تِیرَگی جال ہے، اور بھالا ہے نُور
اِک شکارِی ہے دِن، اِک شکاری ہے رات
جگ سمندر ہے، جِس میں کنارے سے دُور!
مچھلیوں کی طرح ابنِ آدم کی ذات
جگ سمندر ہے، ساحِل پہ ہیں ماہی گیر
جال تھامے کوئی، کوئی بھالا لئے
میری باری کب آئے گی کیا جانئے
دِن کے بھالے سے مجھ کو کریں گے شِکار
رات کے جال میں یا کریں گے اسیر ؟
فیض احمد فیضؔ