شمشاد
لائبریرین
نہ گھبرا آنے کے کسی مہمان سے
اپنا رزق کھا رہا ہےترے دسترخوان سے
اللہ تعالٰی انسان کو ایسی جگہوں سے رزق دیتا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
نہ گھبرا آنے کے کسی مہمان سے
اپنا رزق کھا رہا ہےترے دسترخوان سے
تنخواہ والوں کو نہیں دیتا مجھے تو ایسے کبھی نہیں ملااللہ تعالٰی انسان کو ایسی جگہوں سے رزق دیتا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
کیوں کہ اس کو ایسی جگہ سے دے دیا ناںتنخواہ والوں کو نہیں دیتا مجھے تو ایسے کبھی نہیں ملا
وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ مجھے پتہ ہے جہاں سے رزق ملتا ہے اور کبھی کبھی تو کم بھی ملتا ہےکیوں کہ اس کو ایسی جگہ سے دے دیا ناں
جہاں جہاں اس کا گمان تھا
یہ کیا بات ہوئیخدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ کیا سمجھے۔
شمشاد بھائی کی اور میری ایک ہی بات ہوئ ،یہ کیا بات ہوئی
میں جب پیٹ بھر کے کھا لیتا ہوں غور نہیں فرما سکتا شام کو دیکھیں گےشمشاد بھائی کی اور میری ایک ہی بات ہوئ ،
ذرا غور مار کر پڑھیں ۔
دیکھنا نہیں ۔میں جب پیٹ بھر کے کھا لیتا ہوں غور نہیں فرما سکتا شام کو دیکھیں گے
بہت خوب جناباب بات چل نکلی ہے تو کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔ 2004 میں مجھے کمپنی کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے مین چائنا جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریباّ ایک مہینہ شنگھائی کے ایک انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری میں کمپنی کی طرف سے انسپکن کا کام کرنا تھا۔ فیکٹری والوں نے میری رہائش کا بندوبست بھی انڈسٹریل ایریا میں ہی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کیا ۔ آس پاس فیکٹریاں ہی فیکٹریاں تھیں اور یہ جگہ شہر سے ہٹ کر تھی۔
مجھے بقول غالب یہ فکر لاحق تھی کہ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟
یعنی وہاں تو عجیب و غریب قسم کے کھانے ہیں اور تقریباّ ہر کھانا ہی جس تیل یا چربی میں پکایا جاتا ہے وہ حرام جانور کی ہے (واضح ہو کہ باقی بہت سے مسلمانوں کی طرح میری مسلمانی بھی زیادہ تر کھانے پینے کے امور سے تعلق رکھتی ہے) ۔
شہر ہوتا تو شائد کوئی بندوبست ہوجاتا، یہ تو انڈسٹریل ایریا ہے ویران سی جگہ ہے، کوئی خاص مارکیٹیں بھی نہیں ہیں یہاں۔
خیر پہلے دن تو ابلے ہوئے انڈوں کا ناشتہ کیا اور باقی وقت میں سیب وغیرہ کھاکر گذارہ کیا۔ میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ اسی طرح پورا ایک مہینہ چلالیتے ہیں۔
دوسرے دن شام کے وقت ذرا وقت گذاری کیلئے باہر نکلا اور سڑک پر بے مقصد مٹر گشت کرنے لگا۔ دسمبر کے آخری دن تھے اور 0 ٹمپریچر تھا۔۔خیر سردی میں چلنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ تو بس یونہی چلتا جارہا تھا کہ اچانک ایک دوکان کے آگے سے گذرنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میں نے کوئی جانی پہچانی سی چیز دیکھی ہو۔ آگے نکل چکا تھا لیکن الٹے قدموں واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جسکے اندر کھانے کی دو چار میزیں لگی ہوئی تھیں اور دیواروں پر مکّے مدینے کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ دکان میں کام کرنے والے چینی لڑکے ہپی تھے لیکن ان کے سر پر ٹوپیاں تھیں ۔۔۔ اندر داخل ہوا تو پتہ چلا کہ یہ تو مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے اور مجھے دیکھتے ہی دکان کا مالک مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر کچن میں لے گیا جہاں ایک خوبصورت سی چینی خاتون کھانا پکارہی تھیں۔ انہوں نے فریزر میں لگے گوشت کی طرف اشارہ کیا اور حلال گوشت کی مہر دکھائی ۔۔بس پھر کیا تھا باقی پورا مہینہ انکے ساتھ دو وقت کا کھانا چلتا رہا جو زیادہ تر فرائیڈ گوشت ہی ہوتا تھا۔ بہت اچھے لوگ تھے کھانے کے ساتھ انہوں نے دو عدد چاپ سٹکس دیں لیکن میرے انداز سے سمجھ گئے کہ یہ بندہ تو پینڈو ہے اسکو چاپ سٹکس استعمال کرنا نہیں آتیں۔ بہت ہنسے اور پھر اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ لکڑی کی ٹوتھ پکس کو کانٹے کے طور پر استعمال کیا جائے۔۔۔ ۔انکے ساتھ ایک دوستی سی ہوگئی اور واپس آتے وقت اس پوری فیملی کے ساتھ کافی تصویریں وغیرہ کھینچی گئیں، تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ خوبصورت لوگ تھے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بندے کا رازق، وہ رب ہے، جو انسان کو وہاں سے بھی رزق مہیا کرتا ہے جہاں اس بندے کا گمان تک نہیں ہوتا۔
بعد میں میں اس پورے علاقے میں کافی گھوما پھرا اور شنگھائی کی بھی سیر کی، لیکن کسی بھی جگہ پر مسلمان یا انکا کوئی ریسٹورنٹ مجھے نظر نہیں آیا (یقیناّ ہونگے)۔۔۔ جبکہ جس ویران جگہ پر میں جاکر ٹھہرا تھا، وہیں سامنے چند قدم کے فاصلے پر میرے لئے مناسب رزق کا بندوبست ہوچکا تھا۔۔۔ ۔اب اسے اتفاق کے کھاتے میں ڈال دیں تو کچھ بھی نہیں، لیکن اگر اسے پروردگارِ عالم کی رزاقی کے حوالے سے دیکھیں تو بہت بڑا سبق ہے
بہت خوب جناباب بات چل نکلی ہے تو کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔ 2004 میں مجھے کمپنی کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے مین چائنا جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریباّ ایک مہینہ شنگھائی کے ایک انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری میں کمپنی کی طرف سے انسپکن کا کام کرنا تھا۔ فیکٹری والوں نے میری رہائش کا بندوبست بھی انڈسٹریل ایریا میں ہی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کیا ۔ آس پاس فیکٹریاں ہی فیکٹریاں تھیں اور یہ جگہ شہر سے ہٹ کر تھی۔
مجھے بقول غالب یہ فکر لاحق تھی کہ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟
یعنی وہاں تو عجیب و غریب قسم کے کھانے ہیں اور تقریباّ ہر کھانا ہی جس تیل یا چربی میں پکایا جاتا ہے وہ حرام جانور کی ہے (واضح ہو کہ باقی بہت سے مسلمانوں کی طرح میری مسلمانی بھی زیادہ تر کھانے پینے کے امور سے تعلق رکھتی ہے) ۔
شہر ہوتا تو شائد کوئی بندوبست ہوجاتا، یہ تو انڈسٹریل ایریا ہے ویران سی جگہ ہے، کوئی خاص مارکیٹیں بھی نہیں ہیں یہاں۔
خیر پہلے دن تو ابلے ہوئے انڈوں کا ناشتہ کیا اور باقی وقت میں سیب وغیرہ کھاکر گذارہ کیا۔ میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ اسی طرح پورا ایک مہینہ چلالیتے ہیں۔
