ایکدن

غالب کی اس حرکت مغلوبہ کے بعد آنٹی نے دربان کو کچھ خاص احکامات بارے غالب کے دے دیئے۔ ایک عرصہ تک غالب فقیروں کا بھیس بناکر اہل کرم کا تماشہ دیکھتے رہے ۔اوراسی حلیہ میں آنٹی کے پاس پہنچ گئے ۔

(نوٹ:ایک ماہر غالبیات کہتے ہیں کہ لوگ غالب کے نام کی روٹی کھاتے ہیں اوریہ تک سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ'' گداسمجھ کے وہ چپ تھا'' اور''بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب'' میں کتنازبردست ربط ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان دونوں اشعار کے مابین ربط ڈھونڈنے کا سہرا ان کے ہی سر ہے۔موصوف کانام وپتہ اس لئے شائع نہیں کررہے ہیں کہ موصوف کو خوف ہے کہ کولمبس کی ایک نادانستہ غلطی سے جس طرح امریکہ نام کی مصیبت دنیا بھرکے گلے لگ گئی ہے کہیں ویسی صورت ان کے ساتھ پیش نہ آجائے اس سے بڑاخطرہ موصوف کو یہ ہے کہ کہیں ساہتیہ اکیڈمی والے انہیں زبردستی گیان پیٹھ ایوارڈ نہ تھمادیں)

دعوی مختصر ان کی پیش قدمی دیکھتے ہی دربان نے پیش دستی کی ۔دربان کی پیش دستی کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور اوروہ دربان کی جانب لپکے۔ غالب کی نیت تودربان کی قدمبوسی تھی لیکن دربان کی نیت کیاتھی وہ اس شعر سے پتہ نہیں چلتا اوربعد میں کیاہوا وہ بھی پتہ نہیں چلتا لیکن کچھ اشعار سے ان کہی کہانی معلوم ہوتی ہے

ہوچکی غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے

دربان نے غالباًکچھ اس طرح غالب کی مرمت کی تھی کہ ان کو دنیاکے ساتھ ساتھ ان کی عقبی کی عافیت بھی خطرے میں نظرآنے لگی۔شارحین اس ضمن میںان کے آخری عمر میں اس شعر کو کثرت سے پڑھنے کو شاہد کے طورپر پیش کرتے ہیں۔

اب توگھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے چین نہ پایا توکدھرجائیں گے

شرح ثالث:

(نوٹ :اردوطلبہ کے استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ بتاناضروری ہے کہ شرح اول ،شرح ثانی اورشرح ثالث سلسلہ غالب کے کسی شاعر کانام نہیں بلکہ ماہرین غالبیات کی اس شعر کے تعلق سے پہلی رائے ،دوسری رائے اورتیسری رائے ہے)

شعر کے تعلق سے ایک تیسری رائے یہ ہے کہ استادشہہ کاخطاب پانے کے بعد غالب کے ساتھ وہی معاملہ ہوا جو ایک دوسرے شاعر کے ساتھ ہواتھا۔
شاعر نے قصیدہ کہااوراپنے ممدوح کا قصیدہ سنایا۔ممدوح نے خوشخبری سنائی کہ کل آنا ۔تمیں انعام دوں گا۔ انعام کاخواب لئے شاعر واپس ااگیا اوردوکاندار سے قرض لے کر شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔اگلے دن جب شاعر ممدوح کے پاس پہنچ کر انعام کا طالب ہوا توممدوح نے یہ کہہ کر اسے ٹرخادیاکہ تم نے مجھے خالی خولی الفاظ سے خوش کیا میں نے انعام کی بات کرکے خوش کیا۔حساب برابر۔

حساب برابر سے یاد آیاکہ غالب حساب برابر کرنے میں بھی کافی ماہر تھے۔

ان کے ایک شاگر ان کا پائوں دبانے لگے غالب نے ازراہ تکلف ،تکلف سے منع کیاشاگرد نے عرض کیاکہ اگرآپ کو مفت کی خدمت گراں گزرتی ہے تواس کے پیسے دے دیجئے گا۔معاملہ طئے ہوگیا۔پائوں دابنے کے بعد جب شاگرد معاوضہ کا خواہاں ہوا توغالب نے یہ کہہ کرٹرخادیاکہ تم نے میرے پائوں دابے میں نے تمہارے پیسے دابے حساب برابر۔

