کیا کیا نہ کرم ہوں گے تِرے مجھ پہ، میں آخر
اے شُومئی قسمت! تِرا مظُورِ نظر ہُوں
کیا غم ہے، کہ ہُوں عزم کی تقدیرِ حَسِیں بھی
میں راہروِ جادۂِ آلام اگر ہُوں
خلوت کے سمندر کی سدا جاگتی تہہ میں
برسوں سے جو مانُوسِ صدف ہو، وہ گُہر ہُوں
کیا کیا تھے وہ طوفان، جو جھیلے ہیں یہ سوچو !
قبل اِس کے، کہ تم پُوچھو میں کیوں خاک بَسر ہُوں
تخت سنگھ