صرف سچ بیتیاں

سبق آموز واقعات تو بیشمار ہیں اگر انسان غور کرے تو۔ آج صبح کا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ یہاں یو اے ای میں بچوں کے سکول آج کھل گئے ہیں۔ میرے تینوں بچے اسکول میں نئے نئے داخل ہوئے ہین۔ آج انکا اس سکول میں پہلا دن تھا۔ چونکہ ابھی بچوں کیلئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہیں ہوا تھا، اسی لئے صبح میں انکو اپنے ساتھ لیکر گیا۔ جب سکول بس والوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ ہر بس کی سیٹیں فل ہیں اور انکو سکول لانے اور لیجانے کا کوئی انتظام نہیں۔ سکول مینجمنٹ سے بات کی لیکن انہوں نے بھی معذرت ہی ظاہر کی۔اب میں پریشان کہ تینوں بچوں کی ٹرانسپورٹ کا کیابندوبست کروں، اپنی جاب کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ یہ کام خود ہی کرلیا کروں۔۔۔۔ابھی اسی پریشانی میں تھا کہ اچانک ایک صاحب سکول کے آفس میں داخل ہوئے اور ٹرانسپورٹیشن مینجر سے کہنے لگے کہ انہوں نے اپنی رہائش تبدیل کرلی ہے اور اب وہ الزہرا سے النعیمیہ میں شفٹ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انکے تینوں بچوں کی بس تبدیل کردی جائے۔ اب اسے اتفاق کہئیے یا کچھ اور، کہ میرے بھی تین ہی بچے ہیں اور میں بھی الزہرا کے ایریا میں رہتا ہوں۔۔چنانچہ یہ مسئلہ تو اسی وقت کھڑے کھڑے حل ہوگیا۔۔
میں سوچ رہا تھا کہ ایسے کتنے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات ہماری زندگی میں خاموشی سے وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن ہم لوگوں کو پھر بھی اللہ پر پوری طرح بھروسہ نہیں حاصل ہوتا اور اپنی پریشانیوں، بے یقینیوں اور وسوسوں میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔ :)
 

