غمگساری
دوست مایوس نہ ہو
سِلسِلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر
تیری آنکھوں پہ سراشکوں کے ستارے کیسے
تجھ کو غم ہے تیری محبُوب تجھے مِل نہ سکی
اور جو زیست تراشی تھی تِرے خوابوں نے
آج وہ ٹھوس حقائق میں کہِیں ٹُوٹ گئی
تجھ کو معلوُم ہےمَیں نے بھی محبّت کی تھی
اور انجامِ محبّت بھی ہے معلُوم تجھے؟
انگنت لوگ زمانے میں رہے ہیں ناکام
تیرے ناکامی نئی بات نہیں دوست مِرے
کِس نے پائی ہے بھلا زیست کی تلخی سے نجات
چاروناچار یہ زہراب سبھی پیتے ہیں
جاں سپاری کے فریبندہ فسانوں پہ نہ جا
کون مرتا ہے محبّت میں؟ سبھی جیتے ہیں
وقت ہر زخم کو، ہر غم کو مِٹا دیتا ہے
وقت کے ساتھ، یہ صدمہ بھی گذر جائے گا
اور یہ باتیں، جو دہرائی ہیں میں نے اِس وقت!
تُو بھی اِک روز، اِنہِیں باتوں کو دُہرائے گا
دوست مایوس نہ ہو
احمد راہی