داستانوں میں مِلے تھے، داستاں رہ جائیں گے
عمر بوڑھی ہو تو ہو، ہم نوجواں رہ جائیں گے
شام ہوتے ہی گھروں کو لَوٹ جانا ہے ہمیں
ساحلوں پر صرف قدموں کے نِشاں رہ جائیں گے
ہم کسی کے دِل میں رہنا چاہتے تھے اِس طرح
جس طرح اب گفتگو کے درمیاں رہ جائیں گے
فاضل جمیلی