پائوں دبانے کے ذکر سے یاد آیاکہ کسی زمانہ میں موصوف کا خود بھی ہی پیشہ تھاکہ وہ بلامعاوضہ بیگار میں پائوں دبایاکرتے تھے۔ماہرغالبیات اس کے ضمن میں غالب کا اقرار نامہ پیش کرتے ہیں۔

''ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پائوں''

ہاں توبات چل رہی تھی تیسری روایت کی ۔اب بات دربان سے سے گزرکر غالب کی تیسری روایت تک پہنچ چکی ہے اوریہاں تک پہنچنے کے بعد میراحافظہ بھی اسی طرح دغادے رہاہے جیساکہ ایک مرید کو پیش آیاتھا۔

مجھے اپنے مرشد سے دوچیزیں تحفے میں ملی ہیں۔ بھری مجلس میں ایک شخص نے اعلان کیاحاضرین ہمہ تین متوجہ ہوگئے۔پہلی چیز جومجھے مرشد سے ملی ہے وہ ہے یادداشت اورحافظہ کا خزانہ۔اوردوسری چیز۔۔۔۔۔۔ہاں کچھ کچھ یاد آرہاہے۔بہرحال پورایاد نہیں آرہاہے پھرکبھی سناتاہوں۔
 
دعوٰی کروں کا حشر میں موسٰی پر قتل کا
کیوں آب دی اس نے مرے قاتل کی تیغ کو
شاعر کا محبوب بڑا چوّل ہے، آنکوں میں سرمہ لگاتا ہے اور یہ پینڈو شاعر انہیں آنکھوں پر مر مٹا
میں ہوتا تو رکھ کے ایک چپیڑ لگاتا ایسے محبوب کو :p
 
سرسری ذکر کیا تھا عشق میں مر جانے کا
اب اُسے ضد ہے کہ تم مر کے دکھاؤ ہمیں

شاعر نے اپنی معشوقہ کے سامنے شیخی بگھاری تھی کہ میں تو تمہارے عشق میں مر بھی سکتا ہوں۔ ادھر وہ بھی اس سے تنگ آئی بیٹھی تھی کہ کسی طرح اس سے جان چھوٹے تو کوئی دوسرا مرغا دیکھوں۔ پس اس نے ضد کرنا شروع کر دی کہ تم نے مرنے کا ذکر کیا تھا لہذا اب مر کر دکھاؤ۔ چونکہ اس شعر میں شاعر نے ضرورت سے زیادہ ہی لمبی پھینکی تھی (اور اب پھنس گیا ہے۔ اب دوسروں سے پوچھتا پھرتا ہے کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔)

ہمارے ’’ناقص‘‘ علم کے مطابق یہ شعر اپنے علامہ صاحب کا ہے۔ اس شعر کا سارا کمال موصوف کے ’’تخلص‘‘ کا ہے جو ایسے سرسری انداز میں واقع ہوا ہے کہ شعر بھی سرسری ہو گیا۔ ہمارے علم کے اس مسلمہ ’’نقص‘‘ کو بھی سرسری انداز میں لیتے جناب شمشاد نے جو ’’وجہِ مطالبہء خودکشیء عاشقِ ناکارہ و ناہنجار‘‘ بیان فرمائی ہے اس میں ایک عنصر یا تو فراموش کر بیٹھے ہیں یا پھر چان بوجھ کر پردہ پوشی کر رہے ہیں۔

