شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

تمھاری زُلف میں پُہنچی تو حُسن کہلائی !
وہ تِیرَگی، جو مِرے نامۂ سِیاہ میں تھی

محمد صدیق ضیاؔء
راولپنڈی، پاکستان
 

طارق شاہ

محفلین

دُور رہتا ہُوں تو ڈرتا ہُوں کہ اِس دُوری سے
سرد یہ شورشِ جذبات نہ ہو جائے کہِیں

لَوٹ آؤں جو تِرے شہر تو دھڑکا یہ رہے
پیار پھر شاملِ حالات نہ ہو جائے کہِیں

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

ہم سُخن تیشے نے، فرہاد کو شیریں سے کِیا !
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے

مِرزا اسداللہ خاں غالؔب
 

طارق شاہ

محفلین

یادَش بخیر

یادَش بخیر ہم بھی، اِک روز مہ چکاں تھے
نَو خیز و نَو ادا تھے ، نَو تِیر و نَو کماں تھے

آنکھیں، فسانہ گو تھیں، انداز، نغمہ خواں تھے
کشمیر کی کہانی، کنعاں کی داستاں تھے

گبھرو تھے، گُل نَفَس تھے، گُل رُخ تھے ، گُل فِشاں تھے
یہ داستاں ہے جب کی، جِس وقت ہم جواں تھے

آنگن میں ناچتے تھے، برسات کے مہینے!
آغوش میں صنم تھے ، ترشے ہُوئے نَگِینے

ہلچل میں تھے دوپٹّے ، زیر و زَبر تھے سِینے
تن ڈولتے تھے، جیسے گرداب میں سفِینے

وہ بھی رَواں دَواں تھے، ہم بھی رَواں دَواں تھے
یہ داستاں ہے جب کی، جِس وقت ہم جواں تھے


جوؔش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

ہر سانس تھی ہماری، اِک کشتئِ دُخانی
دہکی ہُوئی ترنگیں، بہکی ہُوئی رَوانی

کِھلتا ہُوا شگوفہ، کُھلتی ہُوئی کمانی
اُڑتی ہُوئی حکایت، مُڑتی ہُوئی کہانی

بھڑکی ہُوئی دَھنک تھے، کڑکی ہُو ئی کماں تھے
یہ داستاں ہے جب کی ، جِس وقت ہم جواں تھے

جوؔش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

محلوں میں کُودتے تھے، راتوں کو جب یکایک
ہوتی تھی ڈر سے چھاتی، شہزادیوں کی دھک دھک

مُکھڑوں کی لَو جگاتِیں، جھٹ سے بُجھا کے دِیپک
ہم، صُبح کو یہ باتیں، لاتے نہ تھے زباں تک

اِس درجہ پاسبانِ ناموُسِ گُل رُخاں تھے
یہ داستاں ہے جب کی، جِس وقت ہم جواں تھے

جوؔش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

مِلتی تھی جب نِگاہیں تُرکانِ شُعلہ تن سے
اُٹھتی تھی وَلوَلوں کی آنچیں ارے بدن سے

اور کمسِنوں کی پائل جب بولتی تھی چھن سے
محرابِ زندگی میں چلتی تھی توپ دَن سے

وہ، دولتِ قمر تھے، ہم دامنِ کناں تھے
یہ داستاں ہے جب کی، جِس وقت ہم جواں تھے

ہر بے رُخی سِناں تھی، ہر اِلتِفات پھاہا
آنکھیں پِھرِیں تو ہے ہے ، آنکھیں مِلِیں تو آہا

کیا کہئیے عاشقی کو، کِس کِس طرح نبا ہا
ویسے ہی بَن گئے ہم، جیسے بُتوں نے چاہا

ناقوُس بَرہَمَن تھے ، بانگِ مُوَ ذِّناں تھے
یہ داستاں ہے جب کی، جِس وقت ہم جواں تھے

جوؔش ملیح آبادی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

تجھ کو یہ ڈر ہے ، کہ نامُوس گہِ عالَم میں
عِشق کے ہاتھوں، نہ ہو جائے تُو بدنام کہِیں

آج تک مجھ سے جو شرما کے بھی تُو کہہ نہ سکی!
وہ تِرا راز، زمانے میں نہ ہو عام کہِیں

یہ تِری شرطِ وَفا ہے، کہ وَفا کا قصّہ
دیکھ! سُن پائے نہ، گردش گَرِ ایّام کہِیں

تُو یقیں رکھ، کہ تِرے عِشق میں جیتے جیتے !
عدم آباد کے آغوش میں سو جاؤں گا

اور خُدا پُوچھے گا وہ راز باصرار تِرا
اُس کے اصرار سے ٹکرائے گا انکار مِرا

مجید امجؔد
 
Top