دوسرے دن شام کے وقت ذرا وقت گذاری کیلئے باہر نکلا اور سڑک پر بے مقصد مٹر گشت کرنے لگا۔ دسمبر کے آخری دن تھے اور 0 ٹمپریچر تھا۔۔خیر سردی میں چلنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ تو بس یونہی چلتا جارہا تھا کہ اچانک ایک دوکان کے آگے سے گذرنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میں نے کوئی جانی پہچانی سی چیز دیکھی ہو۔ آگے نکل چکا تھا لیکن الٹے قدموں واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جسکے اندر کھانے کی دو چار میزیں لگی ہوئی تھیں اور دیواروں پر مکّے مدینے کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ دکان میں کام کرنے والے چینی لڑکے ہپی تھے لیکن ان کے سر پر ٹوپیاں تھیں ۔۔۔ اندر داخل ہوا تو پتہ چلا کہ یہ تو مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے اور مجھے دیکھتے ہی دکان کا مالک مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر کچن میں لے گیا جہاں ایک خوبصورت سی چینی خاتون کھانا پکارہی تھیں۔ انہوں نے فریزر میں لگے گوشت کی طرف اشارہ کیا اور حلال گوشت کی مہر دکھائی ۔۔بس پھر کیا تھا باقی پورا مہینہ انکے ساتھ دو وقت کا کھانا چلتا رہا جو زیادہ تر فرائیڈ گوشت ہی ہوتا تھا۔ بہت اچھے لوگ تھے کھانے کے ساتھ انہوں نے دو عدد چاپ سٹکس دیں لیکن میرے انداز سے سمجھ گئے کہ یہ بندہ تو پینڈو ہے اسکو چاپ سٹکس استعمال کرنا نہیں آتیں۔ بہت ہنسے اور پھر اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ لکڑی کی ٹوتھ پکس کو کانٹے کے طور پر استعمال کیا جائے۔۔۔ ۔انکے ساتھ ایک دوستی سی ہوگئی اور واپس آتے وقت اس پوری فیملی کے ساتھ کافی تصویریں وغیرہ کھینچی گئیں، تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ خوبصورت لوگ تھے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بندے کا رازق، وہ رب ہے، جو انسان کو وہاں سے بھی رزق مہیا کرتا ہے جہاں اس بندے کا گمان تک نہیں ہوتا۔
بعد میں میں اس پورے علاقے میں کافی گھوما پھرا اور شنگھائی کی بھی سیر کی، لیکن کسی بھی جگہ پر مسلمان یا انکا کوئی ریسٹورنٹ مجھے نظر نہیں آیا (یقیناّ ہونگے)۔۔۔ جبکہ جس ویران جگہ پر میں جاکر ٹھہرا تھا، وہیں سامنے چند قدم کے فاصلے پر میرے لئے مناسب رزق کا بندوبست ہوچکا تھا۔۔۔ ۔اب اسے اتفاق کے کھاتے میں ڈال دیں تو کچھ بھی نہیں، لیکن اگر اسے پروردگارِ عالم کی رزاقی کے حوالے سے دیکھیں تو بہت بڑا سبق ہے
یار آپ شیئر کریں اس میں کچھ اصلاح یا سیکھنے سکھانے کی کوئی شرط نہیں ہےمیرے بھی کچھ سچ بیتیاں ہیں پر ان میں اصلاح حاصل کرنے کو کوئی موقع نہیں۔ تو سوچ رہا ہوں کہ ادھر پیش کروں کہ نہیں
کرتا ہوں پیش۔۔۔ وہ ذرا شرارتیں زیادہ ہیں اور سچ بیتیاں کمیار آپ شیئر کریں اس میں کچھ اصلاح یا سیکھنے سکھانے کی کوئی شرط نہیں ہے
یہ ہربندے کا انفرادی عمل ہوتا ہے کہ اس نے کچھ سیکھا یا نہیں
پلیز شیئر کریں جو بھی آپ کے ساتھ بیتی ہے
ہم انتظار کر رہے ہیں
آپ نے شرارت کی اور پھر اس شرارت کے بعد جو کچھ ہوا آپ کے ساتھکرتا ہوں پیش۔۔۔ وہ ذرا شرارتیں زیادہ ہیں اور سچ بیتیاں کم
ہا ہا ہا نیرنگ کچی گولیاں نہیں کھیلتا۔اس لیئے کبھی پکڑا نہیں گیاآپ نے شرارت کی اور پھر اس شرارت کے بعد جو کچھ ہوا آپ کے ساتھ
تو میرے بھائی وہ سچ میں اپ کے ساتھ ہی بیتی نہ
آپ اسے کہہ سکتے ہیں "وہ سچ جو شرارت کے بعد بیتا"
اب آپ ہمارے ساتھ گولیاں نہ کھیلیں اور اپنی سچ بیتی شیئر کریںہا ہا ہا نیرنگ کچی گولیاں نہیں کھیلتا۔اس لیئے کبھی پکڑا نہیں گیا