باباجی

محفلین
بالکل سچ کہا آپ نے محمود احمدغزنوی بھائی
میں بھی ایسا ہی کچھ شیئر کرنا چاہوں گا
یہ 2010 کی بات ہے میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے ایک پروموشن پروجیکٹ میں بطور ایریا مینجر کام کر رہا تھا اور میری پوسٹنگ رحیم یار خان میں تھی
مجھے ایک اسسٹنٹ رکھنے کی اجازت تھی تو میں نے اپنےچھوٹے بھائی فیضان کو اسسٹنٹ اپائنٹ کرلیا(کسی کو بتایا نہیں کہ یہ میرا بھائی ہے ) تو پہلے
مہینے کی بات ہے کے ہماری تنخواہ لیٹ ہو گئی تھی اور بہت زیادہ تنگی ہو رہی تھی کافی قرض چڑھ گیا تھا ۔ تو جناب ایک دن صبح اٹھا اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف 50 روپے تھے میں نے چھوٹے بھائی سے پوچھا تو اس کے پاس 30 روپے تھے ۔ ہم کہا چلو ناشتہ تو کریں آگے اللہ مالک ہے ۔ خیر جناب ناشتہ کیا اور دفتر میں بیٹھ گئے میں دہ کمروں کا پورشن کرائے پر لیا ہوا تھا ۔ ایک میں آفس تھا اور ایک سونے کے لیئے استعمال ہوتا تھا ۔ دوپہر آئی تو پھر بھوک لگی تو میں نے کہا یار فیضان میرے پاس 2 موبائل ہیں ایک بیچ دیتے ہیں کچھ گزارا تو ہوگا کیونکہ صرف کھانا نہیں اور بھی ضروریات ہیں تو ہم لوگ مارکیٹ چلے گئے ابھی ہم دکان میں داخل ہی ہورہے تھے کہ ہمارے ایک بہت عزیز دوست اور روحانی استاد محترم بابا عبدالغفار چشتی صاحب کا فون آگیا کہ آپ کہاں ہیں شاہ جی تو میں نےکہا کہ بابا صاحب میں مارکیٹ آیا ہوں موبائل سیل کرنے پھر پوچھا کہ چھوٹے شاہ جی کہاں ہیں تو میں نے کہا وہ بھی ساتھ ہی ہے تو چشتی صاحب نے کہا کہ آپ میرے گھر آجائیں فوراً تو میں نے کہا بس میں موبائل سیل کرکے آتا ہوں تو کہنے لگے کہ سب کام چھوڑو اور فوراً پہنچو تو جناب بڑے کا حکم سر آنکھوں پر بھاگم بھاگ وہاں پہنچے تو بابا جی نے کہا کہ آج آپ لوگوں کے لیئے میں نے خود بکرے کا گوشت بنایا ہے ۔ یہ سن کر میں نے اور چھوٹے بھائی نےایک دوسرے کی طرف دیکھا ، پھر کھانا کھاتے ہوئے ہم نے یہ سب بابا چشتی کو بتایا تو وہ ہلکے سے مسکرائے اور کہا اللہ خیر کرے گا یہ سن کر پتا نہیں کیوں یقین ہوگیا کہ واقعی اللہ خیر کرے گا تو جناب پھر کھانے کے بعد ہم آرام کرنے کے لیئے ان کے حجرے میں ہی لیٹ گئے ۔ دوپہر 3:30 پر میرے باس کی کال آئی تو میں نے رسیو کی کہ دیکھوکیا نیا آرڈر ملتا ہے تو میرے باس نے کہا کہ فراز تم فوراً بینک جاؤ اور اپنی اور اپنے اسسٹنٹ کی تنخواہ نکلوالو میں نے کہا بہت شکریہ باس میں واقعی بہت تنگ تھا تو اس نے کہا کہ مجھے پتا تھا تم تنگ ہوگے اور تمہاری جاب کا پہلا مہینہ ہے اور تم ہو بھی دوسرے شہر میں اسلیئے میں تمہیں اپنی طرف سے پیسے دے رہا ہوں جب کمپنی دے گی تو کاٹ لوں گا ۔ تو جناب آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ میرا کیا حال ہوا ہوگا کہ کہاں دوپہر تک یہ حال تھا کہ ہمارے پاس ایک پھوٹی کوڑی تک نہ تھی اور میں اپنا موبائل سیل کرنے جا رہا تھا کہ کچھ گزارا ہو اور اچانک ہی کیا ہوا کہ جیسے چٹکی بجاتے ہی سب ٹھیک ہو گیا تو اس وقت سے آج تک کئی بار ایسا ہوتا ہے اور پھر اللہ خیر کردیتا ہے ۔
 
