یار ہیں تو آپ باباجی مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میں اّپ کو بیٹا کہوں بہر حال عزیز تو رھیں گے میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ حرام کی کمائی تین طریقوں سے ضائع ھو جاتی ہے پہلا کہ وہ مال پر نکل جاتی ہے دوٕم جان پر اور سوٕم عزت پر ،اور یہ سب سے بد ترین ہے اللہ ہم سب پر رحم کرے ۔یہ سارے واقعات ہمارے لئے سبق ہیں ۔میں نے تو شائد بہت دیر سے سمجھا اللہ کا شکر ہے آپ کا شعورپختہ ہے اللہ آپ کو کامیاب کرے۔جناب syed Zubair کی کہانی سے مجھے کچھ یاد آگیا
اس میں جو مرکزی کردار ہے میں ان کا نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ پردہ رکھنا اللہ کا حکم ہے
یہ بات میں صرف عبرت حاصل کرنے کے لیئے آپ حضرات کے گوش گزار رہا ہوں نہ کہ کسی کی تضحیک کے لیئے ۔
تو جناب
یہ بات تب کی ہے جب ہم لوگ کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں رہا کرتے تھے ۔ ہمارے پڑوس میں ایک فیملی رہا کرتی تھی ۔
ماشاءاللہ بہت خوشحال لوگ تھے۔ ہمارے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ انکل کے پاس بڑی گاڑی تھی اور اکثر میری اور ان کی فیملی
کوئی نہ کوئی گھومنے پھرنے کا پروگرام بناتے تھے۔
پھر ہم لوگ دوسرے علاقے میں شفٹ ہوگئے اور ملنا ملانا کم ہوتے ہوتے بلاآخر نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ اور پھر تو جناب ان کی فیملی کے ساتھ
سمجھیں بدقسمتی کا ایسا دور شروع ہوا جو شاید آج بھی جاری ہے ۔
وہ انکل کراچی میں ایک سرکاری محکمہ میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے خوب رشوت لی اور ناجائز کمائی کی اور شاید آج بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلوائی اور شہر کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں اچھی خاصی رقوم خرچ کرکے پڑھایا۔
ان کا بڑا بیٹا مزید تعلیم کے لیئے کینیڈا گیا اور وہیں سیٹل ہوگیا اور آج تک واپس نہیں آیا۔
ان کی بیوی ان سے لڑکر علیحدہ ہوگئی۔
ان ایک ہی بیٹی ہے اس نے اپنے باپ سے بھی بڑی عمر کے ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر سے پسند کی شادی کرلی اور کچھ عرصے بعد
طلاق کا داٖغ اور اپنی کچھ مہینے کی بیٹی کو لے کر اپنی والدہ کے پاس آگئی۔
ان کے دوسرے بیٹے نے انجینئرنگ میں اعلٰی ڈگری حاصل کی اور ایک سرکاری ادارے میں اعلٰی جاب حاصل کی لیکن اچانک اس کا
ذہنی توازن خراب ہوگیا اور اسے کچھ ذہنی امراض کے ہسپتال میں رہنا پڑا۔اسے نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ پر کئی دفعہ ہاتھ اٹھایا۔
انکل کو فالج ہوا جس کی وجہ وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے۔
تو مجھے یہ سب لقمہ حرام کا نتیجہ نظر آتا ہے اور میں کانپ کے رہ جاتا ہوں۔
اور اللہ کا صد لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس نے اپنے کرم سے آج تک ناجائز کمائی سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اللہ ہم سب کو لقمہ حرام کھانے اور کمانے سے محفوظ رکھے۔