ویسے ۔۔۔ گھر گھر کی بھیدنوں کا کہنا ہے کہ شاعر مذکور اور اس کی محبوبہء سراپا عجوبہ کا معاملہ لشٹم پشٹم چل رہا تھا۔
ناگہاں، شاعر کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہو گئی جو اس کی محبوبہ کے ہم نام ہیں، اور ان کی محبوبہ کا ڈالی جیسا بدن اس بے قصور شخص کا سا لگتا ہے۔ ڈالی تو ڈالی ہوتی ہے چاہے ٹاہلی کی ہو اور اس سے آنکھ کا کیا سچ مچ کا شہتیر نکالا سکتا ہے۔ موصوف نے وہ شہتیر نکال بھی لیا اور اپنے ’’آسمانی‘‘ چھت والے گھر پر ڈال بھی لیا کہ بقیہ سامان کی بعد میں دیکھی جائے گی۔
ہمارے بے چارے شاعر کی محبوبہ کو خبر ہو گئی کہ ان سے بہت مشابہت رکھنے والی ایک چیز (وہی شہتیر) عاشقِ نامراد کی مرادوں کا مرکز بن رہا ہے ۔ بس ! ہو گئیں سیخ پا!! اور دندناتی ہوئی بے چارے کے ان چھتے گھر میں وارد ہو گئیں۔ حضرت شاعر تو گویا جان سے گئے، کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ صرف یہیں بس نہیں ہوئی بلکہ یہ ملاحظہ ہونے پر کہ لہو نہ سہی ابھی جان باقی ہے ایک ستم سوال کی صورت داغ دیا: ’’اس شہتیر کا کیا کرو گے؟‘‘ حضرت کے منہ میں جو آیا کہہ دیا، کہہ کیا دیا الفاظ خطا ہو گئے (اس خطا ہو جانے کی وضاحت مت طلب کیجئے گا)۔ ’’یہ یہ یہ شہتیر جو ہے، نہیں تھا، نہیں ہے اس سے لٹک کر مرنا ۔۔ م م ۔۔۔‘‘ محبوبہء دل نواز نے کسی ماہر طبلہ نواز کی طرح عاشق نامراد کے سر کو نشانہء التفات فرمایا، تو جناب شاعر سچ مچ مرنے پر تل گئے۔
وہ الگ بات کہ ترازو کے ایک پلڑے میں نو من کی محبوبہ ہوں اور دوسرے میں اٹھارہ کلو کا عاشق۔ چیخ اٹھے کہ کہ تول تلائی ختم کرو جانِ فیل نہیں تو میں سچ مچ مر جاؤں گا۔ ’’مر کے تو دکھا، چوہے جتنی جا ن ہے تیری‘‘ محبوبہ کے غرہء گربہ کا کچھ ایسا ہی مطلب نکلتا تھا۔ مگر وہ بلی چوہےکے کھیل کی طرح موصوف کو نیم زندہ (نیم مردہ) چھوڑ کرنہ جانے اور کس کا خون پینے یا سکھانے کو سَدھار گئیں (اور انجانے میں ہمارے شاعر کو سُدھار بھی گئیں)۔
تب سے ہمارے مُوش جان شاعر کا یہ عالم ہے کہ وہ راہ گلی مل جائیں تو شاعرِ بیمار کا حال اچھا ہونے کی بجائے قابل رحم ہو جاتا ہے۔ اس پر طرہ ان کی بپھری ہوئی بلی کی سی غرا ہٹ اور یہ فرمانا کہ: تم مر کے دکھاؤ ہمیں!۔۔۔

ارے ۔۔ہم نے آپ کو اپنے شاعرِ نصف مرحوم کی دل گداز (دل کو چھیدنے والی) محبوبہ کا نام نہیں بتایا کیا؟
رہنے دیجئے ۔۔۔ اپنے شارحِ اول کو مغالطہ بھی ہو سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
آ گیا لڑائی میں اگر عین وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

تشریح : شاعر کہتا ہے کہ لڑائی لڑتے لڑتے اگر نماز کا وقت آ گیا تو حجاز کی قوم قبلہ کیطرف منہ کر کے سجدے میں چلی گئی، محمود اور ایاز (یہ دونوں بھی لڑائی میں شریک تھے) دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے تھے کہ ادھر سے دشمن نے حملہ کر دیا، اور چونکہ یہ سب سجدے میں تھے اس لیئے سب کے سب مارے گئے اور کوئی بھی بندہ نہ بچا۔


شمشاد بھیا! اگر اس بات کو یوں کہا جائے تو کیسا رہے گا

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
اوپر سے دشمن نے حملہ کر دیا
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
 
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم
تجھے یادگار بنا دیا
لیں ماوراء sis اس کی تشریح کر دیں
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم
تجھے یادگار بنا دیا

واہ واہ واہ، شاعر نے اپنی کمزوریوں کو کیا خوب انداز میں بیان فرمایا ہے، اصل میں شاعر صاحب اتنے بھاری ہیں کہ ایک بار جہاں بیٹھ گئے تو کوہِ گراں کے جیسے ہل نہیں پاتے، اور ضعیفی کا یہ عالم تھا کہ چند قدم چلے تو جان گنوا بیٹھے۔
اور دوسرے شعر میں شاعر کو اس کے یار نے راہ میں، یادگار قسم کے قدم قدم یعنی ٹھڈے ٹھڈے بھی مارے :)
 
