شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

اُنھیں کیا فِکر ،کہ پُوچھیں دِل ِبیِمار کا حال
بے نیازانہ وہ اندازِ سُخن ہے، کہ جو تھا

ڈاکٹر حنیف فوقؔ
 

طارق شاہ

محفلین

راست بِیں ہُوں، آرزوئے کج کلاہی کیا کرُوں
مَیں گدائے کوُئے اِستِغنٰی ہُوں، شاہی کیا کرُوں

جنگ و طُوفان و وَبا و صر صر و قحط و قِتال !
آدمی کی، ہر طرف سے ہے تباہی کیا کرُوں

جوؔش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

تُو نے دِیدار کا ، جِن جِن سے کِیا ہے وعدہ !
ہائے رے اُن کی خوشی، ہائے رے ارماں اُن کا


شاؔد عظیم آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

چاہیں دَوزخ میں اُتاریں، کہ جگہ خُلد میں دَیں
دخل کیا غیر کو ؟گھر اُن کے ہیں ، مہماں اُن کا


شاؔد عظیم آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے
بتاؤں کیا تمھیں ، کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے

یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوُس لیتی ہے!
مگر مزدُور کے تن سے لہُو تک چُوس لیتی ہے

یہ اِنسانی بَلا ، خود خُونِ اِنسانی کی گاہک ہے
وَبا سے بڑھ کے مہلک، موت سے بڑھ کر بھیانک ہے

کہِیں یہ خُوں سے فردِ مال و زر تحریر کرتی ہے
کہِیں یہ ہڈیاں چُن کر محل تعمیر کرتی ہے

مجاؔز لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین

کیا پُوچھتے ہو عاشقِ بِیمار کا مِزاج
آہ! اُس فِدائے لذَّتِ آزار کا مِزاج

شاید تم اپنے ہاتھ سے دوگے اُسے سزا
ہے عرش پر تمھارے گنہگار کا مِزاج


حسرؔت موہانی
 
Top