یادَش بخیر
یادَش بخیر ہم بھی، اِک روز مہ چکاں تھے
نَو خیز و نَو ادا تھے ، نَو تِیر و نَو کماں تھے
آنکھیں، فسانہ گو تھیں، انداز، نغمہ خواں تھے
کشمیر کی کہانی، کنعاں کی داستاں تھے
گبھرو تھے، گُل نَفَس تھے، گُل رُخ تھے ، گُل فِشاں تھے
یہ داستاں ہے جب کی، جِس وقت ہم جواں تھے
آنگن میں ناچتے تھے، برسات کے مہینے!
آغوش میں صنم تھے ، ترشے ہُوئے نَگِینے
ہلچل میں تھے دوپٹّے ، زیر و زَبر تھے سِینے
تن ڈولتے تھے، جیسے گرداب میں سفِینے
وہ بھی رَواں دَواں تھے، ہم بھی رَواں دَواں تھے
یہ داستاں ہے جب کی، جِس وقت ہم جواں تھے
جوؔش ملیح آبادی