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم
تجھے یادگار بنا دیا

واہ واہ واہ، شاعر نے اپنی کمزوریوں کو کیا خوب انداز میں بیان فرمایا ہے، اصل میں شاعر صاحب اتنے بھاری ہیں کہ ایک بار جہاں بیٹھ گئے تو کوہِ گراں کے جیسے ہل نہیں پاتے، اور ضعیفی کا یہ عالم تھا کہ چند قدم چلے تو جان گنوا بیٹھے۔
اور دوسرے شعر میں شاعر کو اس کے یار نے راہ میں، یادگار قسم کے قدم قدم یعنی ٹھڈے ٹھڈے بھی مارے :)

سید ضمیر جعفری مرحوم اور پروفیسر انور مسعود میں بہت بے تکلفی رہی ہے۔ جعفری صاحب کا حساب بھی کچھ ایسا تھا کہ صوفے پر اکیلے پورے آتے تھے۔ ایک محفل میں جعفری صاحب کچھ اس طور بکھر کر بیٹھے تھے کہ انور مسعود سے نہ رہا گیا، بولے: ’’چھڈ یار جعفری! جتھے بہندا ایں ڈھیر ای لا دیندا ایں‘‘۔ ۔ (جہاں بیٹھتے ہو، ڈھیر لگا دیتے ہو)۔
 
سید ضمیر جعفری مرحوم اور پروفیسر انور مسعود میں بہت بے تکلفی رہی ہے۔ جعفری صاحب کا حساب بھی کچھ ایسا تھا کہ صوفے پر اکیلے پورے آتے تھے۔ ایک محفل میں جعفری صاحب کچھ اس طور بکھر کر بیٹھے تھے کہ انور مسعود سے نہ رہا گیا، بولے: ’’چھڈ یار جعفری! جتھے بہندا ایں ڈھیر ای لا دیندا ایں‘‘۔ ۔ (جہاں بیٹھتے ہو، ڈھیر لگا دیتے ہو)۔
یعنی، پہلے شعر کی تشریح میں مرحوم ضمیر جعفری (اللہ مغفرت فرمائے) کا ذکر درست ٹھہرا اور دوسرے شعر کی تشریح میں محترم انور مسعود کے جعفری صاحب کے ساتھ سلوک کا ذکر بھی ہو گیا، اتفاق کی بات ہے۔
 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


بہت آسان سی تشریح ہے ۔ نرگس دراصل ایک نابینہ خاتون کا نام ہے۔ اور ان کی ایک صاحبزادی ہیں جنکی شادی نہیں ہو رہی۔ ان کے بارے میں ہے کی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دھی دا ور پیدا

دھی=بیٹی
ور= بر
 

ماہی احمد

لائبریرین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


بہت آسان سی تشریح ہے ۔ نرگس دراصل ایک نابینہ خاتون کا نام ہے۔ اور ان کی ایک صاحبزادی ہیں جنکی شادی نہیں ہو رہی۔ ان کے بارے میں ہے کی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دھی دا ور پیدا

دھی=بیٹی
ور= بر
جو تشریح میں نے کی ہے اس کی وہ لکھی نہیں جا سکتی پر ایف ایس سی میں پوری کلاس کو سمجھائی تھی:rollingonthefloor: اففف!!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک گذارش سب سے :

زندگی کو ہلکے پھلکے انداز میں لینے اور اپنے تہذیبی ورثے کا احترام کرنے میں ایک حدِ فاصل رکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ کلام اقبال کا انتخاب یہاں نامناسب ہوگا۔
سیدہ شگفتہ با جی ۔تاہم ظریفانہ (بانگ درا ) اور کچھ کلام اس قید سے مستثنی رکھا جائے تو حرج نہیں۔مثلاً
کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ
 
سیدہ شگفتہ با جی ۔تاہم ظریفانہ (بانگ درا ) اور کچھ کلام اس قید سے مستثنی رکھا جائے تو حرج نہیں۔مثلاً
کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ


اونٹ تو مجھے کہہ رہے ہیں آپ چلیں مان لیتے ہیں اور کوئی اعترض بھی نہیں کرتے۔لیکن بیگم صاحبہ کو گائے اور ان کے بیلن کو سینگ کہنے کا نتیجہ بھگتنے کیلئے تیار رہیں، آپ کا تو اللہ ہی حافظ۔۔۔۔
 
وہ بظاہر جو کچھ نہیں لگتے
اُن سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں

شاعر بتا رہے ہیں کہ جو لڑکے دیکھنے میں بس پورے پورے ہی ہوتے ہیں اُن کے لیے جو رشتے آتے ہیں وہ بھی کسی ۔۔۔۔ باقی آپ سمجھدار ہیں :)
 
Top