شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

کُچھ بولنے دو

کھولنے دو
خشبو کے دریچے کھولنے دو
تولنے دو
اِس طائرِ جاں کو دُور دیس کے لمبے سفر پر جانے کو
پر تولنے دو

بولنے دو
اِس جسم کی قید میں سُرخ لہُو کو، بولنے دو
اِن سبز سنہرے پردوں کے اُس سمت
بڑا سنّاٹا ہے
مت ٹوکو مجھے، مت روکو مجھے
کُچھ بولنے دو

شہریاؔر
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے
کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے

وجہِ اِفراطِ محبّت جو ہُوا جاناں کی!
مجھ پہ اُس رب کی عنایت بھی کہِیں کُچھ کم ہے

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین


غمگساری


دوست مایوس نہ ہو
سِلسِلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر


تیری آنکھوں پہ سراشکوں کے ستارے کیسے
تجھ کو غم ہے تیری محبُوب تجھے مِل نہ سکی

اور جو زیست تراشی تھی تِرے خوابوں نے
آج وہ ٹھوس حقائق میں کہِیں ٹُوٹ گئی


تجھ کو معلوُم ہےمَیں نے بھی محبّت کی تھی
اور انجامِ محبّت بھی ہے معلُوم تجھے؟

انگنت لوگ زمانے میں رہے ہیں ناکام
تیرے ناکامی نئی بات نہیں دوست مِرے


کِس نے پائی ہے بھلا زیست کی تلخی سے نجات
چاروناچار یہ زہراب سبھی پیتے ہیں

جاں سپاری کے فریبندہ فسانوں پہ نہ جا
کون مرتا ہے محبّت میں؟ سبھی جیتے ہیں


وقت ہر زخم کو، ہر غم کو مِٹا دیتا ہے
وقت کے ساتھ، یہ صدمہ بھی گذر جائے گا

اور یہ باتیں، جو دہرائی ہیں میں نے اِس وقت!
تُو بھی اِک روز، اِنہِیں باتوں کو دُہرائے گا

دوست مایوس نہ ہو

احمد راہی
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی مآلِ محبّت مجھے بتاؤ نہیں
مَیں خواب دیکھ رہا ہُوں ، مجھے جگاؤ نہیں

کسی کی یاد ہے اِن کی مہک سے وابستہ
مجھے یہ پُھول خُدا کے لیے سنگھاؤ نہیں

محبت اور جوانی کے تذکرے نہ کرو
کسی ستائے ہُوئے کو بہت ستاؤ نہیں

یہ کہہ رہا ہے محبّت کی کاوِشوں سے دِل!
یہ میرے ہنسنے کے دِن ہیں، مجھے رُلاؤ نہیں

اُجڑ کے پِھر نہیں بستا جہانِ دِل ،اختؔر !
بہارِ باغ کو ، اِس پر دلیل لاؤ نہیں

اختؔر انصاری
 

طارق شاہ

محفلین

بیٹھے ہو، جو یُوں جسم کی قبروں میں سمٹ کر
کتبہ بھی سرِ قبر لگا کیوں نہیں دیتے

صیقل ہے خیالات کا آئینہ تو شاعؔر
یہ آئینہ دُنیا کو دِکھا کیوں نہیں دیتے

حمایت علی شاعؔر
 

طارق شاہ

محفلین

کالے کالے سارے منظر ہوگئے
کیا اندھیرے دِل کے اندر ہو گئے

تھے جو تنہا، موم تھا اپنا خمیر !
بِھیڑ میں لوگوں کی پتّھر ہوگئے

رشیدہ عیاؔں
 

طارق شاہ

محفلین

ہَمِیں سے رنگِ گُلِستاں، ہَمِیں سے رنگِ بہار !
ہَمِیں کو نظمِ گُلِستاں پہ اختیار نہیں

ساحرؔ لدھیانوی
 
Top