حال کے ہاتھوں سے مسُتقبل کا دامن تھام لے
مِل گئی ہے تجھ کو آزادی ، تو اِس سے کام لے
عشرتِ آغاز میں یُوں تو زمانہ ہے شرِیک
کیا کوئی ایسا بھی ہے، جو ذمّۂ انجام لے ؟
ماضئ مرحوُم کی ناکامِیوں کا ذکر چھوڑ
زندگی کی فرصتِ باقی سے کوئی کام لے
سیماؔب اکبرآبادی