آپ کی بے حد محبت کا ہے سیّد صاحب کہ آپنے مجھے بیٹا سمجھایار ہیں تو آپ باباجی مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میں اّپ کو بیٹا کہوں بہر حال عزیز تو رھیں گے میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ حرام کی کمائی تین طریقوں سے ضائع ھو جاتی ہے پہلا کہ وہ مال پر نکل جاتی ہے دوٕم جان پر اور سوٕم عزت پر ،اور یہ سب سے بد ترین ہے اللہ ہم سب پر رحم کرے ۔یہ سارے واقعات ہمارے لئے سبق ہیں ۔میں نے تو شائد بہت دیر سے سمجھا اللہ کا شکر ہے آپ کا شعورپختہ ہے اللہ آپ کو کامیاب کرے۔
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، گمنام زندگی ، نیرنگ خیال ، فرحت کیانی ،یوسف ثانی ،مغل ، نایاب ، نیلم ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ ،
بہت ہی پیار ےساتھیو ! آپ نے میری سر گزشت پڑھی یقیناً دل گردے کا کام ہے ایک بوڑھے کی اتنی لمبی داستان پڑھنا ۔اس کے لیے میں آ پ کا بے حد مشکور ہوں ۔ اللہ آپ سب کےحلال رزق میں کشادگی عطا فرمائے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا فرمائے اور میرا سفر آسان کردے (آمین) آج چھے ستمبر کو میری بیٹی سیدہ آمنہ بتول کی ۲۳ ویں سالگرہ ہے اس کے متعلق میں اگلے ماہ تحریر کرونگا بشرط زندگی۔
ارے محترمہ تعبیر صاحبہ ؛ میں نے لفظ محترم سب کے لئے لکھا تھا مجھے محترم کی جمع کا متبادل لفظ ذہن میں نہیں آرہا تھا شائد گرامیان قدر موزوں لفظ تھا ۔ اور رہی بات فاتح کی توبھئی سچی بات یہ ہے کے اس کی شرارتانہ پنگے بازی عزیز ہے رہی تیسسری بات بوڑھا ہونے کی تو میں ہی نہیں کہتا مجھے دنیا کہتی ہے تو بھئی اتنے سارے لوگ کہتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہونگے نا ۔ چوتھی بات بیٹی کی سالگرہ کی کہانی اگلے ماہ کیوں تو اس کا جواب ہے میری اس اکلوتی بیٹی کی تیسری برسی اگلے ماہ ہے ۔ اب کوئی سوال نہ کرناہم سب کے خالی خولی نام لیکن فاتح عزیزم کیوں اور شمشاد بھائی تو کوئی شک نہیں کہ محترم ہیں لیکن ان دونوں کے ساتھ اتنا اسپیشل سلوک کیوں
اپنے اپ کو بار بار بوڑھا نا کہیں پلیز اور نا ہی بار بار ہمارا شکریہ
پڑھنے سے زیادہ لکھنا،ٹائپنگ کرنا مشکل ہے
اللہ آپ کو بھی صحت اور تندرستی اور سلامتی دے
دعاؤں کے لیے جزاک اللہ خیر
آپ کو سیدہ آمنہ بتول کی سالگرہ کی بہت بہت مبارک ہو
اگلے ماہ اتنا لیٹ کیوں ؟؟؟
جزاک اللہ بیٹا اللہ آپ کو بھرپور خوشیاں عطا فرمائے (آمین)syed Zubair انکل آپ کی تحریر نہایت سبق آموز ہے۔ خصوصاً ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیا نیا عملی زندگی میں قدم رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
جزاک اللہ خیر کہ آپ وقت نکال کر ہمارے ساتھ بہت کچھ شیئر کر رہے ہیں۔ مزید کا انتظار رہے گا۔
آپ کی آخری پوسٹ پڑھ کر آپ کی بیٹی کے بارے میں کچھ لکھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی۔
بہت خوب سید زبیر صاحبآج جو اپنی زندگی کا پورا ورق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں آپ جیسے نوجوانوں کے لیے بہت سبق ہے