اب بات چل نکلی ہے تو کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔ 2004 میں مجھے کمپنی کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے مین چائنا جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریباّ ایک مہینہ شنگھائی کے ایک انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری میں کمپنی کی طرف سے انسپکن کا کام کرنا تھا۔ فیکٹری والوں نے میری رہائش کا بندوبست بھی انڈسٹریل ایریا میں ہی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کیا ۔ آس پاس فیکٹریاں ہی فیکٹریاں تھیں اور یہ جگہ شہر سے ہٹ کر تھی۔
مجھے بقول غالب یہ فکر لاحق تھی کہ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟:D
یعنی وہاں تو عجیب و غریب قسم کے کھانے ہیں اور تقریباّ ہر کھانا ہی جس تیل یا چربی میں پکایا جاتا ہے وہ حرام جانور کی ہے (واضح ہو کہ باقی بہت سے مسلمانوں کی طرح میری مسلمانی بھی زیادہ تر کھانے پینے کے امور سے تعلق رکھتی ہے) :) ۔
شہر ہوتا تو شائد کوئی بندوبست ہوجاتا، یہ تو انڈسٹریل ایریا ہے ویران سی جگہ ہے، کوئی خاص مارکیٹیں بھی نہیں ہیں یہاں۔
خیر پہلے دن تو ابلے ہوئے انڈوں کا ناشتہ کیا اور باقی وقت میں سیب وغیرہ کھاکر گذارہ کیا۔ میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ اسی طرح پورا ایک مہینہ چلالیتے ہیں۔
دوسرے دن شام کے وقت ذرا وقت گذاری کیلئے باہر نکلا اور سڑک پر بے مقصد مٹر گشت کرنے لگا۔ دسمبر کے آخری دن تھے اور 0 ٹمپریچر تھا۔۔خیر سردی میں چلنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ تو بس یونہی چلتا جارہا تھا کہ اچانک ایک دوکان کے آگے سے گذرنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میں نے کوئی جانی پہچانی سی چیز دیکھی ہو۔ آگے نکل چکا تھا لیکن الٹے قدموں واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جسکے اندر کھانے کی دو چار میزیں لگی ہوئی تھیں اور دیواروں پر مکّے مدینے کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ دکان میں کام کرنے والے چینی لڑکے ہپی تھے لیکن ان کے سر پر ٹوپیاں تھیں :)۔۔۔اندر داخل ہوا تو پتہ چلا کہ یہ تو مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے اور مجھے دیکھتے ہی دکان کا مالک مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر کچن میں لے گیا جہاں ایک خوبصورت سی چینی خاتون کھانا پکارہی تھیں۔ انہوں نے فریزر میں لگے گوشت کی طرف اشارہ کیا اور حلال گوشت کی مہر دکھائی ۔۔بس پھر کیا تھا باقی پورا مہینہ انکے ساتھ دو وقت کا کھانا چلتا رہا جو زیادہ تر فرائیڈ گوشت ہی ہوتا تھا۔ بہت اچھے لوگ تھے کھانے کے ساتھ انہوں نے دو عدد چاپ سٹکس دیں لیکن میرے انداز سے سمجھ گئے کہ یہ بندہ تو پینڈو ہے اسکو چاپ سٹکس استعمال کرنا نہیں آتیں۔ بہت ہنسے اور پھر اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ لکڑی کی ٹوتھ پکس کو کانٹے کے طور پر استعمال کیا جائے۔۔۔۔انکے ساتھ ایک دوستی سی ہوگئی اور واپس آتے وقت اس پوری فیملی کے ساتھ کافی تصویریں وغیرہ کھینچی گئیں، تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ :) خوبصورت لوگ تھے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بندے کا رازق، وہ رب ہے، جو انسان کو وہاں سے بھی رزق مہیا کرتا ہے جہاں اس بندے کا گمان تک نہیں ہوتا۔
بعد میں میں اس پورے علاقے میں کافی گھوما پھرا اور شنگھائی کی بھی سیر کی، لیکن کسی بھی جگہ پر مسلمان یا انکا کوئی ریسٹورنٹ مجھے نظر نہیں آیا (یقیناّ ہونگے)۔۔۔جبکہ جس ویران جگہ پر میں جاکر ٹھہرا تھا، وہیں سامنے چند قدم کے فاصلے پر میرے لئے مناسب رزق کا بندوبست ہوچکا تھا۔۔۔۔اب اسے اتفاق کے کھاتے میں ڈال دیں تو کچھ بھی نہیں، لیکن اگر اسے پروردگارِ عالم کی رزاقی کے حوالے سے دیکھیں تو بہت بڑا سبق ہے :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرے بھی کچھ سچ بیتیاں ہیں پر ان میں اصلاح حاصل کرنے کو کوئی موقع نہیں۔ تو سوچ رہا ہوں کہ ادھر پیش کروں کہ نہیںo_O
 

