پِیا کے آنے کا وقت آیا ہے
جی کے جانے کا وقت آیا ہے
نِیم بِسمِل ہُوں تیغِ ابرُو سے !
تِلمِلانے کا وقت آیا ہے
شبِ خلوت میں، اُس پری رُو کو
دُکھ سُنانے کا وقت آیا ہے
مُلکِ وِیران کو، مِرے دِل کے !
پِھر بَسانے کا وقت آیا ہے
کب تلک ہجر کے اگن میں جَلُوں
آ، بُجھانے کا وقت آیا ہے
مِثلِ پروانہ شمع رُو پہ سِراؔج !
دِل جلانے کا وقت آیا ہے
سِراؔج اورنگ آبادی