۱۹۶۸ میں میں نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۲ سےمیٹرک کیا اور گونمنٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لے لیا یہ دور پاکستان میں سیاست کے آغاز کا دور تھا ہر طرف ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہورہے تھے کیا مشرقی پاکستان اور کیا مغربی پاکستان ، ہمارا نیا نیا خون تھا میری عمر پندرہ سال کی تھی مگر آج کے بچوں کی طرح پپو بچہ نہ تھا سٹریٹ لرننگ بہت تھی ہاں زندگی میں سٹریٹ لرننگ بہت کام آتی ہے آج کی سیاست میں آصف زرداری ، رحمان ملک اور الطاف حسین کو یہ علم حاصل ہے جبکہ بیشتر سیاستدان ،ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہیں۔ ہاں تو بات ہورہی تھی داخلہ لینے کے بعد ہم بھی اسی کو اپنی زندگی سمجھے اور اپنے مقصد سے دور ہوتے گئے نتیجہ یہ نکلا جو ایف اے ۱۹۷۰ میں کرنا تھا وہ ۱۹۷۲ تک نہ ہوسکا اور میٹرک کے میٹرک ہی رہے ۔آخر تعلیم کو خیر آباد کہا اور فرنٹیر کیمیکلز کے نام سے سائنسی آلات اور کیمیکلز کی دکان کھول لی ۔ یہا ں آپ کو عجیب بات بتاوں ہم بعض دفعہ آدمی کے ظاہر کو دیکھ کر بہت غلط اندازہ لگا لیتے ہیں ۔ جن صاحب نے مجھے اس دکان کا مشورہ دیا تھا وہ درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کرتے تھے اس زمانے میں درہ آدم خیل اسلحے کے لئے ملک اور بیرون ملک مشہور تھا ۔ ان صاحب کی سفید ڈاڑھی آنکھوں سے تھوڑا نیچے سے شروع ہوتی تھی اور کنگ سٹارک کی سگریٹ پیتے تھے ۔ان سے ملاقات لاہور میں اپننے چچا کی ورکشاپ میں ہوئی وہ وہاں اپنی کوئی مشین بنانے آئے تھے مزے کی بات بتاوں چچا نے دوران گفتگو کوئی لفظ انگریزی کا بول دیا تو ان صاحب نے اپنے چار دن کے قیام میں ایک لفظ اردو کا نہیں بولا انگریزی ہی میں گفتگو کرتے انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا یہ عبد الرحمان آفریدی پٹھان مجھ سے بہت شفقت سے ملا ۔میں گاہے گاہے گپ شپ کے لیے اور مشوروں کے لیے ان کے پاس درہ آدم خیل جاتا ۔بہر حال ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے میں نے کیمیکلز کا کا روبار شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں یہ اپنی نوعیت کی تیسری اور کوہاٹ میں واحد دکان تھی بہت کامیابی ہوئی ۔ بے پناہ پیسہ کمایا ڈیرہ اسماعیل خان کی آخری سرحد پروہا سے لے کر دیر ، لنڈیکوتل ، پارہ چنار ،وزیرستان اور مردان پشاور ایبٹ آباد تک میرے ٹھیکے چلتے تھے ۔ میرے مرحوم والد اور بڑی ہمشیرہ میرے کاروبار سے نا خوش تھے ۔کیونکہ بغیر رشوت دئے ٹھیکہ نہیں ملتا اور کیمیکلز و سا ئنسی آلات ، میں اتنی دھاندلی اور دو نمبری ہے کہ الاماں الحفیظ ۔ چونے کا پانی ، کیلشیم ہائیڈرو آکسائد کہلاتا ہے اور اس دور میں ۱۵ پیسےمیں بننے والی بوتل چالیس روپے کی بیچتا تھا ، اسی طرح پھتکڑی ،ایلم پوٹاش ، دھوبی سوڈا ، کیلشیم کاربونیٹ وغیرہ اس کے علاوہ زووالوجی لیبارٹری کے لئے محفوظ اور حنوط شدہ جانور ، ان کی علیحدہ داستان ہے ۔بلی کی کھالیں بھی سائنسی سامان بھی آتی تھی ۔ مضمون طویل ہو رہا ہے خیر اگر پڑھنا چاہیں تو قسطوں میں پڑھ لیجیے گا ۔ ایک دفعہ میران شاہ کے بیس مڈل سکولوں کے لئے ریڈی ایٹر کی ڈیمانڈ آئی میں نے اپنی دانست میں گاڑی کے ریڈیایٹر کے ٹن کے ماڈل کا اندزہ لگایا اور بتیس روپے فی کا ریٹ دے دیا یہ انہیں بیس درجن چاہیے تھے ریٹ منظور ہوگیاجب میں لاہور کے آبکاری روڈ ، انارکلی کی مارکیٹ میں گیا تو پتہ چلا کہ یہ شیشے کی ایک ٹیوب ہوتی ہے جو چھے روپے درجن ہے ۔ میں نے وہ سپلائی کردی منافع کا حساب آپ لگا لیں ۔ بہر حال والد مرحوم اور بڑی ہمشیرہ کی مخالفت کے باوجود میں یہ کاروبار کرتا رہا ۔ والدہ کا انتقال جب میں چھٹی جماعت کا امتحان دے رہا تھا اسی دور ہی میں ہوگیا تھا ۔بڑی ہمشیرہ جو شادی شدہ تھیں کہا کرتی تھیں کہ زبیر ایک وقت آئے گا کہ اس حرام کمائی کے باعث تمہاری دعا بھی قبول نہ ہو گی آپ یقین کریں کہ اس کاروبار میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کو سامان سپلائی کیا مگر گنتی کے دو تین مرد ایسے ملے جو رشوت نہ لیتے تھے باقی سب خوب دبا کر لیتے تھے اور خواتین میں سے صرف ایک خاتون ملیں جو کالج کی پرنسپل تھیں جنہوں نے رشوت لی باقی کسی نے نہ لی ۔ ۱۹۸۰ میں مجھے بھی اس حقیقت کا احساس ہوا کہ اتنے اچھے کاروبار سے کوئی جائداد وغیرہ بن نہیں رہی بس اچھا کھا پی کر ہی گزارہ ہو رہا ہے ۔ میں نے اللہ سے توبہ کی اور دعا کی کہ مجے کوئی اور کاروبار پر لگادے ۔ حالات نے پلٹہاکھایا اور میں نے جنرل سٹور کھول لیا ۔ کوہاٹ میں نیشنل فوڈز کی ڈسٹریبیوٹر شپ لی محنت کی صبح سات بجے دکان کھولتا اور رات گیارہ بجے بند کرتا ۔ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے بہت ذمہ داری تھی کاروبا ر سے اخراجات اچھی طرح پورے ہو رہے تھے بہنٰیں ایم فل اور ماسٹرز وغیرہ کررہی تھیں یونیورسٹی پشاور میں تھی ہاسٹل اور تعلیمی اخراجات اللہ کی مدد سے پورے ہورہے تھے والد صاحب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور میں ابھی تک میٹرک کا میٹرک ۔ دوست احباب اور تعلیمی اداروں کے پرانے گاہک مجھے بہت کہتے کہ ساتھ ساتھ ٹھیکیداری بھی کرتے رہو یہ ایک ایسا ٹیکنیکل کام تھا جو تجربے ہی سے آتا ہے مگر میں انکار کرتا رہا ۔ ۱۹۸۱ آگیا میں نے سوچا کہ ایف اے کر ہی لوں ا۹۸۲ میں میٹرک کے چودہ سال بعد میں نے ایف کیا کتنا وقت برباد ہوا حساب آپ کریں اور ۱۹۸۴ میں پشاور یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا ۔ ۱۹۸۳ میں میری دکان کی روزانہ کی سیل چار ہزار سے اوپر ہوتی اور نیشنل فوڈز کی آمدن علیحدہ تھی معقول آمدن تھی دوستوں کی ترغیب کی وجہ سے میں نے دوبارہ پانچ چھے ٹھیکے لے لئے ۔ اب اللہ کی قدرت دیکھیے کہ جس دکان سے میں روزانہ چار پانچ ہزار کی سیل لے کر جاتا ایک دن میں صرف چالیس روپے یعنی دس دس کے چار نوٹ لے کر رات کو گیا ۔ وجہ سمجھ میں یہی آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ بندہ پھر گندگی اور غلاظت کیطرف جارہا ہے تو حلال کی کمائی بند کردی ۔ بڑا زور دار جھٹکا تھا ۔ خیر توبہ کا دروازہ تو بند نہیں ہوتا ۔ جیسے ہی ٹھیکے ختم ہوئے میں نے ہمیشہ کے لیے ٹھیکیداری چھوڑ دی ۔ اب قدرت نے کچھ اور منظر دکھائے کوہاٹ کے ایک اس دور کے کروڑ پتی تاجر کو جو بزرگ تھے اپنے بیٹے کی شادی کے موقعے پر کسی کی ہوائی فئر نگ کی وجہ سے پولیس نے گرفتار کر لیا ہتھکڑیاں لگائیں اور تھانے لے گئے گو کہ ان کی ضمانت ہو گئی لیکن مجھ پر شدید اثر ہوا کہ دکاندار کی کیا عزت ہے دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میرے سامنے کا دکاندار بیمار ہو گیا دکان بند ہو گئی خرچہ بڑھتے رہے اور آمدن ختم ہو گئی تو میں نے سوچا زبیر اگر تم بیمار ہو گئے تو یہ سارا کیا ہوگا میرا تو کوئی بھی نہ تھا والد صاحب ضعیف تھے۔ اسی دوران پاک فضائیہ میں ملازمت کا اشتہار آگیا ، تدریس کے لئے جونئر کمیشنڈ آ فیسر کی اسامیاں تھیں گریجویٹ مانگے تھے درخواست دی ٹیسٹ وغیرہ پاس کیے اور ۱۹۸۵ میں پاک فضا ئیہ میں بھرتی ہو گیا ۔