کاش وہ پہلی محبّت کے زمانے آتے
چاند سے لوگ مِرا چاند سجانے آتے
رقص کرتی ہُوئی پھر بادِ بہاراں آتی
پُھول لے کر وہ مجھے خود ہی بُلانے آتے
بارشوں میں وہ دھنک ایسی نِکلتی اب کے
جس سے موسم میں وہی رنگ سُہانے آتے
ہر طرف دیکھ رہے ہیں مِرے ہم عُمر خیال
راہ تکتی ہُوئی آنکھوں کو سُلانے آتے
اندرا ورما
دہلی، انڈیا