کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے
بتاؤں کیا تمھیں ، کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے
یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوُس لیتی ہے!
مگر مزدُور کے تن سے لہُو تک چُوس لیتی ہے
یہ اِنسانی بَلا ، خود خُونِ اِنسانی کی گاہک ہے
وَبا سے بڑھ کے مہلک، موت سے بڑھ کر بھیانک ہے
کہِیں یہ خُوں سے فردِ مال و زر تحریر کرتی ہے
کہِیں یہ ہڈیاں چُن کر محل تعمیر کرتی ہے
مجاؔز لکھنوی