شعبہ تدریس تھا ۱۹۹۴ میں بی اے کے تقریباً دس سال بعد اردو میں ایم اے کیا بعد میں فضائیہ کے تعلقات عامہ شعبے میںآ گیا جہاں سے ۲۰۰۸ میں اعزازی فلائیٹ لیفٹنٹ کے طور پر ریٹائر ہوا ۔ اللہ کا شکر ہے اب میری اولاد مکمل حلال کمائی پر پرورش پا رہی ہے گو کہ جائداد نام کی کوئی شے نہیں مگر سکون ہے۔ میں نے جو سیکھا وہ یہ کہ ہر امر کا ایک وقت مقرر ہے جو اس وقت واقعہ ہوتا ہے کوشش فرض ہے کہ نہ جانے وہ وقت کب ہو ۔حلال کی کمائی میں جو سکوں اور عزت ہے وہ حرام میں نہیں ہے کسی کی حق تلفی نہ کریں آپ کی حق کی حفاظت اللہ کرتا ہے ۔ کسی ظاہری حیثیت کو مت دیکھیں ہو سکتا ہے وہ شخص آپ سے زیادہ خوبیوں کا مالک ہو کیونکہ اللہ تبارک ٰ تعالیٰ انسان کو وہ تمام صلا حیتیں عطا کر کے اس دنیا میں بھیجتے ہیں جو اس کے زندگی کے سفر میں کام آتی ہیں
بہت ہی پیار ےساتھیو ! آپ نے میری سر گزشت پڑھی یقیناً دل گردے کا کام ہے ایک بوڑھے کی اتنی لمبی داستان پڑھنا ۔اس کے لیے میں آ پ کا بے حد مشکور ہوں ۔ اللہ آپ سب کےحلال رزق میں کشادگی عطا فرمائے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا فرمائے اور میرا سفر آسان کردے (آمین) آج چھے ستمبر کو میری بیٹی سیدہ آمنہ بتول کی ۲۳ ویں سالگرہ ہے اس کے متعلق میں اگلے ماہ تحریر کرونگا بشرط زندگی۔
واقعی حرام کی کمائی اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حرام کمائی سے محفوظ رکھےجناب syed Zubair کی کہانی سے مجھے کچھ یاد آگیا
اس میں جو مرکزی کردار ہے میں ان کا نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ پردہ رکھنا اللہ کا حکم ہے
یہ بات میں صرف عبرت حاصل کرنے کے لیئے آپ حضرات کے گوش گزار رہا ہوں نہ کہ کسی کی تضحیک کے لیئے ۔
تو جناب
یہ بات تب کی ہے جب ہم لوگ کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں رہا کرتے تھے ۔ ہمارے پڑوس میں ایک فیملی رہا کرتی تھی ۔
ماشاءاللہ بہت خوشحال لوگ تھے۔ ہمارے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ انکل کے پاس بڑی گاڑی تھی اور اکثر میری اور ان کی فیملی
کوئی نہ کوئی گھومنے پھرنے کا پروگرام بناتے تھے۔
پھر ہم لوگ دوسرے علاقے میں شفٹ ہوگئے اور ملنا ملانا کم ہوتے ہوتے بلاآخر نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ اور پھر تو جناب ان کی فیملی کے ساتھ
سمجھیں بدقسمتی کا ایسا دور شروع ہوا جو شاید آج بھی جاری ہے ۔
وہ انکل کراچی میں ایک سرکاری محکمہ میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے خوب رشوت لی اور ناجائز کمائی کی اور شاید آج بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلوائی اور شہر کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں اچھی خاصی رقوم خرچ کرکے پڑھایا۔
ان کا بڑا بیٹا مزید تعلیم کے لیئے کینیڈا گیا اور وہیں سیٹل ہوگیا اور آج تک واپس نہیں آیا۔
ان کی بیوی ان سے لڑکر علیحدہ ہوگئی۔
ان ایک ہی بیٹی ہے اس نے اپنے باپ سے بھی بڑی عمر کے ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر سے پسند کی شادی کرلی اور کچھ عرصے بعد
طلاق کا داٖغ اور اپنی کچھ مہینے کی بیٹی کو لے کر اپنی والدہ کے پاس آگئی۔