باباجی

محفلین
اب بات چل نکلی ہے تو کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔ 2004 میں مجھے کمپنی کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے مین چائنا جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریباّ ایک مہینہ شنگھائی کے ایک انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری میں کمپنی کی طرف سے انسپکن کا کام کرنا تھا۔ فیکٹری والوں نے میری رہائش کا بندوبست بھی انڈسٹریل ایریا میں ہی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کیا ۔ آس پاس فیکٹریاں ہی فیکٹریاں تھیں اور یہ جگہ شہر سے ہٹ کر تھی۔
مجھے بقول غالب یہ فکر لاحق تھی کہ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟:D
یعنی وہاں تو عجیب و غریب قسم کے کھانے ہیں اور تقریباّ ہر کھانا ہی جس تیل یا چربی میں پکایا جاتا ہے وہ حرام جانور کی ہے (واضح ہو کہ باقی بہت سے مسلمانوں کی طرح میری مسلمانی بھی زیادہ تر کھانے پینے کے امور سے تعلق رکھتی ہے) :) ۔
شہر ہوتا تو شائد کوئی بندوبست ہوجاتا، یہ تو انڈسٹریل ایریا ہے ویران سی جگہ ہے، کوئی خاص مارکیٹیں بھی نہیں ہیں یہاں۔
خیر پہلے دن تو ابلے ہوئے انڈوں کا ناشتہ کیا اور باقی وقت میں سیب وغیرہ کھاکر گذارہ کیا۔ میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ اسی طرح پورا ایک مہینہ چلالیتے ہیں۔
دوسرے دن شام کے وقت ذرا وقت گذاری کیلئے باہر نکلا اور سڑک پر بے مقصد مٹر گشت کرنے لگا۔ دسمبر کے آخری دن تھے اور 0 ٹمپریچر تھا۔۔خیر سردی میں چلنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ تو بس یونہی چلتا جارہا تھا کہ اچانک ایک دوکان کے آگے سے گذرنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میں نے کوئی جانی پہچانی سی چیز دیکھی ہو۔ آگے نکل چکا تھا لیکن الٹے قدموں واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جسکے اندر کھانے کی دو چار میزیں لگی ہوئی تھیں اور دیواروں پر مکّے مدینے کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ دکان میں کام کرنے والے چینی لڑکے ہپی تھے لیکن ان کے سر پر ٹوپیاں تھیں :)۔۔۔ اندر داخل ہوا تو پتہ چلا کہ یہ تو مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے اور مجھے دیکھتے ہی دکان کا مالک مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر کچن میں لے گیا جہاں ایک خوبصورت سی چینی خاتون کھانا پکارہی تھیں۔ انہوں نے فریزر میں لگے گوشت کی طرف اشارہ کیا اور حلال گوشت کی مہر دکھائی ۔۔بس پھر کیا تھا باقی پورا مہینہ انکے ساتھ دو وقت کا کھانا چلتا رہا جو زیادہ تر فرائیڈ گوشت ہی ہوتا تھا۔ بہت اچھے لوگ تھے کھانے کے ساتھ انہوں نے دو عدد چاپ سٹکس دیں لیکن میرے انداز سے سمجھ گئے کہ یہ بندہ تو پینڈو ہے اسکو چاپ سٹکس استعمال کرنا نہیں آتیں۔ بہت ہنسے اور پھر اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ لکڑی کی ٹوتھ پکس کو کانٹے کے طور پر استعمال کیا جائے۔۔۔ ۔انکے ساتھ ایک دوستی سی ہوگئی اور واپس آتے وقت اس پوری فیملی کے ساتھ کافی تصویریں وغیرہ کھینچی گئیں، تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ :) خوبصورت لوگ تھے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بندے کا رازق، وہ رب ہے، جو انسان کو وہاں سے بھی رزق مہیا کرتا ہے جہاں اس بندے کا گمان تک نہیں ہوتا۔
بعد میں میں اس پورے علاقے میں کافی گھوما پھرا اور شنگھائی کی بھی سیر کی، لیکن کسی بھی جگہ پر مسلمان یا انکا کوئی ریسٹورنٹ مجھے نظر نہیں آیا (یقیناّ ہونگے)۔۔۔ جبکہ جس ویران جگہ پر میں جاکر ٹھہرا تھا، وہیں سامنے چند قدم کے فاصلے پر میرے لئے مناسب رزق کا بندوبست ہوچکا تھا۔۔۔ ۔اب اسے اتفاق کے کھاتے میں ڈال دیں تو کچھ بھی نہیں، لیکن اگر اسے پروردگارِ عالم کی رزاقی کے حوالے سے دیکھیں تو بہت بڑا سبق ہے :)
بہت خوب جناب
کیا بات کہی آپ نے بیشک انسان کو وہاں سے رزق ملتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا
ترجمہ القرآن:
(اے گروہ جن و انس تم پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے)
 

