موجِ دریا پہ چھا رہا ہے یہ کون
سیج پر، رسمَسا رہا ہے یہ کون
صُبح پنگھٹ پہ ہو رہی ہے طُلوع
رُخ سے کا کل ہٹا رہا ہے یہ کون
ادھ کُھلی انکھڑیوں کو مَل مَل کر
جُوئے مُل میں نہا رہا ہے یہ کون
ایک انگڑائی سے دو عالَم کو
راگنی میں جُھلا رہا ہے یہ کون
شرم سے چمپئی کلائی میں
سبز چوڑی گُھما رہا ہے یہ کون
جوؔش ملیح ابادی
(طویل نظم" کون" سے منتخبہ)