ان کے دوسرے بیٹے نے انجینئرنگ میں اعلٰی ڈگری حاصل کی اور ایک سرکاری ادارے میں اعلٰی جاب حاصل کی لیکن اچانک اس کا
ذہنی توازن خراب ہوگیا اور اسے کچھ ذہنی امراض کے ہسپتال میں رہنا پڑا۔اسے نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ پر کئی دفعہ ہاتھ اٹھایا۔
انکل کو فالج ہوا جس کی وجہ وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے۔
تو مجھے یہ سب لقمہ حرام کا نتیجہ نظر آتا ہے اور میں کانپ کے رہ جاتا ہوں۔
اور اللہ کا صد لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس نے اپنے کرم سے آج تک ناجائز کمائی سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اللہ ہم سب کو لقمہ حرام کھانے اور کمانے سے محفوظ رکھے۔
عزیزم !میں کوہاٹ کا جدی پشتی نہیں ہوں۔اتفاق سے میری جڑیں 1947 میں زمین سے اکھڑ گئیں تھیں اور میرے والد لاکھوں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آگئے والد صاحب سرکاری ملازم تھے بنوں میں تعینات ہوئے 1962 میں جب میری عمر نو سال تھی کوہاٹ آگئے اور ساری عمر کوہاٹ میں رہے والد ،والدہ اورمیرے ایک بیٹے کی قبر کوہاٹ ہی میں ہے۔ اگرچہ دنیا میں میری کوئی جائداد قسم کی شے نہیں ،کوہاٹ میں کوئی رشتہ دار نہیں مگر کوہاٹ سے جو انسیت ہے کسی شہر سے نہیں ۔آج کل اسلام +باد میں ملازمت کرتا ہوں مگر کوہاٹ میں شائد ہی کوئی گلی کوچہ ہو جہاں شناسائی نہ ہو۔ اب تو آبادی بہت بڑھ گئی ہے 1965 میں جب مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی تو آپ اندازہ لگا لیں کوہاٹ کی آبادی کیا ھوگی ۔ امید ہے تعارف مکمل ہو گیا ہوگا اگر آپ کا تعلق بھی کوہاٹ سے ہے تو ضرور بتائیںبہت خوب سید زبیر صاحب
حضرت یہ بتابا پسند کریں گے کہ آپ کوہاٹ کی سادات کی کونسی شاخ سے ہیں۔۔۔ ۔گیلانی۔۔۔ ۔بنوری یا پھر پیران میں سے ہیں
سید زبیر صاحب بندے کا تعلق پشاور سے ہے۔کوہاٹ میں پیر حبیب شاہ کا بہت فین تھا جس کو پولیس مقابلہ میں مار دیا گیا تھا۔ باقی کوہاٹ کے لوگوں کے ساتھ تعلق تو بہت ہے لیکن ایسا بھی زیادہ نہیں کہ قابل تذکرہ ہو۔عزیزم !میں کوہاٹ کا جدی پشتی نہیں ہوں۔اتفاق سے میری جڑیں 1947 میں زمین سے اکھڑ گئیں تھیں اور میرے والد لاکھوں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آگئے والد صاحب سرکاری ملازم تھے بنوں میں تعینات ہوئے 1962 میں جب میری عمر نو سال تھی کوہاٹ آگئے اور ساری عمر کوہاٹ میں رہے والد ،والدہ اورمیرے ایک بیٹے کی قبر کوہاٹ ہی میں ہے۔ اگرچہ دنیا میں میری کوئی جائداد قسم کی شے نہیں ،کوہاٹ میں کوئی رشتہ دار نہیں مگر کوہاٹ سے جو انسیت ہے کسی شہر سے نہیں ۔آج کل اسلام +باد میں ملازمت کرتا ہوں مگر کوہاٹ میں شائد ہی کوئی گلی کوچہ ہو جہاں شناسائی نہ ہو۔ اب تو آبادی بہت بڑھ گئی ہے 1965 میں جب مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی تو آپ اندازہ لگا لیں کوہاٹ کی آبادی کیا ھوگی ۔ امید ہے تعارف مکمل ہو گیا ہوگا اگر آپ کا تعلق بھی کوہاٹ سے ہے تو ضرور بتائیں
واہ غزنوی جی واہ۔۔۔۔مزاہ آگیا۔۔۔فراز کے شعر نے بہت لطف دیاروحانی بابا چلئیے اس سیلاب کا یہ فائدہ تو ہوا کہ آپکا برسوں کا رکا ہوا دل کا غبار نکل گیا (پنجابی میں اسے ڈکّا کھل جانا کہتے ہیں )۔۔۔ ۔۔
اک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم
اے راحتِ جاں مجھ کو رلانے کیلئے آ۔۔۔ ۔۔۔
جزاک اللہ ماشاء اللہ لفظ ق کا کیا برجستہ،برمحل اور فی البدیہہ استعمال بلا شک و شبہ آپ کے قلب پر کسی آمد سے کم نہیں۔محترم بھائی روحانی بابا
بھائی محمود احمد غزنوی سے مکمل متفق ہوتے اتنا اضافہ کروں گا کہ
باران رحمت جسے زحمت سمجھا گیا ۔ وہ تمام گرد و زنگ اتارتےآپ کے " ق ، قلب " کو صیقل کر گئی ۔
" آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات " گداز پیدا کر گئی ۔
سبحان اللہ
آپ ضرور اس بارے میں کچھ پیش کریں کیونکہ جیسا کہ آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ میرا تعلق تصوف سے ہے اور اس لائن میں حضور غوث الثقلین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد پتہ کیوں میرا قلب ابراہیم قندوزی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بہت زیادہ مائل ہے جس کی کوئی خاص وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی ہے۔ واضح ہو کہ یہ وہی ابراہیم قندوزی ہیں جنہوں نے خواجہ غریب النواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے انگوروں کے باغ میں آکر ان کو کچھ انگور اپنے منہ ڈال کر چبا کر دیئے تھے۔ جس کی وجہ سے خواجہ صاحب کے قلب کی کیفیت بدل گئی اور آپ باغ راہ خدا میں نذر کرکے اللہ کی راہ میں نکل گئے تھے۔عزیزم ،روحانی بابا ! میرا غریب خانہ مسجد پیر بابا کابلی کے قریب تھا نماز وہیں ادا کرتا تھا لیکن سچی بات ہے کہ پیر صاحب کے بارے میں میرے پاس کوئی مصدقہ معلومات نہیں ھے۔البتہ انشا اللہ بہت جلد پیش کرونگا
ضرور انشا اللہآپ ضرور اس بارے میں کچھ پیش کریں کیونکہ جیسا کہ آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ میرا تعلق تصوف سے ہے اور اس لائن میں حضور غوث الثقلین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد پتہ کیوں میرا قلب ابراہیم قندوزی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بہت زیادہ مائل ہے جس کی کوئی خاص وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی ہے۔ واضح ہو کہ یہ وہی ابراہیم قندوزی ہیں جنہوں نے خواجہ غریب النواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے انگوروں کے باغ میں آکر ان کو کچھ انگور اپنے منہ ڈال کر چبا کر دیئے تھے۔ جس کی وجہ سے خواجہ صاحب کے قلب کی کیفیت بدل گئی اور آپ باغ راہ خدا میں نذر کرکے اللہ کی راہ میں نکل گئے تھے۔
محترم بھائیآپ ضرور اس بارے میں کچھ پیش کریں کیونکہ جیسا کہ آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ میرا تعلق تصوف سے ہے اور اس لائن میں حضور غوث الثقلین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد پتہ کیوں میرا قلب ابراہیم قندوزی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بہت زیادہ مائل ہے جس کی کوئی خاص وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی ہے۔ واضح ہو کہ یہ وہی ابراہیم قندوزی ہیں جنہوں نے خواجہ غریب النواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے انگوروں کے باغ میں آکر ان کو کچھ انگور اپنے منہ ڈال کر چبا کر دیئے تھے۔ جس کی وجہ سے خواجہ صاحب کے قلب کی کیفیت بدل گئی اور آپ باغ راہ خدا میں نذر کرکے اللہ کی راہ میں نکل گئے تھے۔