اُس کے لب اور چشمِ مِینا سے
کیا چَھلکتی شراب دیکھوں مَیں
جس کے سِینے میں دِل ہے پتّھر کا
دِل کو اُس پر ہی آب دیکھوں مَیں
دُور ہو تیرگئ شب جس سے !
دِن کو اکثر وہ خواب دیکھوں مَیں
منعقد کیا نہیں تماشے ہیں !
کیا نہیں بے حساب دیکھوں مَیں
اب مسائل کا کچھ بُجز جاناں !
حل نہ کوئی جواب دیکھوں مَیں
شفیق خلؔش