باباجی

محفلین
اب بات چل نکلی ہے تو کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔ 2004 میں مجھے کمپنی کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے مین چائنا جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریباّ ایک مہینہ شنگھائی کے ایک انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری میں کمپنی کی طرف سے انسپکن کا کام کرنا تھا۔ فیکٹری والوں نے میری رہائش کا بندوبست بھی انڈسٹریل ایریا میں ہی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کیا ۔ آس پاس فیکٹریاں ہی فیکٹریاں تھیں اور یہ جگہ شہر سے ہٹ کر تھی۔
مجھے بقول غالب یہ فکر لاحق تھی کہ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟:D
یعنی وہاں تو عجیب و غریب قسم کے کھانے ہیں اور تقریباّ ہر کھانا ہی جس تیل یا چربی میں پکایا جاتا ہے وہ حرام جانور کی ہے (واضح ہو کہ باقی بہت سے مسلمانوں کی طرح میری مسلمانی بھی زیادہ تر کھانے پینے کے امور سے تعلق رکھتی ہے) :) ۔
شہر ہوتا تو شائد کوئی بندوبست ہوجاتا، یہ تو انڈسٹریل ایریا ہے ویران سی جگہ ہے، کوئی خاص مارکیٹیں بھی نہیں ہیں یہاں۔
خیر پہلے دن تو ابلے ہوئے انڈوں کا ناشتہ کیا اور باقی وقت میں سیب وغیرہ کھاکر گذارہ کیا۔ میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ اسی طرح پورا ایک مہینہ چلالیتے ہیں۔
دوسرے دن شام کے وقت ذرا وقت گذاری کیلئے باہر نکلا اور سڑک پر بے مقصد مٹر گشت کرنے لگا۔ دسمبر کے آخری دن تھے اور 0 ٹمپریچر تھا۔۔خیر سردی میں چلنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ تو بس یونہی چلتا جارہا تھا کہ اچانک ایک دوکان کے آگے سے گذرنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میں نے کوئی جانی پہچانی سی چیز دیکھی ہو۔ آگے نکل چکا تھا لیکن الٹے قدموں واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جسکے اندر کھانے کی دو چار میزیں لگی ہوئی تھیں اور دیواروں پر مکّے مدینے کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ دکان میں کام کرنے والے چینی لڑکے ہپی تھے لیکن ان کے سر پر ٹوپیاں تھیں :)۔۔۔ اندر داخل ہوا تو پتہ چلا کہ یہ تو مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے اور مجھے دیکھتے ہی دکان کا مالک مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر کچن میں لے گیا جہاں ایک خوبصورت سی چینی خاتون کھانا پکارہی تھیں۔ انہوں نے فریزر میں لگے گوشت کی طرف اشارہ کیا اور حلال گوشت کی مہر دکھائی ۔۔بس پھر کیا تھا باقی پورا مہینہ انکے ساتھ دو وقت کا کھانا چلتا رہا جو زیادہ تر فرائیڈ گوشت ہی ہوتا تھا۔ بہت اچھے لوگ تھے کھانے کے ساتھ انہوں نے دو عدد چاپ سٹکس دیں لیکن میرے انداز سے سمجھ گئے کہ یہ بندہ تو پینڈو ہے اسکو چاپ سٹکس استعمال کرنا نہیں آتیں۔ بہت ہنسے اور پھر اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ لکڑی کی ٹوتھ پکس کو کانٹے کے طور پر استعمال کیا جائے۔۔۔ ۔انکے ساتھ ایک دوستی سی ہوگئی اور واپس آتے وقت اس پوری فیملی کے ساتھ کافی تصویریں وغیرہ کھینچی گئیں، تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ :) خوبصورت لوگ تھے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بندے کا رازق، وہ رب ہے، جو انسان کو وہاں سے بھی رزق مہیا کرتا ہے جہاں اس بندے کا گمان تک نہیں ہوتا۔
بعد میں میں اس پورے علاقے میں کافی گھوما پھرا اور شنگھائی کی بھی سیر کی، لیکن کسی بھی جگہ پر مسلمان یا انکا کوئی ریسٹورنٹ مجھے نظر نہیں آیا (یقیناّ ہونگے)۔۔۔ جبکہ جس ویران جگہ پر میں جاکر ٹھہرا تھا، وہیں سامنے چند قدم کے فاصلے پر میرے لئے مناسب رزق کا بندوبست ہوچکا تھا۔۔۔ ۔اب اسے اتفاق کے کھاتے میں ڈال دیں تو کچھ بھی نہیں، لیکن اگر اسے پروردگارِ عالم کی رزاقی کے حوالے سے دیکھیں تو بہت بڑا سبق ہے :)
بہت خوب جناب
کیا بات کہی آپ نے بیشک انسان کو وہاں سے رزق ملتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا
ترجمہ القرآن:
(اے گروہ جن و انس تم پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے)
 

