شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

دِل میں ہجرت کے، نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش

بے اثر تیرے کِیے سارے عمل ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

فریادِ نالہ ہائے عزا بار پر اُنھیں
آیا ہے رحم کب، کہ ذرا مجھ میں دَم نہیں

حکیم مومن خاں مومؔن
 

طارق شاہ

محفلین

نامِ وصال لینے سے ہوتا ہے مُضطرب !
کیونکر کہوں، اُسے مِرے مرنے کا غم نہیں

حکیم مومن خاں مومؔن
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی تصوِیر مُکمل نہیں ہونے پاتی !
دُھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے

پہلے بھر دیتے ہیں سامانِ دوعالَم دِل میں
پھر کسی شے کی تمنّا، نہیں رہنے دیتے


احمد مشتاؔق
 
کمالِ ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمالِ ترک ہے تسخیرِ خاکی و نوری

اے اہلِ حلقہ ایسے فقر سے میں باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری

اقبال
 

ملک ساحر

محفلین
شیخ صاحب کا اِیمان بِک ہی گیا، دیکھ کر حُسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے، لُٹ گئی پارسائی مزا آ گیا
 

طارق شاہ

محفلین

ہار جاتی ہیں ساری تدبیریں
جا کے رہتے ہیں جانے والے لوگ

اب جو روتے ہیں راکھ پر بیٹھے
تھے یہی گھر جلانے والے لوگ

اقبال اشہر
 

طارق شاہ

محفلین

آنے والے کل کے مُصوّر ، کوئی نویلی دُنیا ڈُھونڈ !
اِس نگری کے سارے منظر، سارے چہرے ایک سے ہیں

اقبال اشہؔر
 

طارق شاہ

محفلین

تُندخُو ہے کب سُنے وہ دِل کی بات !
اور بھی، برہم کو برہم کیا کریں

کرچُکے سب اپنی اپنی حِکمتیں
دَم نِکلتا ہو، تو ہمدم کیا کریں

داؔغ دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

بتائیں لفظِ تمنّا کے تم کو معنی کیا
تمھارے کان میں اِک حرف ہم نے ڈال دِیا


تمھِیں کہو، کہ کہاں تھی یہ وضع، یہ ترکِیب
ہمارے عِشق نے سانچے میں تم کو ڈھال دیا


داغؔ دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

دُشنام کی بھی آپ سے کِس کو اُمید تھی
ہم نے تو اُس پہ صبر کِیا، جو عطا ہُوا


عُذرِ سِتم سے بس مجھے نادم نہ کیجئے
اِس تذکرہ کو چھوڑیے، جو کُچھ ہُوا، ہُوا


داغؔ دہلوی

 

طارق شاہ

محفلین

شام سے پہلے مرتے ہیں یا آخرِ شب تک جیتے ہیں
تیرے بغیر نہ جینے والے دیکھیے کب تک جیتے ہیں

شوکت علی خاں فانؔی بدایونی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

نہ دیکھوں مَیں اُسے، پھر بھی اُسی کو دیکھتا ہُوں مَیں
نگاہوں میں وہی اِک چہرۂ خوشتاب رہتا ہے

تابؔش دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

اللہ رے اعتمادِ محبّت، کہ آج بھی !
ہر درد کی دَوا ہیں وہ، اچھّا کیے بغیر

شوکت علی خاں فانؔی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

مجھ کو کبھی ، کبھی سُوئے اغیار دیکھنا !
اُس شوخ کی، نگاہِ طلب گار دیکھنا

چشمِ نظارہ بیں میں ہے ، یہ کیا رَہِ کشود
جب دیکھنا، وہی در و دیوار دیکھنا

دہرائے گا وہ اپنی کوئی داستانِ غم
وہ ، آ رہا ہے پھر مرا غم خوار ، دیکھنا

صُوفی غُلام مُصطفٰی تبسُّؔم
 
آخری تدوین:
Top