باباجی

محفلین
میرے بھی کچھ سچ بیتیاں ہیں پر ان میں اصلاح حاصل کرنے کو کوئی موقع نہیں۔ تو سوچ رہا ہوں کہ ادھر پیش کروں کہ نہیںo_O
یار آپ شیئر کریں اس میں کچھ اصلاح یا سیکھنے سکھانے کی کوئی شرط نہیں ہے
یہ ہربندے کا انفرادی عمل ہوتا ہے کہ اس نے کچھ سیکھا یا نہیں
پلیز شیئر کریں جو بھی آپ کے ساتھ بیتی ہے
ہم انتظار کر رہے ہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یار آپ شیئر کریں اس میں کچھ اصلاح یا سیکھنے سکھانے کی کوئی شرط نہیں ہے
یہ ہربندے کا انفرادی عمل ہوتا ہے کہ اس نے کچھ سیکھا یا نہیں
پلیز شیئر کریں جو بھی آپ کے ساتھ بیتی ہے
ہم انتظار کر رہے ہیں
کرتا ہوں پیش۔۔۔ وہ ذرا شرارتیں زیادہ ہیں اور سچ بیتیاں کم:p
 

باباجی

محفلین
کرتا ہوں پیش۔۔۔ وہ ذرا شرارتیں زیادہ ہیں اور سچ بیتیاں کم:p
آپ نے شرارت کی اور پھر اس شرارت کے بعد جو کچھ ہوا آپ کے ساتھ
تو میرے بھائی وہ سچ میں اپ کے ساتھ ہی بیتی نہ
آپ اسے کہہ سکتے ہیں "وہ سچ جو شرارت کے بعد بیتا" :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ نے شرارت کی اور پھر اس شرارت کے بعد جو کچھ ہوا آپ کے ساتھ
تو میرے بھائی وہ سچ میں اپ کے ساتھ ہی بیتی نہ
آپ اسے کہہ سکتے ہیں "وہ سچ جو شرارت کے بعد بیتا" :p
ہا ہا ہا نیرنگ کچی گولیاں نہیں کھیلتا۔اس لیئے کبھی پکڑا نہیں گیا:ROFLMAO:
 
Top